تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-04-2020

اللہ کی کرم نوازی اور توکل کا حقیقی مفہوم

پاکستان میں ابھی کورونا کا غلغلہ شروع ہوا تھا کہ میں نے مورخہ سترہ مارچ کوایک کالم لکھا۔ کالم کا عنوان تھا ''گرمی کے انتظار میں‘‘۔ اس کالم میں‘ میں نے لکھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث متوقع جانی نقصانات کے خدشات یورپ اورامریکہ وغیرہ سے بہت کم ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ صدیوں سے بہت ہی زیادہ Unhygienic قسم کے ماحول میں زندگی گزارتے آرہے ہیں اور بخار، ملیریا، انفلوئنزا اور کھانسی وغیرہ جیسی بیماریوں سے اتنی بارنمٹ چکے ہیں کہ اب ان بیماریوں میں سے کسی قسم کی بیماری کا چھوٹا موٹا حملہ ہو تو ہم لوگ بغیر علاج کے ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ صدیوں سے ان بیماریوں کے پے در پے حملوں نے ہم لوگوں کو کافی حدتک اندرونی مزاحمت اور قوت مدافعت عطاکر دی ہے۔ یہ اللہ کی رحمت کے علاوہ اورکیا ہو سکتا ہے کہ آج ہم اس جسمانی قوتِ مدافعت کے طفیل کورونا وائرس سے اس حد تک متاثرنہیں ہوئے جس طرح اہلِ امریکہ اوراہالیان یورپ کا حشر ہورہا ہے۔ میرے اس کالم پر میرے ایک مہربان دوست ڈاکٹر نے مجھے میڈیکل سے ناآشنا شخص کہہ کر کافی چڑھائی کی اورکہا کہ میں اس قوم کو‘ جو پہلے سے ہی خاصی لاپروا اور خراب ہے‘ مزید خراب کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں نے عرض کی: میں احتیاطی تدابیر کے ہرگز خلاف نہیں ہوں‘ صرف اس خوف سے نجات دلانا چاہتا ہوں جو دنیا بھر کے میڈیا نے پھیلا رکھا ہے اور جس کی واحدوجہ یہ ہے کہ اس بیماری نے ان ملکوں میں حشر نشر کر رکھا ہے‘ جنہیں اپنے ہیلتھ سسٹم پر بڑا ناز تھا‘ جنہیں اپنے ہسپتالوں کے نظام پر بڑا مان تھا اور ادویات کے شعبے میں اپنی برتری کاغرور تھا۔ ان کی سب باتیں درست ہیں، لیکن فی الوقت معاملہ تو اس وائرس کا آن پڑا ہے جو حفظانِ صحت کے سارے اصولوں پر عمل پیرا ان تہذیبوں کو متاثر کررہا ہے جہاں اب یہ چھوٹی موٹی بیماریاں تقریباً ناپید ہو رہی ہیں اور ان کی ویکسینز نے وہاں کے رہنے والوں کی جسمانی قوت مدافعت اور اندرونی مزاحمت کے نظام کو ہمہ وقت کی بیرونی امداد اور تحفظ نے بالکل ناکارہ کرکے رکھ دیا ہے؛ تاہم میرے دوست ڈاکٹر نے تب میری بات سے بالکل اتفاق نہ کیا۔ 
کل میں نے اپنے اسی ڈاکٹر دوست کو فون کیا اور ہنستے ہوئے پوچھا کہ میں آپ سے دو چار سوالات کر سکتا ہوں؟ وہ بڑی خوشگواری سے کہنے لگے: دو چار چھوڑ زیادہ سوال کر لیں۔ میں نے کہا: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ کیا ٹرمپ ہمارے عمران خان، عثمان بزدار اور محمود خان وغیرہ سے زیادہ فارغ حکمران ہے؟ ڈاکٹر صاحب قہقہہ مارکر ہنسے اور کہنے لگے: یہ فیصلہ میرے لیے بڑا مشکل ہے‘ آپ کہہ سکتے ہیں یہ سب تقریباً ایک جیسے ہیں‘ نہ کسی سے کم نہ زیادہ۔ میں نے کہا: چلیں یہاں تو سکوربرابر ٹھہرا‘ اب یہ بتائیں کہ کیا امریکہ اور یورپ میں ہسپتال ہم سے کمتر ہیں؟ وہ کہنے لگے: ہمارے ہسپتالوں سے بہت ہی بہتر ہیں۔ میں نے کہا: اچھا یہ بتائیں وہاں کا میڈیکل بجٹ ہم سے کم ہے؟ وہ کہنے لگے: ہم سے بہت زیادہ ہے۔ میں نے کہا: یہ بتائیں کہ کیا وہاں کا ہیلتھ کیئر سسٹم ہم سے بُرا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ان کا ہیلتھ کیئر سسٹم ہم لوگوں سے بہت بہتر ہے۔ خصوصاً یورپ میں‘ اور امریکہ میں بھی ہیلتھ انشورنس سکیم کے تحت انشورڈ لوگوں کے حوالے سے وہاں کا ہیلتھ سسٹم بہت ہی بہتر ہے۔ میں نے کہا: وہاں صفائی اور ہائی جین کامعیار ہم سے بُرا ہے؟ وہ کہنے لگے: ہماری نسبت بہت ہی بہتر ہے بلکہ یوں کہیں کہ آپس میں مقابلہ ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا: اب آخری سوال‘ جو آپ کے ذاتی حوالے سے شایدکافی مشکل ہوگا۔ آپ بحیثیت ڈاکٹر مجھے یہ بتائیں کہ کیا یورپ اور امریکہ کے ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور اپنے پیشے کے حوالے سے اخلاص اور قربانی میں ہم سے کم تر درجے پر ہیں؟ ڈاکٹرصاحب کہنے لگے: میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت، معیارِ تعلیم اور Dedication ہم سے کہیں زیادہ اور بہتر ہے۔ میں نے کہا: اب آپ یہ بتائیں کہ وہاں کورونا کے باعث ہونے والی ہلاکتیں ہماری نسبت اتنی زیادہ کیوں ہیں؟ امریکہ کی آبادی بتیس کروڑ کے لگ بھگ ہے، یعنی ہم سے محض دس کروڑ زیادہ۔ ہم امریکی آبادی کا تقریباً اڑسٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہمارا اور امریکہ کا ہیلتھ کیئر سسٹم، ہسپتالوں کا معیار، علاج کی سہولیات، ڈاکٹروں کا پیشہ ورانہ معیار برابر بھی ہو تو اس لحاظ سے پاکستان میں مریضوں کی تعداد چار لاکھ اٹھارہ ہزار اور خدانخواستہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہونی چاہئے تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
اب ذرا یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں۔ اٹلی کی آبادی چھ کروڑ سے زیادہ ہے اور وہاں مریض ایک لاکھ باسٹھ ہزار سے زائد اور ہلاکتیں اکیس ہزار سے زائد ہیں۔ سپین کی آبادی چار کروڑ ستر لاکھ ہے اور وہاں مریضوں اور ہلاک شدگان کی تعداد بالترتیب ایک لاکھ چوہتر ہزار اور اٹھارہ ہزار ہے۔ امریکہ میں مریض چھ لاکھ چودہ ہزار اور ہلاکتیں چھبیس ہزار سے زائد ہیں۔ فرانس کی آبادی چھ کروڑ پچاس لاکھ اور مریض و ہلاکتیں بالترتیب ایک لاکھ تینتالیس ہزار اور سولہ ہزار ہیں‘ جبکہ برطانیہ کی آبادی چھ کروڑ اسی لاکھ جبکہ مریضوں کی تعداد چورانوے ہزار سے زیادہ ہے اور ہلاکتیں بارہ ہزار سے زیادہ ہیں۔ اگر برطانیہ، فرانس، اٹلی اور سپین کی آبادی جمع کرلیں تو کل آبادی چوبیس کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ وہاں مریضوں کی تعداد پانچ لاکھ چوہتر ہزار اور ہلاک شدگان کی کل تعداد سڑسٹھ ہزار سے زائد ہے۔ چاروں ملکر پاکستان کی آبادی کے لگ بھگ ہیں۔ اس حساب سے دیکھیں کہ پاکستان میں صورتحال کتنی بہتر ہے۔ مریضوں کی تعداد چھ ہزار سے کم ہے۔ جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو سات ہے۔ اس عالمگیر وبا کی عالمی صورتحال کے تناظر میں ہم لوگ تو متاثرین کے کم ترین والے دائرے میں آتے ہیں۔ اور صرف ہم کیا‘ سارا خطہ میرے نقطہ نظر کی عملی صورتحال پیش کررہا ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے سولہ کروڑ اور بھارت کی آبادی ایک ارب اڑتیس کروڑ۔ تینوں ملک ملکر ایک ارب چھہتر کروڑ پچاس لاکھ کا ہندسہ بناتے ہیں۔ یہ آبادی دنیا کی کل آبادی سات ارب ستتر کروڑ کا ساڑھے بائیس فیصد یعنی تقریباً چوتھاحصہ ہے اور یہاں کل دنیا کے کورونا سے متاثرہ مریضوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ دنیا بھرمیں کورونا کے مریضوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائداور مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ستائیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اگرآبادی کے حساب سے مریض ہوتے تو صرف ان تین ممالک میں مریضوں کی تعداد چارلاکھ پچاس ہزار اور ہلاک شدگان کی تعداد اٹھائیس ہزارسے زائد ہونی چاہئے تھی مگر یہ بالترتیب ساڑھے اٹھارہ ہزار اور ساڑھے چار سو ہے۔ یعنی دنیا بھرکے مریضوں اور مرنے والوں کا بالترتیب محض اعشاریہ ترانوے فیصد اور اعشاریہ تینتالیس فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں؟ کم ترین حفظان صحت کی صورتحال، کم ترین صحت کا بجٹ، بدترین ہیلتھ کیئر سسٹم، انحطاط پذیر ہسپتال وادارے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر حفاظتی احکامات اورحکومتی اعلانات پر عوام کا بدترین عملی مظاہرہ۔ اس کے باوجود متاثرین کی اتنی کم تعداد؟آسان الفاظ میں آپ یوں سمجھیں کہ ہم لوگ دیسی مرغیاں ہیں اورترقی پذیر ممالک کے لوگ کنٹرولڈ شیڈ میں پلنے والے برائلر چوزے۔ اگرایک بار بیماری آن گھسے توپورے Flock یعنی جھنڈ کے جھنڈ آناً فاناً موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہم پر قدرت کا انعام ہے‘ لیکن ضروری ہے کہ اس اندرونی مدافعتی نظام کو زیادہ آزمائش میں نہ ڈالیں‘ اوران ساری احتیاطی اور حفاظتی تدابیر پر عمل کریں جو ماہرین بتا رہے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر سے آپ نبیٔ آخرالزماںﷺ کی کئی ایسی سنتیں دوبارہ زندہ کر دیں گے جو ہم بھول چکے ہیں۔ مثلاً آفت کی صورت میں نماز گھرپڑھنے کا معاملہ، کوڑھی سے مصافحہ نہ کرنے کا میرے آقا کا عمل اور صفائی نصف ایمان والا بار بار ہاتھ دھونے کا معاملہ۔ یادرہے کہ ہمارا نظام صحت صرف اورصرف توکل کرنے کی صورت میں مریضوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ مسنون توکل یہ ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھا جائے اور پھر اپنے مالک کے کرم پر توکل کیا جائے۔ (نوٹ:مندرجہ بالا سارے اعدادوشمار مورخہ پندرہ اپریل کے ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved