تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     16-04-2020

انٹرنل ‘ ایکسٹرنل چہرے

مجھ سمیت کسی سے بھی بات کرلیں‘سب کا ایکسٹرنل چہرہ یہی بتائے گا کہ مجھ سے یا اُس سے ایماندار دنیا میں کوئی دوسرا ہے‘ نہ ہوگا۔ ہرکوئی ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایمانداری کی بلند ترین چوٹی پر براجمان ہے ۔ بس ایک وہ ہے اورچند ایک اُس کے جاننے والے ہیں ‘جو دنیا میں ایمانداری کا جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ڈھونڈتے رہیں‘ مارے مارے پھرتے رہیں ‘لیکن شاید ہی کبھی کوئی ایسا مائی کا لال مل پائے‘ جو اعتراف کر گزرے کہ وہ غلطیاں کرتا رہا ہے۔ بہت سے نہیں تو کم از کم ایک آدھ موقعے پر ہی سہی‘ اُس سے دوسرو ں کے حقوق سلب کرنے کا گناہ سرزد ہوا ہے۔ اعتراف کرلے کہ ہاں میں بجلی چوری کرتا رہا ہوں‘ جی جی میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ٹیکس چوری کرکے ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوا ہوں۔ ہاں میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے سبسڈی کی آڑ میں دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی ہے۔ ہم نے اپنے بارے میں خود بیان کیا یا جب بھی کسی کے بارے میں اُس کی زبانی سنا‘ یہی بتایا اور سنا کہ بس میں ہی یا وہ ہی دنیا کا سب سے شریف شخص ہے‘ جن کے پاس کوئی بااثر میڈیم بھی موجود ہو تو اُن کے لیے ایمانداری ‘ شرافت اور راست گوئی کا جھنڈا بلند کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ گریز ہے بتانے سے ‘ورنہ انٹرنل چہروں کے بارے میں بتاؤں کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہنے والے بے اشمار احباب کو کیا کچھ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں ۔ وہ جو قوم کو ہمیشہ شرافت اور خوش اخلاقی کا درس دیتے ہیں‘ اپنے سے کمزورو ں کے ساتھ بدتمیزی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ دوچار تو ایسے لوگو ں کو بھی جانتا ہوں‘ جن کے بھاشن سن اور اُن کے ایکسٹرنل چہرے دیکھ کر اُنہیں خواہ مخواہ فرشتہ مان لینے کو جی چاہتارہا‘ لیکن جب انٹرنل چہرے سامنے آئے تو پوری کی پوری عمارت ہی دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔ شروع شروع میں افسوس بھی ہوتا تھا کہ ہم کس قدر دوغلے ہیں‘ لیکن پھر دل کو سمجھا لیا حد تو یہ ہے کہ پکڑے جانے پر بھی اپنی صفائی میں ایک سے ایک تاویل پیش کی جاتی ہے ۔سب کچھ ثابت ہوجانے کے باوجود یہی رٹ سننے میں آتی ہے کہ یہ میرے خلاف سازش ہے۔ کس کی سازش ہے؟وقت آنے پر بتاؤں گا اور پھر دہائیاں گزر جاتی ہیں ‘ وہ وقت آنا ہوتا ہے‘ نہ آتا ہے۔
زیادہ دُور مت جائیے‘ صرف حال ہی میں سامنے آنے والی چینی بحران کی رپورٹ کو سامنے رکھ لیجئے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کہتی ہے کہ چینی بحران سے فائدہ اُٹھانے والوں میں حکومت کے اہم رہنماؤں کے علاوہ اُن کے قریبی عزیز بھی شامل ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی انکشاف کرتی ہے کہ حکومتی شخصیات نے سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش کی‘ سیاسی شخصیات کا اثرورسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کے باعث انہوں نے بہت ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کو یقینی بنایا۔اس پورے کھیل میں کس نے کتنا منافع کمایا؟اوراس کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا‘ یہ سب کچھ سامنے آچکا ہے۔ اب‘ حکومتی زعما یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے چینی بحران کی رپورٹ عوام کے سامنے لانے کا وعدہ پورا کردیا ہے۔ یہ شنید بھی سنائی جارہی ہے کہ بحران پیدا کرنے اور ناجائز منافع کمانے والوں کو اُن کے کیے کی سزا بھی ملے گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو؛ حالانکہ اس کی ماضی میں تو کوئی بڑی مثال نہیں ملتی‘ لیکن اگر حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے تو اُس پر کچھ عرصے کے لیے تو یقین کرہی لینا چاہیے۔اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بتا دیا جاتا کہ جس کمیٹی نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی‘ اُس کا سربراہ کون تھا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رپورٹ ہمارے چھپے ہوئے چہروں کو سامنے نہیں لاتی؟کیا یہ رپورٹ ظاہر نہیں کرتی کہ ہم میں دوغلا پن کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے؟ ایک چہرے کے ساتھ ہم عوام کے غم میں دبلے ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے چہرے کے ساتھ مال سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ بس‘ یہی بات سب سے زیادہ دکھ پہنچاتی ہے۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب ہمارے اعتماد کی پوری کی پوری عمارت دھڑام سے نیچے آن گرتی ہے۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ اپنے ظاہری چہروں کے ساتھ ہم سے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں اور اندر سے کیا نکلتے ہیں۔اب ‘سب کچھ سامنے آنے کے باوجود اعتماد مجروح کرنے والوں کی طرف سے یہی کہا جارہا ہے کہ انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ 
اس حوالے سے 25اپریل تک فرانزک رپورٹ سامنے آنے کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ گمان کیا جارہا ہے کہ فرانزک رپورٹ میں مزید حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے۔اس سے پہلے رپورٹ کے تناظر میں حکومتی سطح پر نمایاں تبدیلیاں کی جاچکی ہیں ۔ کچھ شخصیات کو منظرسے ہٹا دیا گیا اور کچھ کو سامنے لایا گیا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمیشہ ایسے موقع پر کیا جاتا ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو ہمیشہ ہمارے اعتماد کا خون کیا جاتا ہے‘ اُس کا ذمہ دار کون ہے؟کیا ہم ہمیشہ دوچہروں کے ساتھ ہی زندگی گزارتے رہیں گے۔ ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے پوری کی پوری قوم شدید مغالطوں کا شکار ہوچکی ہو۔یوںمحسوس ہوتا ہے ‘جیسے ہم کسی وسیع وعریض صحرا میں ذلیل وخوار ہورہے ہیں۔ سچی بات ہے کہ مکمل طور پر یہ احساس جڑیں پکڑ چکا کہ دنیا صرف اور صرف امیر اور غریب کے درمیان تقسیم ہے۔ کوئی غریب ہے تو اُس کے لیے کہیں بھی کوئی جائے پناہ نہیں ۔ اُس کے لیے ہرجگہ پر صرف دھکے ہی دھکے ہیں ۔ اگر کوئی امیر ہے تو پوری دنیا اُسے بلارنگ و نسل و مذہب خوش آمدید کہے گی۔ہرکوئی ہاتھوں پر بٹھائے گا۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ آخرکوئی سرمایہ دار کیوں کر صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے تمام وسائل ملک کے حکمران کے لیے مختص کرے گا؟ملک و قوم کا ایسا بھی کیا درد کہ تن‘ من‘ دھن اُس کے لیے قربان کردینے کا جذبہ عود عود آئے اور حکمرانوں کا بھول پن تو دیکھئے کہ قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ سوچتا ہوں تو دکھ ‘ شدید دکھ ہوتا ہے کہ کہاں گیا‘ وہ ریاست ِمدینہ کا تصور؟ کہاں گیا‘ وہ آٹھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس جو حکومت نے اکٹھا کرنا تھا ؟ چلو مان لیا کہ کورونا کی وجہ سے مالیاتی اُمور بری طرح سے متاثر ہوگئے ہیں ‘لیکن گڈگورننس نامی کسی چڑیا کو لانے کے دعوے بھی کیے گئے تھے‘ اُن کا کیا ہوا؟؟
افسوس کہ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ رہا۔ مالیاتی اُمور بہتر ہوئے‘ نہ گڈگورننس نامی کسی چڑیا سے ملاقات ہوسکی۔ رہی بات چینی بحران اور اس کے ذمہ داروں کی جوابدہی کی تو یہ بیل بھی بظاہر تو منڈھے چڑھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ اتنا آسان ہوتا تو منافع خوری کا اتنا کھلا کھیل ہی نہ کھیلا جاتا۔چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کوئی ہوا میں تو نہیں ہوا تھا۔ سب کچھ سب کے سامنے تھا۔ دووفاقی سیکرٹری نقار خانے میں طوطی کی آواز بلند کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے‘ لیکن پہلے کبھی کسی نے توتی کی آواز سنی ہے ‘جو اب سنتا۔ رہی بات اس کریڈٹ کی کہ حکومت نے رپورٹ عوام کے سامنے لانا کا وعدہ پورا کردیا ہے تومیری مصدقہ اطلاعات کے مطابق‘ دراصل یہ رپورٹ کچھ میڈیا پرسنز کے ہاتھ لگ گئی تھی‘ لہٰذاحکومت کو مجبوراًاسے سامنے لانا پڑا‘ ورنہ یہ بھی وہیں کہیں منہ چھپائے بیٹھی رہتی ‘جہاں اس جیسی اور بہت سی رپورٹس اپنا وقت گزار رہی ہیں۔ اس وقت تو یوں بھی دست ِغیب سے کورونا وائرس کی صورت میں مدد آن پہنچی ہے‘ جس کی گرد میں ‘ چینی بحران رپورٹ کیا اور بھی بہت کچھ چھپ کر رہ جائے گا۔ ویسے بھی متعدد سہاروں پر کھڑی حکومت کے لیے کہاں ممکن ہے کہ وہ اپنی ہی بیساکھیوں کو خود سے الگ کردے۔ بتانے والوں کا تو یہی بتانا ہے کہ ظاہری چہرے کے ساتھ ذمہ داروں کو سزا دینے کی بات ہورہی ہے اور چھپے ہوئے چہرے کے ساتھ معاملات کو سنبھالنے کی کوششیں زوروشور سے جاری ہیں‘ جو جلد کامیابی سے بھی ہمکنار ہوجائیں گی۔ شاید ہم جیسے کمزوروں کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ وہ دوچہروں کے بغیر کام چلا ہی نہیں سکتے!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved