امریکی صدر باراک اوبامہ نے چند روز پہلے دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کی اپنی پالیسی پر ایک طویل تقریر میں موضع کے مختلف پہلوئوں کا تفصیل سے احاطہ کیا۔ جن نکات کا تعلق پاکستان سمیت مسلم دنیا سے بنتا ہے ان پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ امریکہ کی خارجہ حکمت عملی تو وہی رہے گی جو عشروں سے چلی آرہی ہے اور جس کے نتیجے میں مسلمان اکثریتی آبادی والے ملکوں میں امریکہ کے خلاف نفرت موجود ہے لیکن اب اسی خارجہ حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے امریکہ اپنے طریقہ کار کو تبدیل کردے گا۔ عراق اور افغانستان پر فوج کشی کے نتیجے میں امریکہ کو وہ ناقابل برداشت اخراجات اٹھانے پڑے جس سے معیشت کی کمر ہی ٹوٹ چلی تھی اور ساتھ ہی اپنے فوجیوں کی میدان جنگ میں اموات، ان کی بھاری تعداد میں خودکشیوں ، ہزاروں زخمیوں کی دیکھ بھال اور واپس آنے والے فوجیوں کے نفسیاتی مسائل نے پوری امریکی قوم کا مورال انتہائی پست کرکے رکھ دیا ہے۔ اسی پس منظر میں صدر اوبامہ نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ کوئی صدر بھی دہشت گردی کی مکمل شکست کا وعدہ تو نہیں کرسکتا لیکن دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کی مرحلہ وار کوششیں لازماً جاری رہنی چاہئیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا ’’اس جنگ کو (دہشت گردی کے خلاف جنگ کو) دیگر دوسری جنگوں کی طرح لازماً ختم ہونا چاہیے کیوں کہ تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے ، صدر اوبامہ کی اس گفتگو کا سابق صدر جارج بش کی دہشت گردی ختم کرنے کے ضمن میں تقریروں کے متن سے اگر موازنہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اب امریکہ تھک چکا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی صورتحال میں پیدا ہونے والے چیلنجز یا فوجیوں کی اموات وخودکشیوں اور زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال اور واپس آئے فوجیوں کے نفسیاتی مسائل ہی محض اس تھکن کی وجہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف برسوں سے جاری یہ جنگ اب تھوڑی تھوڑی گھر تک پہنچتی معلوم ہونے لگی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوفناک احساس ہے جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ ابھی سفر طویل ہے اور تھکن اور بھی بڑھے گی۔ صدر اوبامہ نے اس پہلو کا ذکر اپنی تقریر میں ان الفاظ میں کیا ہے New dangers come from Al-Qaeda affiliates, localized extremist groups and homegrown terrorists. اس جملے میں اپنے گھر میں پیدا ہونے والے دہشت گردوں کا ذکر اگرچہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ برسبیل تذکرہ کردیا گیا ہے لیکن اصل میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ملکوں کے معاشرے جس قسم کی زندگی اور آزادیوں کے عادی ہوچکے ہیں ان میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ان کے ہمسائے سے ایک شخص اٹھے گا اور بلاامتیاز قتل وغارت پر اتر آئے گا۔ حال ہی میں امریکی شہر بوسٹن میں ایک میراتھان ریس کے دوران جو بم دھماکے ہوئے ان کی حیثیت جو کچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے ان کے مقابلے میں بالکل معمولی تھی لیکن آپ اس کا ردعمل دیکھیں۔ TVکی کوریج مسلسل ہوتی رہی۔ پھر جس طرح کرفیو نافذ کرکے ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد آج تک بوسٹن میں اس واقعے کا خوف موجود ہے۔ تازہ ترین واقعہ لندن میں ہوا ہے جہاں ایک برطانوی فوجی Lee Rigbyکو Wool wichکے علاقے میں اس بہیمانہ انداز میں ہلاک کیا گیا کہ اس کی تفصیل نہ ہی دہرائی جائے تو بہتر ہے۔ مرنے والے برطانوی فوجی کی بیوی کا کہنا تھا کہ اس کے شوہر کے ساتھ برطانیہ میں جوکچھ ہوا ،اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ برطانیہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔ یہ جو عام شہری کو اپنے ملک میں محفوظ ہونے کا احساس ہے یہ احساس مغربی ملکوں کے معاشروں کے لیے بہت قیمتی ہے اور اس احساس کو کسی قیمت پر بھی یہ معاشرے کھونے کو تیار نہیں ہوسکتے۔ 11ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ نے اپنے ہاں ایسی خوفناک پابندیاں عائد کیں کہ وہاں بارہ برس گزرجانے کے باوجود اب بھی مسلمان نام کے شخص کا کسی ہوائی اڈے سے باہر آنے کا عمل انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مسلمان آبادی پر نظر رکھنے کے لیے کتنے وسائل استعمال ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے ۔آج کل دہشت گردی کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماسٹر مائنڈ کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ اپنے بیڈ روم میں ہی ایک نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے سب کچھ سیکھ کر ایک خطرناک انتہا پسند میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ تازہ ترین واقعہ گزشتہ ہفتے کے روز فرانس میں پیرس کے مضافات میں واقع ایک معروف کمرشل ایریا میں پیش آیا ہے جہاں ایک فرانسیسی فوجی کے گلے پر ایک شخص چاقو کا وار کرکے فرار ہوگیا۔خیال کیا جارہا ہے کہ مغربی ملکوں میں یہ فوجی جوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ حقیقت کیا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن گزشتہ برس فرانس ہی میں پیداہونے والے نوجوان نے ،جس کو اسلامی انتہا پسند باور کیا جاتا ہے، تین فرانسیسی پیراٹروپرز کو قتل کرنے کے بعد یہودیوں کے ایک سکول پر حملہ کرکے مزید چارافراد کو ہلاک کردیا تھا۔ جس انداز میں مغربی ملکوں میں ایسے اکا دکا واقعات سے نمٹا جارہا ہے اور جس سنجیدگی سے ایسے واقعات کی روک تھام کو مستقبل کا ایک چیلنج باور کیا جارہا ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب مغربی دنیا کے باہر دہشت گردی کے خلاف جنگ تو زیادہ تر ڈرون حملوں سے ہی لڑی جاتی رہے گی لیکن مغربی دنیا کے ممالک کے اندر جونئے خطرات جنم لے چکے ہیں ،ان سے نمٹنے پر بہت زیادہ توجہ صرف کی جائے گی۔ ان حالات میں ہمارے جو لیڈر پاکستان پر ڈرون حملے بند کروانے کی بات کررہے ہیں ان کو چاہیے کہ خارجہ حکمت عملی کے اپنے مشیروں سے ایک مرتبہ اور بریفنگ لیں ہوسکتا ہے انہیں حقیقت کا ادراک ہوجائے ،اگر ہمارا ملک ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ان اندرونی خطرات کو ختم کرنے کی ان کی مہم کا کسی طورایک موثر شریک کاربن جائے تو ممکن ہے امریکہ ڈرون حملوں پر ہمیں کچھ رعایتیں دینے پر تیار ہوجائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved