آج کل کورونا وائرس کی شکل میں سارا عالَمِ انسانیت ایک ابتلا اور آزمائش کے دور سے گزر رہا ہے‘ دنیا کے بیشتر ممالک میں کاروبارِ حیات رُکا ہوا ہے‘ لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے گھروں میں محدود رہنے کے لیے کہا گیا ہے‘ ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے‘ کارخانوں کی چمنیاں بجھی ہوئی ہیں‘ بازار ویران ہیں‘مزدور پیشہ اور روز مرّہ کام کاج والے بے روزگار ہیں اور بعض نانِ شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔حکومت اپنے وسائل کے مطابق ضرورت مند لوگوں کی مددکی ترکیبیں سوچ رہی ہے‘ فنڈز مختص کیے جارہے ہیں‘رضاکار فورس تیار کی جارہی ہے‘ لیکن ہماری تاریخ شاہد ہے کہ سعیٔ بسیار کے باوجود ہماری حکومتوں کے کاموں میں شفافیت نہیں رہ پاتی‘ بیشتر مستحقین محروم رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق کئی ذرائع سے مال جمع کرلیتے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ اپنے وسائل کے مطابق اپنے گردوپیش کے ضرورت مندوں کی مددکرے‘ جنہوں نے بڑی چاہت سے مال جمع کر رکھا ہے‘ انہیں نظر آرہا ہوگا کہ اس مال سے جدائی بہت دور نہیں ہے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:''ہر طعنہ زنی کرنے والے اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے افسوس ہے ‘(یہ )وہ ہے جس نے مال جمع کر رکھا ہے اور اُسے گن گن کر رکھتا ہے‘ اس نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اس کا مال اُسے حیاتِ جاودانی عطا کرے گا‘ ہرگز نہیں!یہ ضرور چُورا چُورا کردینے والی (آگ)میں جھونک دیے جائیں گے اور تو کیا جانے کہ یہ ریزہ ریزہ کرنے والی چیز کیا ہے‘ (یہ )اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے ‘ جس کے شعلے سینوں تک بلند ہیں‘وہ (آگ) ان پر ہرطرف سے لمبے لمبے ستونوں میں بند کی ہوئی ہوگی ‘ (الہمزہ:1-9)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1)''ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی:یارسول اللہؐ! اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے اور اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب شخص وہ ہے جو انسانیت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو اوراللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ خوشی ہے جوتو کسی مسلمان کو پہنچائے (بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو)یا تواس سے کسی تکلیف کو دور کرے یا اُس کا قرض ادا کرے یا اُس کی بھوک کا ازالہ کرے اور میں اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی حاجت پوری کرنے کے لیے چلوں ‘یہ مجھے اُس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس مسجدِ (نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف کروں اور جو اپنے غضب کو روکے گا‘اللہ (قیامت کے دن) اس کے عیوب پر پردہ فرمائے گا اور جو اپنے غصے پرعمل کرنا چاہے اورکرنے پر قادر ہو‘لیکن (انتقام لینے کے بجائے) اپنے غصے کو پی لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امن (وعافیت)سے بھر دے گااور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے چلاتو اللہ تعالیٰ پلِ صراط پر اسے ثابت قدم فرمائے گا‘ جبکہ لوگوں کے قدم لڑکھڑا رہے ہوں گے‘ (المعجم الاوسط:6026)‘‘‘علامہ اقبال نے کہا ہے:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
حدیثِ پاک میں ہے: ''ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہیں اور اُن میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اپنے عیال کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو‘ (مسند البزار:6947)‘‘‘(2)'' ہر مسلمان پر صدقہ (واجب) ہے‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہؐ!جو صدقے کی استطاعت نہ رکھتا ہو‘ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے ‘خود کو بھی نفع پہنچائے اور (اللہ کی راہ میں )صدقہ بھی کرے‘ صحابہ نے عرض کی: اگر کوئی اس کی سکت بھی نہ پائے تو وہ کیا کرے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرے‘ صحابہ نے عرض کی: اگر اس کی استطاعت بھی نہ پائے تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ نیک کام کرے اور برائی سے رُکے‘ اس کیلئے یہی صدقہ ہے‘ (بخاری:1445)‘‘۔ الغرض وہ شخص اللہ کی نظر میں سب سے نیک ہے جو انسانیت کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘ گویاجس قدر کسی شخص کی ذات انسانیت کے لیے فیض رساں ہوگی‘ اسی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے درجات بلند ہوتے رہیں گے‘ انسان دوسرے انسانوں کو اپنی جان ‘ مال ‘جسمانی مشقت ‘علمی وفکری صلاحیتوں سے فائدہ پہنچا سکتا ہے‘ قرآنِ کریم نے بھی انسانی خدمت کے تمام شعبوں کی جانب تاکیدات کے ساتھ بار بار متوجہ فرمایا ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1)''وہ دشوار گزار گھاٹی میں کیوں نہ داخل ہوا اور (اے مخاطب !)تو کیا جانے کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے ‘(بارِ قرض میں دبی ہوئی)گردن کو آزاد کرنایا بھوک کے دن کسی کو کھانا کھلانا‘ کسی قرابت دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو(کھانا کھلانا)‘ (البلد: 11-16)‘‘۔(2)''ہرگز نہیں!بلکہ تم یتیم کی تکریم نہیں کرتے اورمسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے اور وراثت کے مال کو ہڑپ کرجاتے ہواور تمہیں مال سے بڑی گہری محبت ہے‘ (الفجر:17-20)‘‘‘(3)''ہر شخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے‘ ماسوا دائیں طرف والوں کے‘ وہ جنتوں میں مجرموں کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے:(وہ جہنمیوں سے کہیں گے:)تمہیں کس جرم نے دوزخ میں داخل کیا‘ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور ہم لغو کاموں میں مشغول رہتے تھے اور ہم یومِ جزا کوجھٹلاتے تھے حتیٰ کہ ہم پر یقینی چیز (موت)آگئی‘ (المدّثر:38-47)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (1)''مومن دلوں کو جوڑنے والا ہے اور جو دلوں کو نہ جوڑے‘ اس کے لیے کوئی خیر نہیں ہے اور بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فیض رساں ہو‘ (مُسنَدُ الشَّھاب: 129)‘‘۔(2)'' اللہ کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے ساتھی کیلئے اچھا ہے اور اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کیلئے اچھا ہے‘(مُسنَدُ الشَّھاب: 1235)‘‘۔ (3)''مسلمان‘ مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے مصیبت میں بے سہارا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے‘اللہ اس کی حاجت روائی فرمائے گااور جو مسلمان سے کسی تکلیف کو دور کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور فرمائے گااورجو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے‘ قیامت کے دن اللہ اس کے عیوب پرپردہ فرمائے گا‘ (بخاری:2442)‘‘۔ (4) ''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن (اپنے بندے سے) فرمائے گا: اے بنی آدم!میں بیمار تھامگرتونے میری عیادت نہ کی‘ (بندہ) عرض کرے گا: اے پَرْوَردْگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا‘ تو تو ربُّ العالمین ہے(اور ان عوارض سے پاک ہے)‘ اﷲتعالیٰ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتاکہ میرا فلاں بندہ(تیرے سامنے) بیمار ہواتھا‘ تو نے اس کی عیادت نہ کی‘تجھے معلوم ہے کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا‘پھر(اﷲتعالیٰ) فرمائے گا:اے بنی آدم!میں نے تجھ سے کھانا مانگا ‘تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا‘ (بندہ ) عرض کرے گا: اے پَرْوَردْگار!میں تجھے کیسے کھلاتا‘تو تو رب العالمین ہے (اور بیماری وبھوک وپیاس ایسی حاجات سے پاک ہے) ‘ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگاتھا‘ تو نے اسے نہ کھلایا‘ اگر تو (میرے اس محتاج) بندے کو کھلاتا‘ تو تو اُسے میرے پاس ہی پاتا(یعنی مجھے اپنے قریب ہی پاتا)‘ (اللہ تعالیٰ) پھر فرمائے گا: اے بنی آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا‘ تو نے مجھے نہ پلایا‘ بندہ عرض کرے گا :اے پَرْوَردْگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا ‘ تیری ذات تو ربُّ العالمین ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تجھ سے (دنیا میں)میرے فلاں پیاسے بندے نے پانی مانگاتھا‘تو نے اسے نہ پلایا ‘ اگر تو نے اسے پانی پلایا ہوتا‘ تو اسے میرے پاس ہی پاتا‘ (مسلم: 2569)‘‘ (5)''رسول اللہﷺایک مجلس میں کچھ لوگوں کے پاس رکے اور فرمایا:کیا میں تمہارے اچھے لوگوں کو تمہارے برے لوگوں سے ممتاز نہ کردوں‘پس وہ خاموش رہے ‘ آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا‘تو ایک شخص نے کہا:یارسول اللہؐ! ضرور ہمارے اچھے لوگوں کو ہمارے برے لوگوں سے ممتاز کردیجیے‘ آپﷺنے فرمایا:تم میں بہتروہ ہے جس سے خیرکی امیدرکھی جائے اوراُس کے شرسے بے خوف رہاجائے اورتم میں سے براوہ ہے جس سے خیرکی امیدنہ رکھی جائے اوراُس کے شرسے بے خوف نہ رہا جائے‘(ترمذی:2263)‘‘۔
(6)''تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھروالوں کے لیے سب سے بہترہوں اور جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہوجائے توبرائی کے ساتھ اس کا ذکر کرنا چھوڑ دو‘ (ترمذی:3895)‘‘‘(7)'' ایک شخص نے عرض کی:اللہ کے رسولؐ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے‘ آپ ﷺنے فرمایا:جس کی عمر لمبی ہو اورعمل نیک ہو‘ اس آدمی نے پھر پوچھا : لوگوں میں سب سے بدترشخص کون ہے‘آپ ﷺ نے فرمایا:جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو‘ (ترمذی:2330)‘‘(8)''بے شک اللہ کی ایک ایسی مخلوق ہے جس کو اس نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے‘ لوگ اپنی ضروریات میں ان کی طرف بھاگتے ہیں‘ یہی لوگ اللہ کے عذاب سے امن میں رہیں گے ‘ (مجمع الزوائد:13710)‘‘ (9)''جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی ضرورت پوری کردیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس پر پچھتر ہزار فرشتوں سے سایا کرتا ہے جو اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں‘ اگر صبح ہو تو شام تک اور اگر شام ہو تو صبح تک‘ وہ ایک قدم چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹادیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے‘ (مجمع الزوائد: 3782)‘‘‘(10)''رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: لوگوں میں سے سب سے افضل کون ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص جو دل کا پاک اور زبان کا سچا ہو‘ صحابہ نے عرض کی:زبان کے سچے کو تو ہم جانتے ہیں‘ یہ دل کے پاک سے کیا مراد ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسے باصفا دل والا کہ جس میں نہ کوئی گناہ ہو‘نہ کوئی سرکشی ہو‘ نہ کسی کے لیے کینہ ہو اور نہ حسد ہو‘ (ابن ماجہ:4216)‘‘۔