اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو یہی زیبا تھا (اور ہم جیسوں کو بھی ان سے یہی توقع تھی) اٹارنی جنرل آفس سے جاری کردہ ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ عمران خان صاحب پاکستان کے پہلے ایماندار وزیراعظم ہیں‘ سوموار کو کورونا وائرس پر سوؤموٹو نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ریمارکس پر انہوں نے جو الفاظ کہے‘ وہ یہ تھے کہ عمران خان ایک ایماندار وزیراعظم ہیں اور اس کا مقصد کسی سابق وزیراعظم کے مقام و مرتبہ کو کم کرنا نہیں تھا۔ ٹوئٹر پر جاری کردہ وضاحت میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تصویر کے ساتھ مزید کہا گیا تھا کہ شہیدِ ملت سے لے کر اب تک عوام کے منتخب تمام وزرائے اعظم یکساں عزت و احترام کے حقدار ہیں۔
کورونا وائرس پر سوؤ موٹو نوٹس کی سماعت کے دوران‘ چیف جسٹس عزب مآب گلزار احمد اور ان کے برادر جج صاحبان کے ریمارکس دن بھر الیکٹرانک میڈیا کی ہیڈ لائنز بنے رہے‘ اس شب ٹاک شوز کا موضوع بھی یہی تھے۔ اگلے روز اخبارات کی شہ سرخیاں انہی پر مشتمل تھیں۔ بعض ریمارکس تو ایسے تھے کہ پڑھنے اور سننے والوں نے جگر تھام لیا۔ کورونا کے حوالے سے سندھ حکومت کی کارکردگی بھی زیر بحث تھی لیکن زیادہ زور وفاقی حکومت پرر ہا۔ چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ ہم ریمارکس دینے میں بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور اس احتیاط کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ (غیر منتخب) مشیر اور معاونین خصوصی کابینہ کے منتخب ارکان پر حاوی نظر آ رہے ہیں‘ کابینہ غیر مؤثر ہو چکی ہے‘ اس کے فوکل پرسن تک (غیر منتخب) مشیر ہیں‘ (اور معذرت کے ساتھ کہ) وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم صاحب کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی ''کارکردگی‘‘ کو بطور خاص ہدف بنایا۔ وہ تو مرزا صاحب کی کوئی نیکی کام آ گئی کہ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں‘ مرزا صاحب کی برطرفی کا حکم جاری نہیں کیا ۔اس شام مرزا صاحب پریس بریفنگ میں موجود تھے‘ بدھ کو ان کی برطرفی کی خبربعض چینلز کی ہیڈ لائن بنی رہی ‘رات گئے ایک ٹاک شو میں شہباز گل نے اس کی تردید کر دی‘ البتہ جمعرات کے بیشتر اخبارات میں (باوثوق ذرائع سے) ان کی کارکردگی پر وزیراعظم کے عدم اطمینان اور برہمی کی خبریں موجود تھیں۔
اہم امور پر فیصلوں میں‘ غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے حاوی ہونے کی بات تو کچھ عرصہ قبل کابینہ کے منتخب رکن فواد چودھری نے بھی کہی تھی (اور ڈنکے کی چوٹ کہی تھی)۔ پی ٹی آئی (اور پرائم منسٹر ہاؤس) کے ایک چہیتے اینکر پرسن نے اسے فواد چودھری کی پیپلز پارٹی میں واپسی کا اشارہ قرار دے دیا‘ جس کا خمیازہ موصوف کو‘ فیصل آباد میں شادی کی ایک تقریب میں‘ چودھری صاحب کے زور دار طمانچے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اسی طرح کا سلوک فواد چودھری نے لاہور میں ایک اور اینکر کے ساتھ بھی روا رکھا (پس ثابت ہوا کہ جہلم کا یہ چودھری ''منہ پھٹ‘‘ ہی نہیں‘ ''ہتھ چھٹ‘‘ بھی واقع ہوا ہے) فواد چودھری کا تعلق جہلم کے قدیم سیاسی خانوادے سے ہے۔ خاندان کے سربراہ چودھری الطاف حسین (مرحوم) نے ایوب خاں کے دور میں حزبِ اختلاف سے لازوال وابستگی (اور صدارتی الیکشن میں مادرِ ملت کی بھرپور حمایت) سے عزت اور شہرت پائی۔ مقامی سیاست کے تقاضوں کے باعث پیپلز پارٹی کے ہو گئے۔ بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں پنجاب کے گورنر رہے (گورنر ہاؤس ہی میں انتقال ہوا) فواد چودھری کے دوسرے انکل چودھری شہباز حسین 1980ء کی دہائی میں جدہ چلے گئے تھے۔ وہاں اپنا بزنس کرتے ہیں۔ مدینہ روڈ پر ان کا ہوٹل‘ فکر و نظر کے اختلاف کے باوجود وہاں کے سیاسی کارکنوں کا ڈیرہ اور بسیرا رہتا ہے۔ ہمیں بھی جدہ میں اپنے بارہ سالہ قیام کے دوران ان کی شفقت اور محبت حاصل رہی۔ ایک دور میں‘ وہ جدہ میں بے نظیر صاحبہ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی علامت سمجھے جاتے تھے۔ پھر مشرف کی کابینہ میں وزیر ہو گئے۔ ذاتی طور پر تو ہم فواد چودھری کے بھی ممنون ہیں کہ ان سے جب بھی (اور جہاں بھی) ملاقات ہوئی انہوں نے اپنے بزرگوں سے ہمارے اس تعلق کا لحاظ رکھا اور اس کا زبانی اظہار بھی کیا ‘ لیکن کیا ہرج ہے اگر وہ اس خوئے دلنوازی کا دائرہ وسیع کر لیں‘ بے چارے مولوی صاحبان ان کا خصوصی ہدف رہتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کے متعلق ان کا تازہ بیان‘ اس کی تازہ مثال ہے۔
یہ شاید لاک ڈاؤن کی پیدا کردہ منتشر خیالی ہے کہ اٹارنی جنرل کے وضاحتی بیان سے شروع ہونے والی بات کسی اور طرف نکل گئی۔ (سچ بات یہ ہے کہ عام دنوں میں بھی بعض قارئین کو ہماری اس کمزوری کی شکایت رہتی ہے) کیپٹن (ر) انور منصور کی جگہ خالد جاوید اٹارنی جنرل بنے تو مخالفین طنز کئے بغیر نہ رہے‘ کپتان کو اٹارنی جنرل بھی پیپلز پارٹی سے لینا پڑا۔ خالد جاوید خان کے والد این ڈی خان کی پیپلز پارٹی سے وابستگی دیرینہ ہے‘ وہ بے نظیر صاحبہ کی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ خالد جاوید کو قریب سے جاننے والوں کا حسنِ ظن تھا (اور اب بھی ہے) کہ اٹارنی جنرل کے طور پر‘ ان کا رویہ خالصتاً ''پروفیشنل‘‘ ہوگا۔
ان کا وضاحتی بیان اسی طرزِ فکر و عمل کا اظہار ہے۔ الحمد للہ پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ کا غالب حصہ صادق اور امین ہی رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے لے کر بعد کے ادوار تک صداقت و امانت کی یہ روایات قائم رہیں۔ یہ بات تو پرانی ہو چکی کہ متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں کرنال کی وسیع و عریض جاگیر کا مالک مہاجر بن کر پاکستان آیا‘ تو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہونے کے بعد اپنے لیے الاٹ منٹ کا کوئی دعویٰ نہ کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہندوستان سے آنے والے آخری مہاجر کی آباد کاری تک میں اپنے لیے ایک انچ زمین بھی الاٹ نہیں کراؤں گا۔ شہادت کے وقت شیروانی کے نیچے‘ پھٹے ہوئے کالر والی قمیص‘ پاؤں میں رفو شدہ جرابوں کا جوڑا اور سو روپے سے بھی کم کا بینک بیلنس۔ سردار عبدالرب نشتر لیاقت علی خاں کی پہلی کابینہ میں تھے‘ پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ چودھری محمد حسین چٹھہ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ سردار نشتر کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے‘ دو ماہ کا بِل 18ہزار روپے بن گیا جو ایک دوست نے چپکے سے ادا کر دیا‘ جس پر سردار صاحب کا کہنا تھا‘ پشاور میں دو چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں‘ ان میں سے ایک بیچ کر ادھار چکا دوں گا۔
ڈھاکا کے نواب خاندان کے چشم و چراغ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل اور وزیراعظم رہے اور تین کمروں کے گھر میں آخری سانس لی۔ 1956ئ کے آئین کے خالق چودھری محمد علی وزیراعظم تھے‘ لندن سے کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کی دعوت آئی۔ یہ دعوت مسٹر اینڈ مسز محمد علی کے نام تھی۔ آپ نے کابینہ کی میٹنگ میں یہ مسئلہ رکھا۔ لندن کے ہوٹل میں تو بیگم صاحبہ کے اضافی اخراجات نہیں ہوں گے‘ لیکن مسئلہ کراچی سے لندن تک ہوائی سفر کا تھا‘ جس کے لیے کابینہ سے بیگم صاحبہ کے ٹکٹ کی خصوصی منظوری لینا پڑی۔ سیاستدانوں (اور حکمرانوں) کو بدنام کرنے کی لمبی کہانی ہے جو کالم کا نہیں کتاب کا موضوع ہے۔
متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں کرنال کی وسیع و عریض جاگیر کا مالک مہاجر بن کر پاکستان آیا‘ تو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہونے کے بعد اپنے لیے الاٹ منٹ کا کوئی دعویٰ نہ کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہندوستان سے آنے والے آخری مہاجر کی آباد کاری تک میں اپنے لیے ایک انچ زمین بھی الاٹ نہیں کراؤں گا۔