تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     17-04-2020

سیاسی جماعتوں کا مایوس کن کردار

حسب ِروایت مصیبت کی اس گھڑی میں ملک گیر سیاسی جماعتوں نے عوام کی آواز بننے کی بجائے ریاست کے ٹول کے طور پہ وہی کردار ادا کرنے میں عافیت جانی‘ جو کسی بھی مملکت میں سیاسی جماعتوں کی تخلیق کا اصل مقصد ہوا کرتا ہے‘ یعنی عوام کے احساسات و جذبات کو جماعتی عصبیتوں میں جذب کر کے بوقت ِضرورت اسے سودا بازی کیلئے استعمال کرنا۔اس طرح ریاست تھوڑی سی قیمت دیکر سیاسی پارٹیوں کے ذریعے بہت بڑے انبوہ ٔکثیر کوحسب ِمنشاء انتظام کرلیتی ہے؛چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آزادی اور مساوات کے نعروں کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی دعویدار پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ میں غریبوں‘مزدوروں اور ہاریوں کی لبریز الم زندگی کا احساس کئے بغیر نہایت سنگ دلی کے ساتھ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر کے عالمی مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔
شدید ترین لاک ڈاؤن کے باعث اندرون سندھ کے ہاریوں کے علاوہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن سٹی میں کروڑوں مزدور بے روزگاری کے آشوب میں ڈوب گئے‘ لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی سندھ گورنمنٹ پاور پالیٹیکس کے تقاضوں کے پیش نظر انتہائی بے رحمی کے ساتھ لاک ڈاؤن کے دورانیہ کو مزید وسعت دینے پہ اصرار کرتی نظر آتی ہے ‘اسی طرح نواز لیگ کی قیادت نے تو لاک ڈاؤن کی غیرمشروط حمایت کر کے اپنی پوری متاع ِسیاست کوبرباد کرنے میں تاخیر نہیں کی؛حالانکہ پی ٹی آئی حکومت ان کی شرمندہ کن معاونت کو برابر ٹھکرا رہی ہے‘ لیکن پھر بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف عوامی دکھوں اور مصائب کی جانب نظر اٹھا کے دیکھنے کی بجائے آنکھیں بندکر کے لاک ڈاؤن کے حکومتی فیصلوں کی حمایت میں نغمہ سرا ہیں۔یہ سویلین بالادستی کی جنگ لڑنے والی نواز لیگ کو کیا ہو گیا ہے؟عوامی بالادستی کو چھوڑیئے نواز لیگی قیادت تو اب مشکلات کے چنگل میں پھنسے تاجروں‘مزدوروں‘ہاریوں اور غریبوں کے حق میں ہمدردی کے دو بول بولنے کی روادار بھی نہیں رہی‘اگر آپ نے اس طرح کا فدویانہ طرزِ عمل اپنانا تھا تو پھر مقتدرہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کی حماقت کیوں کی تھی؟صف ِاوّل اور دوم کی لیڈر شپ نے جیلوں کی صعوبتیں کس لیے برداشت کیں اورمعصوم کارکنوں کو اس بے مقصد مہم جوئی کا ایندھن کیوں بنایا گیا؟کیا نوازشریف نے اقتدار سے جبری علیحدگی‘خاندان سمیت دس سال کی جلاوطنی اور پھر بیمار بیوی کو موت و حیات کی کشمکش میں تڑپتا چھوڑ کے بیٹی سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کا فیصلہ ‘اسی دن کے لیے کیا تھا کہ ایک بار پھر طاقت کے مراکز سے سودا بازی کر کے اقتدار تک رسائی پائی جائے؟اگر ایسا ہے تو یہ نہایت ہی تباہ کن پالیسی ہے۔؎ 
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
انہی حربوں اور سودابازی کے سہارے اقتدار حاصل کرنا مقصود تھا‘ تو پھر خود کواپنے حامیوں کو‘ بلکہ پوری قوم کو آزمائشوں کی بھٹی میں کیوں جھونکاگیا؟اگر عملیت پسندی کے تقاضوں کے مطابق ‘ملکی اور عالمی مقتدرہ کے ساتھ لین دین تمہاری آخری منزل تھی تو بہتر یہی ہوتا کہ اُسی وقت یہی لین دین کر لیا جاتا‘ جب اقتدار کے ایوانوں پہ بیٹھے ہوئے تھے‘اس طرح کم از کم جمہوری سیاست تو بے آبرو ہونے سے بچ جاتی اور سیاست کے ان سنہرے اصولوں اوراعلیٰ اقدار کی شکست کا تاثر نہ ملتا‘ جن کی بالادستی کا پرچم اٹھا کرتم لوگ‘سیاسی آزادیوںکی متلاشی عوام کو جنت ِاراضی کے خواب دکھاتے رہے۔افسوس کہ موقع پرستی کی اس روش نے صرف سیاستدانوںکو ہی بے آبرو نہیں کیا‘ بلکہ یہی طرزِ عمل جمہوریت‘مساوات اور آزادی جیسے پرُکشش اور مقدس نظریات کی توہین کا بھی سبب بنا؛بلاشبہ سیاست اور تجارت میں نصب العین چھپی ہوئی آرزوں کا معقول لباس ہوتا ہے‘جو آخر کار عوام کو فرضی حقائق کے جال میں پھنسانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ تاریخی شعور سے عاری نوازشریف نے جس حقیقت کو سمجھنے میں تیس سال تک تگ و دو کی‘چوہدری نثار اُسے پہلے دن ہی سے جانتے تھے‘انہیں معلوم تھا کہ سیاست میں تبدیلیاں ہمیشہ جمہوری طریقے سے ہی آتی ہیں۔یہ سچ ہے کہ اقتدار کی سیاست کرنے والے سیاست دان اپنے نظریاتی وجود کو کبھی حقیقی سیاسی کرداروں میں نہیں ڈھال سکتے‘وقت کی صرف ایک ہی کروٹ ان کے چہروں پہ سجے عوامی ہمدردی کے میک اپ کو صاف کر کے انہیں پبلک کے سامنے بے نقاب کر دیتی ہے۔صرف صداقت کے متلاشی اہل خیر کی پیروی ہی فلاح کی راہ دکھاتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف اور موجودہ حکمرانوں سمیت کوئی مقبول لیڈر عوام کے بنیادی حقوق اور سیاسی آذادیوں کا سچا حامی نہیں نکلا۔یہ سب اپوزیشن میں بیٹھ کے بنیادی حقوق کے احیاء اوراظہارِ رائے کی آزادیوں کی جگالی کرتے رہے۔اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کے بعد ان کے سیاسی نظریات اورفلسفہ ہائے سیاست یکسر بدل گئے۔شاید اسی لئے پارور پالیٹیکس کے شناورسیاستدان کبھی خود کو انسانی سماج کا سچا خیر خواہ ثابت نہیں کرسکے ‘بلکہ وہ سادہ لوح انسانوں کی امنگووں کے ایسے مکار سوداگر ہوتے ہیں ‘جو کمزور لوگوں کی امیدوں کو سستا خرید کے مہنگے داموں بیچنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ابھی ماضی قریب میں ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت اور مساوات کے نعروں کی گونج میں منزل اقتدار تک پہنچنے کے بعد عوام کے بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کو اپنے اقتدار سے مشروط کر کے جدید جمہوری تمدن میں کلاسیکی مثال قائم کی۔انہوں نے روس کی کمیونسٹ پارٹی کی طرح اپوزیشن کے جمہوری کردار کی نفی کو اپنے نظریہ سیاست کا محور بنا لیا؛حتی ٰکہ اسی ذہنی آشوب نے انہیں جمہوری عمل کے ذریعے عنانِ اقتدار اپنے جیسے سیاستدانوں کو منتقل کرنے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کے حوالے کرنے پہ مجبور کر دیا۔بھٹو صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس ملک میں صرف دو جماعتیں ہیں؛پی پی پی اورمقتدرہ !گویا وہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کی وجودکو تسلیم کرنا بھی کسر شان سمجھتے تھے۔
ہٹلر اور میسولینی کی مانند حصول ِاقتدار کی اس جنگ میں بھٹو خاندان نے جمہوریت‘ مساوات اور فکری آزادیوں جیسے رومانوی نعروں کو ہتھیار بنایا‘ لیکن دل و دماغ کی تفریق میں مبتلا ہمارا ہیرو طاقت کے مراکز سے یہ جنگ ہار گیا؛البتہ ان کے حقیقی وارث آصف علی زرداری اورسچے جانشین بلاول بھٹو زرداری بہت جلد سیاست کے نظام کے اندر رہنے کا فن سیکھ گئے۔انہوں نے عوامی حقوق کی بازیابی کی خاطر دی جانے والی بھٹو خاندان کی لازوال قربانیوں پہ آنسو بہانے کے پہلو بہ پہلو‘ان قوتوں سے بھی نباہ کرنا سیکھ لیا‘ جنہوں نے بھٹو خاندان کو نشان عبرت بنایا؛چنانچہ جمہوریت کی علامت بھٹو کے جانشینوں کو طاقت کے عالمی اور ملکی مراکز سے جب کبھی بیٹھنے کا اشارہ ملے تو وہ جلدی سے بیٹھ جاتے ہیں۔آج بھی سندھ میں پی پی پی کی حکومت کروڑوں مزدوروں‘ ہاریوں اور غیریبوں کی تکالیف کو پس پشت ڈال کے اقتدار کی حرکیات کے تال میل میں اپنی گنجائش بنانے کی خاطر ہر قسم کی ستمگری کو آزمانے پہ کمر بستہ دکھائی دیتی ہے‘وہ بخوشی ایک ایسی سکیم کا حصہ بننے میں مشغول ہے‘ جس کا مقصد عوام کو کمزور کرکے قومی وسائل اور اقتدار پہ مستقل تصرف پانا ہے۔الغرض یہی ہیں؛ وہ سیاستدان‘ جن کی طلسماتی قیادت میں معصوم لوگ بخوشی اپنے خاندانوں کو اجاڑ دیتے ہیں‘جیلیں اور جلاوطنی کی اذیتیں جھلتے ہی؛حتیٰ کہ خودسوزیاں تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved