کوروناوباسے دنیا بھر میں خوف کا ایک ایسی فضابن چکی ہے کہ اس کے آگے ترقی یافتہ ممالک بھی سہمے سہمے دکھائی دے رہے ہیں۔کسی کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ مردہ اور نظر نہ آنے والے وائرس کے اتنے بھیانک اور خوفناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے مہلک ترین وائرس کورونا نے ان دنوں امریکہ ‘ برطانیہ ‘یورپ اورایشیاء سمیت پوری دنیا میں تباہی مچارکھی ہے ‘کیونکہ کوئی بھی ملک اب ایسا نہیں رہا ہے‘ جہاں اس موذی اور جان لیوا بیماری کے کیسز رجسٹرڈ نہ ہو رہے ہوں۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق‘ اس نئے وائرس-19 COVID سے متاثرہ مریضوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
عالمی افق پر ابھرتے ہوئے سپرپاور چین میں نہ ہی انفراسٹرکچر کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ‘لیکن اس کے باوجود آج اس کے وسطی صوبے کے گنجان آباد شہر ووہان سے جنم لینے والے موذی وائرس کورونانے عالمی دہشت کا روپ دھار رکھا ہے۔عالمی سائنسدان کورونا وائرس کو سارس ( SARS)کی مزید پیچیدہ ترین شکل قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ اسی وائرس کا ایک تسلسل ہے‘ جسے اس صدی کی پہلی دہائی میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔کورونا وائرس سے اٹلی‘سپین اور دیگر یورپی ممالک میں سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں ‘جبکہ فرانس ‘سوئٹزلینڈ ‘ جرمنی ‘یونان ‘ناروے ‘سویڈن‘ نیدرلینڈزکے علاوہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں بھی وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے ۔
خوف کی علامت کورونا وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی نگل رہا ہے‘ کیونکہ اس وائرس کے پھیلائوسے دنیا کی کئی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کرگئی ہیں۔ چینی قمری سال کے آغاز کے موقع پر پھوٹنے والی اس وبا سے جہاں عالمی منڈی تباہی سے دوچار ہوئی ہے‘ وہیں تیل کی قیمت رواں سال کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے۔ دنیا اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ بھی ان دنوں اپنے عروج پر ہے‘ لیکن کوروناوائرس نے ناصرف چین ‘بلکہ امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر سینکڑوں ممالک کی معیشت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی سٹاک مارکیٹس2016ء کے بعد بدترین بحران سے دوچار ہوئی ہیں‘بین الاقوامی سیاحت کو اس سے شدید دھچکا لگا ہے‘جان لیو ا مرض کے بڑھتے خطرات ہرآنے والے دن بین الاقوامی حصص مارکیٹ کیلئے بُری خبر لا رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر معاملات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں‘اس سے طاقت اور دولت کے بدلتے ہوئے معیار اور معاملات کے اثرات بھی وسیع اور گہرے ہیں۔امریکہ دنیا بھر میں اپنی طاقت کا لوہا منوا کر عالمی سیاست اور سفارتکاری میں 6 عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کرتا آیاہے ‘لیکن اب اس کی بھی تباہی کاسبب وہ بے نام پروگرام ہیں ‘جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور یقینا یہ غیر معینہ مدت تک مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین نے بھی غالباً1990ء میں امریکی سازشوں اور دھمکیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اقوام عالم کو متنبہ کیا تھا کہ امریکہ دنیا بھرمیں ایک ایسا وائرس پھیلا سکتاہے ‘جس کے اثرات سے شاید ہی کوئی بچ پائے گا‘لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال کو رونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض امریکہ کے اندر ہی ہیں اور بعید نہیں کہ یہ بہت جلددیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ بل گیٹس نے بھی اپنے اندازوں کی بنیاد1918ء میں پھیلنے والے فلو پر رکھی تھی‘ جس میں 3 کروڑ سے زائد لوگ لقمۂ اجل بنے تھے ‘یہاں یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جس مصیبت کو گزرے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرچکا تھا‘ اس کے ایک دہائی کے اندر لوٹ کر آنے کی بات کیسے کردی گئی؟ان کا اس سنجیدہ معاملے پر قبل ازوقت خبردار کرنا لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ۔
چین میں جیسا کہ اس وائرس پر قریبا ًمکمل کنٹرول کر لیا گیا ہے‘ ایسے میں بل گیٹس کااب ایک مرتبہ پھر سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا کہ یہ مرض یکدم دوبارہ سے پھیل سکتا ہے‘ سوالیہ نشان ہے؟یہی وجہ ہے کہ ہر طرف اب خوف و ہی جان پیدا کرکے ا یسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جان لیوا مرض کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ۔میڈیا میں یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی جا رہی ہے کہ سماجی دوری سے کورونا سے بچا جا سکتا ہے‘ لیکن کہیں بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس موذی وائرس کا خاتمہ کیسے ہو گا؟اس بات سے تویہی ثابت ہوتاہے کہ خوف کو اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا ‘جب تک کہ تمام انسانوں میں مائیکرو چپ نصب نہیں کر دی جاتی ۔ اب‘ شاید یہ وہی وقت آن پہنچا ہے‘ جس کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے کہ دجال ہر شخص کے ماتھے یا ہاتھ پر ایک نشان لگا دے گا‘ جس کا عدد666ہوگا ‘جتنی بھی ٹیکنالوجی اس وقت موجود ہے‘ کوئی بھی بار کوڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں 6کا ہندسہ 3 بار موجود ہوتا ہے اور جب یہ ویکسین مارکیٹ میں آئے گی اور جس کے ہاتھ پر نشان نہیں ہوگا‘ لوگ اس سے ڈریں گے اور معاشرہ اسے '' Secret Career ‘‘کا نام دے کر اتنا ستائے گا کہ مجبوراً اسے بھی ویکسین لینی ہی پڑجائے گی ۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کے سوشل میڈیا پر نشر کئے گئے ویڈیو پیغام جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وائرس کی علامات نہ ہونے کے باوجود بھی ان کا رزلٹ مثبت آیا ہے ‘کا اگربغور جائزہ لیا جائے تو لوگوں کی آہستہ آہستہ ذہن سازی کی جارہی ہے کہ اگر آپ میں کورونا وائرس کی علامات نہیں بھی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ میں کورونا وائرس نہیں اور یہ آپ کی وجہ سے کسی اور کو بھی لگ سکتاہے۔ امریکہ میں پچھلے کئی برس سے اس کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی طرح انسانوں کے ہاتھوں میں مائیکرو چپ نصب کردی جائے ‘یعنی آرایف آئی ڈی چپ کے ذریعے ہی سماجی معاملات سرانجام ہوں گے‘ مثلاً بینک اکائونٹ ‘کاروبار ‘ ب فارم سب کچھ اسی چپ کے ذریعے ہوگا ‘کسی کو جیب میں پیسے لے کر گھومنے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘جبکہ ناروے اور سویڈن میں تو اس ٹیکنالوجی پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور وہاں کچھ عرصے سے لوگوں کے جسم میں مائیکرو چپ نصب کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ‘ یہ جِلد کے نیچے نصب ایک چھپی ہوئی چھوٹی سی مائیکرو چپ آپ کے روزمرہ استعمال کے کارڈز‘ چابیاں اور پرس کھو جانے سے بچنے میں مدد فراہم کرے گی اور اس نئی تبدیلی کو '' سمارٹ پیپل ‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ چپ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے بیچ میں نصب کی جاتی ہے اور اس کی مدد سے صارفین اپنی کار سٹارٹ کر سکتے ہیں‘ انہیں بس‘ ٹرین یا ٹرام کا کرایہ ادا کرنے کیلئے پرس کی ضرورت نہیں ہوگی۔صرف مخصوص مشین پر ہاتھ پھیرنے سے ادائیگی ہو جائے گی اور اس طرح کے کئی دیگر کام باآسانی کیے جا سکیں گے۔
یہ نئی تبدیلی بائیو ہیکنگ کے بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ بائیو ہیکنگ کا ذکر ایسے ماہرین حیاتیات کی نشاندہی کیلئے کیا جاتا ہے‘ جو زندگی کو سہل اور آسان بنانے کیلئے جسم میں الیکٹرانک ہیراپھیری کرتے ہیں‘ جسم میں چپ کی تنصیب کے عمل کو بھی بائیو ہیکنگ سے جوڑا جا رہا ہے‘جبکہ برطانیہ میں اس کی سب سے بڑی کاروباری ایجنسی ٹریڈ یونین نے برطانیہ بھر میں سکیورٹی اور انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ملازمین میں مائیکرو چپ لگانے پر تشویش کا اظہار کیاہے ۔ ( جاری)