ڈاکٹرز اور طبی عملے کو مسیحا بھی کہا جاتا ہے‘ کیونکہ یہ لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں اور مریضوں کا علاج کر کے انہیں تکالیف سے نجات دیتے ہیں۔اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں جب بھی جانا ہوا‘ تو یہ دیکھنے میں آیا کہ کم سہولیات کے باوجود یہاں کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے افراد پوری دل جمی سے کام کررہے ہوتے ۔ایمرجنسی کی صورت میں عوام کبھی بھی مہنگے پرائیوٹ ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے‘ بلکہ سرکاری ہسپتال جاتے ہیں‘ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں قابل ڈاکٹرز بیٹھے ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ میری والدہ‘ جو ذیابیطس کی مریض ہیں‘ ان کی شوگرلو(Low) ہوگئی‘ تو ہم انہیں اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے‘ تو وہاں کوئی سینئر ڈاکٹر اس صورت ِ حال کو ڈیل کرنے کیلئے موجود نہ تھا۔ ہم وہاں سے والدہ صاحبہ کو پریشانی کے عالم میں پمز ہسپتال لے گئے تو وہاں موجودڈاکٹرز کے تعاون سے ان کی طبیعت فوراً سنبھل گئی۔جب مجھے اندازہ ہوا کہ نجی ہسپتال اونچی دکان پھیکا پکوان کے مانند ہیں‘ جہاں فانوس تالاب سنگ مرمر کے فرش تو ہیں‘ لیکن ایمرجنسی ڈیل کرنے کیلئے رات گئے ڈاکٹرز نہیں ہوتے۔پمز کا سٹرکچر یوں توپرانا ہے‘ مگر وہاں سہولیات تمام ہیں‘ نیز سینئر ڈاکٹرز اور طبی عملے کے تمام افراد موجود ہوتے ہیں‘تاہم یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں آلات اور ادویات کی کمی ہوتی ہے۔
چندسال قبل میراایک ناخن ٹوٹ گیا اور جب میں پمزگئی تو سرجن نے مجھے کہا کہ او ٹی میں پانی نہیں اور نہ ہی سرجری کا مناسب سامان‘ میں آپ کو لسٹ دیتا ہو ں‘آپ سرجری کا سامان خرید لائیں‘ تومیں آپ کے ناخن کی سرجری کردوں گا۔او ٹی کا عجیب سا ماحول تھا‘ جیسے کوئی زندان ہو۔خیر میں نے ڈاکٹر صاحب کو دستانے‘ ماسک‘ سرجری آلات انجیکشنز لا کر دئیے‘ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میرے ناخن کی سرجری ٹھیک ہوگی اور وہ ہی ہوا؛ چند ہی دن میں میرا ناخن ٹھیک ہوگیا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اورطبی عملے کی حفاظت کے انتظامات انتہائی نا مناسب ہوتے ہیں‘اس کے ذمے دار سرکاری ہسپتال نہیں ‘ بلکہ وہ تمام حکمران ہیں‘ جو وطن عزیز پر برسوں حکمرانی کرتے رہے ‘ ‘لیکن اپنا علاج دبئی یالندن جا کر کرواتے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے صحت کے شعبے کو کبھی ترجیح ہی نہیں دی اور بس ان کاموں پر فوکس رکھا ‘جہاں سے انہیں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو سکتا تھا‘ تاہم آفرین ہے ؛ہمارے ڈاکٹرزاور طبی عملے کیلئے کہ یہ لوگ ناکافی سہولیات کے باوجود مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔کورونا وائرس یا کووڈ19کے پھیلاؤ کے بعد عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جہاں عوام کو بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جا رہا ہے‘ وہیں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو دوران ڈیوٹی مخصوص لباس کا بندوبست اور اسے پہننے کی ہدایات دی گئی تھیں‘ مگر پاکستان میں طبی عملے کو حفاظتی کٹس اور دیگر ساز و سامان بر وقت نہ مل سکا ‘تاہم اب چین سے حفاظتی سامان کی ترسیل شروع ہو چکی ہے ‘جو خوش آئند ہے‘ مگر پھر بھی یہ سامان نا کافی ہے۔
پاکستان میں ینگ ڈاکٹرزنے مخصوص حفاظتی لباس دستیاب نہ ہونے کے باعث ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے سے بھی انکار کر دیا تھا‘ جو اس مسئلہ کی حساسیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ طبی عملے کی کورونا سے سیفٹی حکومت کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہونی چاہیے۔ اس پرپوری توجہ نہ دینے کے نتیجے میں گلگت میں ہم ڈاکٹر اسامہ ریاض کی شکل میں انمول ڈاکٹر کو کھو چکے ہیں‘ جبکہ اسلام آباد‘لاہور‘کراچی سمیت مختلف علاقوں میں ڈاکٹر اور طبی عملہ اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے لیے حفاظتی سامان و لباس کتنا ضروری ہے ؟اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں اور صنعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ طبی عملے کی ذاتی حفاظت کے ساز و سامان کی پیداوار میں 40 فیصد اضافہ کریں۔عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان فیڈیلا شیب کے مطابق ‘دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج معالجہ کرنے والے افراد کو ہر مہینے آٹھ کروڑ 90 لاکھ ماسک‘ تین کروڑ گاؤن‘ ایک کروڑ 59 لاکھ مخصوص چشمے‘ سات کروڑ چھ لاکھ دستانے اور دو کروڑ 90 لاکھ لیٹر ہینڈ سینی ٹائزر درکار ہوں گے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کے مطابق ‘کسی بھی آفت یا وبا سے متاثرہ افراد اور ان کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ذاتی حفاظت کا جو سامان استعمال کرنا ہوتا ‘اسے پی پی ای‘ یعنی (Personal Protective Equipment) کہتے ہیں۔ طبی عملے کے لیے جو سامان ہوتا ہے‘ اس کا بنیادی مقصد وائرس سے بچاؤہے ‘تاکہ مرض ایک مریض سے ڈاکٹر اور پھر وہاں سے دیگر افراد میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس لیے یہ ایسے میٹریل سے تیار کیا جاتا ہے‘ جس سے ذرات یا جراثیم کا گزر نہیں ہوتا۔ ایک ہیلتھ ورکر کے استعمال کا جو ساز و سامان آتا ہے‘ اس میں مخصوص گاؤن‘ سانس کے عمل کو متاثر کیے بغیر جراثیم سے حفاظت کرنے والا این 95 ماسک‘ سر‘ گردن اور کانوں کی حفاظت کے ہیڈ کور‘ مخصوص چشمہ یا فیس شیلڈ‘ دو جوڑے دستانے‘ جوتا کور اور جراثیم کش سینی ٹائزر شامل ہوتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لیے ذاتی حفاظت کا ساز و سامان بھیجا ہے‘ لیکن اگر صورت ِحال میں بہتری نہ آئی تو یہ ساز و سامان بہت کم پڑ جائے گا۔ذہن نشین رہے کہ دو کورونا کے مریض جو اس صحت یاب ہوچکے ہیں ‘ان میں آزاد کشمیر کے لیاقت حسین کے مطابق ‘ڈاکٹرز کے حسن سلوک کی وجہ سے اور ان کی توجہ علاج سے میں صحت یاب ہوگیا۔صحت یاب ہونے والے کراچی کے کورونا کے مریض یحییٰ جعفری نے بھی یہی کہا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے نے ان کابہت خیال رکھا اور وہ صحت یاب ہوگئے۔
پاکستان میں اس وقت دو ڈاکٹرکورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران خود اس کا شکار ہوگئے اور شہید ہوچکے‘ جن میں ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود اس مرض کا شکارہوگئے اور شہید ہوگئے۔اس کے بعد کراچی کے ڈاکٹر عبد القادر سومرو بھی کورونا میں مبتلا ہوکر شہید ہوگئے۔ان شہید ڈاکٹرز کے نام سے ہسپتالوں میں بلاک اور شہروں میں سڑکیں منسوب کی جائیں۔ان کے لیے تمغے کا اعلان کیا جائے اور ان کے لواحقین کی مالی امداد کی جائے۔یہ ان کی قربانی کے برابر تو نہیں‘ لیکن مسیحاؤں کی تکریم ہم پر فرض ہے۔پاکستان میں بیماریاں اور مریض زیادہ ہیں ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کم ہیں‘ اس لیے ان کی صحت کی حفاظت کرنا ناگزیر ہے‘ نیزطبی عملے کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جائے‘ ان کے ڈیوٹی آورز میں کمی کی جائے‘کیونکہ اگر طبی عملہ بیمار ہوگیا تو مریض کہاں جائیں گے ؟
طبی عملے کے ساتھ ساتھ پاک فوج‘پولیس اور دیگر اداروں کا عملہ جو فرنٹ لائن پر کورونا وائرس سے بچاو ٔکی قومی جنگ میں مصروف ہے ‘ان کی خفاظت کے لیے بھی اقدامات کیے جانا ضروری ہیں‘ ساتھ ہی میڈیاکا عملہ جو عوام کو پل پل حفاظتی تدابیر اور معلومات تک رسائی دے رہا ہے‘ اس کی حفاظت بھی حکومت کے پیش نظر ہونی چاہیے۔