وفاقی حکومت نے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے جزوی لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ 2 ہفتے توسیع، تعمیراتی صنعت سمیت مختلف کاروبار مشروط طور پر کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ شاپنگ مالز، مارکیٹس، سینما گھر، سپورٹس، سکول کالجز، عوامی مقامات پر اگلے دو ہفتے لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔
ای کامرس، لوکل ڈلیوری سروس، سافٹ ویئر ہائوسز، فرٹیلائزر پلانٹس، نرسریاں اور زراعت کے یونٹس کو بھی کھولا جا رہا ہے، جانوروں کے ہسپتال، کتابوں اور سٹیشنری کی دکانیں، شیشہ بنانے والی صنعتیں، الیکٹریشن، پلمبرز اور بڑھئی کے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حجاموں کو بھی کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ سیمنٹ، بجری اور ریت بنانے والے یونٹس اور تمام ایکسپورٹ انڈسٹری کو کھولا جائے گا۔ خوانچہ فروشوں کو بھی کام کی اجازت ہو گی۔
لاک ڈاؤن میں یہ نرمیاں صرف پاکستان نے ہی نہیں کیں بلکہ یورپ میں بھی کئی ملک ان پابندیوں میں نرمی کر رہے ہیں، کئی طرح کے کاروبار لاک ڈاؤن کے دوران کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ آسٹریا پابندیوں میں نرمی کرنے والا پہلا ملک ہے، جہاں منگل کے روز ہزاروں دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی، جن میں چھوٹے سٹور، ہارڈ ویئر اور باغبانی کی دکانیں کھولنے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ دکانداروں کے لیے ماسک اور دستانے لازمی قرار دیئے گئے ہیں جبکہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا بھی لازمی ہے۔ یکم مئی سے آسٹریا میں شاپنگ سنٹرز، بڑے سٹورز اور ہیر ڈریسرز کی دکانیں بھی کھل جائیں گی۔ مئی کے وسط میں ریسٹورنٹس اور ہوٹل بھی کھلنے کی توقع ہے۔
سپین‘ جو یورپ میں کورونا کی وبا سے متاثر ہونے والا بڑا ملک ہے‘ میں بھی ٹرین سٹیشن کھل گئے ہیں اور کئی طرح کے کاروبار اور دفاتر کھول دیئے گئے ہیں۔ ریڈ کراس اور پولیس ٹرین سٹیشنوں پر مسافروں میں فیس ماسک تقسیم کر رہی ہے۔ فیکٹریاں اور صنعتی شعبہ دونوں کھول دیئے گئے ہیں۔ 26 اپریل سے دکانیں، بازار اور عوامی مقامات بھی کھل جائیں گے۔ اٹلی بھی کورونا سے متاثر ہونے والوں کی فہرست میں پہلے نمبروں پر ہے لیکن وہاں بھی 4 مئی تک کے لاک ڈاؤن کے باوجود بک شاپس، سٹیشنری سٹورز، بچوں کے گارمنٹس کی دکانیں تجرباتی طور پر کھولی گئی ہیں۔ ڈنمارک میں ڈے کیئر سنٹرز اور پرائمری سکول کھل گئے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے پبلک ہیلتھ ماہرین کی آرا میں اختلاف ہے۔ پبلک ہیلتھ کے چند ماہرین اور حکومتی عہدیدار سخت لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج کی بات بھی کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے حامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا کو دبایا نہیں جا سکتا لیکن اس کا پھیلاؤ سست کیا جا سکتا ہے تاکہ صحت کی سہولیات پر اس قدر دباؤ نہ پڑے کہ لوگوں کو علاج کی سہولت مہیا کرنا ممکن نہ رہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے حق میں بات کرنے والے ماہرین ایک اور نظریہ لے کر کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس قدر لوگ اس سے متاثر ہوں گے اسی قدر سماج میں اس وائرس کے خلاف مدافعت رکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔ اگر آبادی کا 50 فیصد وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مدافعت پیدا کر لیتا ہے تو یہ 50 فیصد باقی سماج کو متاثر ہونے سے روکنے میں اہم ہو سکتا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے مشیر اس تصور کی حمایت کرتے نظر آئے؛ اگرچہ انہیں بعد میں اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
وبائی امراض کا ماہر نہ ہونے کی وجہ سے اس بحث کی تفصیل میں پڑنا میرا کام نہیں اور اس پر تبصرہ کرنا بھی درست نہیں ہو گا۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نصف آبادی کے وائرس سے متاثر ہونے اور قوت مدافعت بڑھنے سے صحت یاب ہونے کا تصور درست ہے تو اب تک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لینا ہو گا۔ ان اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ یہ وائرس بزرگوں اور پہلے سے امراض میں مبتلا افراد کے لیے ہلاکت خیز ہے جبکہ جوانوں اور صحت مند افراد میں اس سے ہلاکتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس صورت حال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم کسی ایسی ہیلتھ پالیسی کے حامی ہو سکتے ہیں جو بزرگوں اور سماج کے کمزور افراد کی ہلاکت پر بنائی گئی ہو؟ ایسی ہیلتھ پالیسی جو صرف معیشت کو بچانے کے لیے بزرگوں اور کمزوروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہو۔ ایسی ہیلتھ پالیسی کا مطلب ہے کہ جوان اور صحت مند افراد کو بچا لیا جائے اور کمزوروں کی قربانی دے دی جائے۔ ناروے کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر نے حال ہی میں کہا کہ اس وبا کو روکا نہیں جا سکتا اور ناروے کی 40 سے 60 فیصد تک آبادی اس وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آبادی کا بڑا حصہ قوت مدافعت پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس وائرس سے متاثرہ افراد سے مل کر دوبارہ بیمار نہیں ہو گا۔ ناروے کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر کا یہ بیان اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ کیا انسانوں کی صحت سے معیشت زیادہ اہم ہے؟ اس صورت حال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مارکیٹ اکانومی اب لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کی مجاز قرار پائی ہے۔
حکومتیں یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ مارکیٹ کو چلنے نہ دیا گیا تو ملک تباہ ہو جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ کورونا وائرس کی نسبت لاک ڈاؤن اور معاشی بحران زیادہ زندگیاں نگل جائے گا اور معاشی بحران کورونا وائرس سے زیادہ تباہ کن ہو گا۔ جوان نسل کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ وہ وائرس سے ہلاک نہیں ہوں گے، یوں بوڑھوں اور کمزوروں کو جوانوں سے الگ ایک گروہ بنا دیا گیا ہے۔ جوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے پر ان کے مرض کی علامات بھی بوڑھوں اور کمزوروں کی نسبت کم شدید ہوں گی۔ یہ تاثر کہ ''تم‘‘ بچ جاؤ گے، مسئلہ تو ''باقی‘‘ لوگوں کا ہے۔ لیکن اب نئے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ کسی دوسرے مرض میں مبتلا نہ ہونے کے باوجود جوان بھی اس وائرس سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ''تم‘‘ بچ سکتے ہو‘ کا یقین دلانے والے اب کیا کہیں گے؟ شاید یہ کہنا پڑے کہ ''تم‘‘ بھی ان میں سے ایک ہو سکتے ہو۔
جو حکومتیں لاک ڈاؤن نرم کر رہی ہیں وہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات کو کیسے یقینی بنائیں گی؟ وہ ان اقدامات کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں؟ ورکروں کے لیے حفاظتی لباس کیسے دستیاب ہوں گے‘ جبکہ طبی عملہ پہلے ہی حفاظتی لباس دستیاب نہ ہونے کا رونا رو رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا کوئی بھی بڑے سے بڑا ملک بندوبست نہیں کر پایا۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی ٹریکنگ کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے لیکن اب تک پرائیویسی قوانین نہیں بنائے جا سکے۔
حکومتوں اور پبلک ہیلتھ ماہرین کی پالیسیوں میں پایا جانے والا ابہام مزید خوف اور عدم استحکام پیدا کر رہا ہے اور مارکیٹ اکانومی کو بچانے کی یہ کوششیں شاید مارکیٹ کو زیادہ مہنگی پڑیں گی۔ جب تک ویکسین تیار نہیں ہو جاتی تب تک لوگ بیمار ہوتے رہیں گے، حکومتیں اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی بجائے مارکیٹ بچانے کی کوشش میں ہیں۔ حکومتیں عوام کی صحت پر مارکیٹ کو ترجیح دے رہی ہیں۔ مارکیٹ اکانومی کو بچانے کی کوشش کرنے والے یاد رکھیں جب لوگ بیمار ہوں، مر جائیں گے یا اس وائرس کے خوف سے ذہنی بیمار ہو جائیں گے تو دنیا میں کہیں بھی کوئی خوشحال انسانی معاشرہ نہیں ہو گا۔ تب مارکیٹ اکانومی کیا کرے گی؟؟