مخصوص نشستیں اور اتحادی ملا کر 342کے ایوان میں 192سیٹیں ۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے برعکس نون لیگ اب آزاد ہے ۔ سادہ اکثریت سے محرومی کے علاوہ بھی صدر زرداری \"مفاہمت \"کے قائل تھے ۔ جمعیت علمائِ اسلام ، اے این پی،ایم کیو ایم ، قاف اور نون لیگ ، وقتا فوقتاً سبھی کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ظاہر ہے کہ ایک دیوہیکل کابینہ کے اخراجات عوام کو برداشت کرنا تھے ۔ نون لیگ کی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ابتدا حکومتی اخراجات گھٹانے کے اعلان سے کی تھی ۔ بعد میں سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ وزیر اعظم ہائوس اور صدر ہائوس کے اخراجات سامنے آئے تو قوم پر دنگ رہ گئی۔ نواز شریف کی یہ حکومت ان کے پچھلے دو ادوار سے بالکل مختلف ہوگی ۔گزشتہ چند برسوں میں ایسے ممالک بھی اقتصادی بحران کا شکار ہوئے، پاکستانی معیشت جن کا 10فیصد بھی نہیں اور جن کی حکمران جماعتیں بہترین کارکردگی دکھاتی ہیں ۔پرویز مشرف اور پھر صدر زرداری کے دور نے پاکستانی معیشت اُجاڑ ڈالی ۔ صدر زرداری کا دور تو اایسا بدترین تھا کہ پرویز مشرف کے ایّام سنہری دکھائی دینے لگے ، ایسا اگرچہ ہرگز نہیں۔ پچھلے ادوار میں میڈیا کے نام پر سرکاری سچ پیش کرنے والا ایک ٹی وی چینل تھا اور حکومتی احکامات تسلیم کرنے پر مجبور چند اخبارات۔اب میڈیا آزاد ہے ۔ ذاتی مفادات حاصل کرنے والوں کی بات اور ہے مگر آج کا صحافی سچ بول سکتا ہے ۔پھر سوشل میڈیا ہے، شاہ زیب قتل کیس سمیت کئی بار جس نے فارمل میڈیا کو اپنی پیروی پر مجبور کیا۔ سوشل میڈیا سنی سنائی بھی پھیلاتا ہے اور غیر ذمہ دار ہے لیکن اس کے کردارکو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔1999ء میں عدالت غلط اقدامات پر حکومت کو ٹوک نہ سکتی تھی ۔ جسٹس سجّاد علی شاہ نے جسارت کی تو نتائج بھگتنا پڑے ۔ 2007ء کیء بعد عدلیہ اور سول سوسائٹی کاکردار بہت اہم ہو گیا۔نازک ترین معاملات پر عدلیہ اب فیصلہ صادر کرتی ہے۔1999ء میں فوج اتنی ہی طاقتور تھی جتنی آج ہے ۔ گزرے پانچ برسوں میں سول حکومت کی نالائقی اور اخلاقی دیوالیہ پن نے اس کی قوت بڑھا دی تھی اور وہی اہم فیصلے کرتی رہی۔ میاں محمد نواز شریف ایسا ہرگز نہ ہونے دیں گے ۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج اور عدلیہ کی قیادت اس برس بدل جائے گی ۔ نئے چیف جسٹس اور آرمی چیف کا روّیہ کیا ہوگا؟ صدر زرداری کے دور میں مارشل لا کے کئی مواقع فوج کو میسر آئے ۔ مثلاً عدلیہ بحالی کے لانگ مارچ کے دوران، پارلیمنٹ کے سامنے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے وقت وزیر اعظم کے وارنٹ جاری ہونے پر اور میمو سکینڈل پر ، جو فوج کی آمد کا ایک مضبوط اخلاقی جواز فراہم کرتا تھا۔ سالانہ دو ہزار ارب روپے کی کرپشن اورسینکڑوں ارب کے حکومتی سکینڈل اس کے سوا تھے ، ماضی میں جو حکومتیں گرانے کا مواقع فراہم کرتے ۔ انتخابات میں دھاندلی روکنے میں قومی ادارے ناکام رہے ، خاص طور پر کراچی میں۔ یہ ممکن نہیں کہ اس پر انہیں طعنہ نہ ملے ۔ گزرے پانچ برسوں میں مارشل لا نافذ نہ کرنے کا سہرا مگر جنرل کیانی ہی کے سر سجے گااور اسے ہتھیانے کی کوشش کامیاب نہ ہوگی ۔ کیا نئی فوجی قیادت بھی دھیمے مزاج کی ہوگی یا موقع ملنے پر سول حکومت پہ وہ چڑھ دوڑے گی ؟ میاں محمد نواز شریف کے گزرے دو ادوار میں ملکی سلامتی کو صرف بھارت سے خطرہ لاحق تھا ۔ طالبان سے ہمارے مراسم خوشگوار تھے ۔ افغانستان کی جنگ میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا۔کیا طالبان دوبارہ پاکستان سے خوشگوار مراسم قائم کرنا چاہیں گے ؟ امریکی اشیر باد سے قائم کرزئی حکومت بھارت نواز ہے ۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔بھارت ایسی صورتِ حال کا فائدہ نہ اٹھائے ، یہ ممکن نہیں ۔ افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد وہاں موجودہ سیٹ اپ برقرار رہتا ہے یا طالبان اقتدار پاتے ہیں ، دونوں صورتوں میں مسائل ہیں ۔ 1999ء کے مارشل لا سے قبل کشمیر پر ہماری حکمتِ عملی بجا طور پر جارحانہ تھی ۔ جنرل مشرف کی آمد کے بعد اور خصوصاً 2001ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد صورتِ حال بھارت کے لیے موافق ہو تی چلی گئی ۔ عالمی ٹھیکیداروں کو اس نے کامیابی سے یہ باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مداخلت آزادی کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے ۔ مسلسل پسپائی کے بعد ہم اب عملاً کشمیر سے لاتعلق ہیں۔ بھارت سے متعلق کئی بیانات پر میاں محمد نواز شریف کو ابھی سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کیا کشمیر پر ان کی حکمتِ عملی پرویز مشرف اور زرداری حکومت کا اعادہ ہوگی ؟ ایسا ہوا تو ملک میں ان پر شدید تنقید ہوگی ۔ بھارتی سرکار اور میڈیا کا روّیہ دیکھتے ہوئے کشمیر پر معقول روّیے کی توقع بے کار ہے ۔ اگر نئی پاکستانی حکومت کشمیری حریت پسندوں کی مالی اور اخلاقی مدد کرے گی (جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے ) تو بھارت ایک طوفان اٹھا دے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ نون لیگ (اور ایم کیو ایم سمیت دوسری جماعتوں ) کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی صورت میں ایک متبادل قیادت ابھر آئی ہے ۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ پر ایک جیسے الزامات لگتے ہیں لیکن تحریکِ انصاف کا دامن فی الحال صاف ہے۔ صوبہ سرحد ہی نہیں ، پنجاب اور کراچی میں اس کے امیدواروں نے پچاس پچاس ہزار ووٹ حاصل کیے۔ پختون خوا کی حکومت اچھی کارکردگی دکھا سکی تو نون لیگ پر دبائو بڑھتا چلا جائے گا۔تحریکِ انصاف کی حکومت صوبہ سرحد میں تبدیلی نہ لا سکی تو وہ اپنی موت آپ مر جائے گی ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved