تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     18-04-2020

اک جیسی زندگی کو کتنا بسر کریں گے ؟

انسان سماج کے لیے کتنا اہم ہے اور حکمران عوام کے لیے کتنے ضروری ‘ یہ سو چ ایک ادھورے وہم سے جنم لیتی ہے ۔ رومی کے مطابق آدھا وہم ہمیشہ پورے وہم میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ یہیں سے انسان اور حکمران کی تباہی و بربادی کا آغاز ہوتاہے۔ سقراط کا مانناتھا کہ آدمی کا ضمیر اس کا سب سے بڑا استاد ہو تا ہے اور انسان کے بے پناہ خیالات اس کے سب سے بڑے دشمن۔ خیالات ضمیر کی کوکھ سے ابھرتے ہیں اور پھر انہیں راہِ راست مل جائے تو عمر بن عبدالعزیزؓ ‘رومی‘ سرسید ‘اقبال اور محمد علی جناح جیسے ذہن سامنے آتے ہیں ۔اگرخیالات راستہ بھٹک جائیں اور الٹی ڈگر پر چل پڑیں تو حلاج پروان چڑھتے ہیں ۔ع
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
کورونا ایک بے جان وائرس ہے جس نے پوری دنیا کی جان پر بنا رکھی ہے ۔ایسے ایسے نظارے دیکھنے کومل رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ دوست دشمن بن رہے ہیں اور دشمن دوست ۔ان دنوں یورپ میں کوئی کسی کو پہچاننے کو تیار نہیں ہے‘ جبکہ امریکہ نے کینیڈاسے منہ پھیر لیا ہے ۔ہر کوئی اپنے شہریوں کو کورونا وائرس سے بچانے کی فکر میں لگاہے ‘مگر ہمارے سیاستدانوں کی ذہنی لاچارگی دیکھیں کہ یہاں آج بھی الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ پنجاب کا رخ مشرق کو ہے تو سندھ کا مغرب کو ‘ بلوچستان جنوب کو دیکھ رہا ہے تو کے پی شمال کو ‘ اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ وفاق سب سے منہ پھیرے کھڑا ہے ۔ مصیبت کی گھڑی میں بھی ہماری آواز ایک نہیں ہوسکی ‘ ہم خوف کے سائے تلے بھی طعنہ زنی اور الزام تراشی سے باز نہیں آرہے ۔ موت ہر سو رقصاں ہے اور ہم تحریک ِانصاف ‘ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نمائندگی پر بضد ہیں ‘ افسوس ‘ صد افسوس ! ہم اب بھی پاکستانی بننے کوتیار نہیں ہیں ۔ 
ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی صورتحال ابتر ہورہی ہے ‘ کوئی نسخہ کارآمد نہیں ہو رہا۔ لاک ڈاؤن کر کے دیکھ لیا ‘ معیشت کو پانچ سو ارب کا ٹیکہ لگوا لیا‘ ایک کروڑ لوگوں کو بے روزگاری کی سولی چڑھا دیا‘ کروڑوں پاکستانیوں کے گھروں کو عقوبت خانوں میں بدل کر دیکھ لیا‘ مگر سب بے سود ‘ وائرس ہے کہ اپنے پر پھیلائے ہی جا رہا ہے ۔ حکمران اب اپناسر پیٹیں یا سینہ کوبی کریں‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ عام جنتا کو صرف اتنا بتا دیں کہ ہم تمام قیمت اداکرنے کے باوجود کورونا وائرس کے اثرات کم کرنے میں ناکام کیوں رہے ؟ منڈیاں ‘ بازار‘پارکس ‘دفاتر‘ سکول اور مدرسے بند کرکے بھی لوگوں کو سٹرکوں پر آنے سے کیوں نہ روک سکے ؟ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت ہے جو اس بات کا جواب دے سکے؟ آپ مانیں یا نہ مانیں اس کی سب سے بڑی وجہ وفاقی حکومت کارویہ ہے ‘ وزیراعظم عمران خان کی غیر مستقل اور متزلزل پالیسی ہے ۔ ع
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور 
ہمارے وزیر اعظم کیوں بھول گئے کہ برصغیر کے باسیوں کا صدیوں سے مزاج رہا ہے کہ یہ حکومتِ وقت سے زیادہ اپنے سیاسی و مذہبی آقاؤں کی بات پر ہمہ تن گوش ہوتے ہیں ۔ انگریزوں نے اس خطے میں قدم رکھا توسب سے پہلے یہاں کی مذہبی ‘ سیاسی اور سماجی اشرافیہ کو اپنا بنایا تاکہ عام ہندوستانی ان کی بات سن سکے اور غلامی کی زنجیرکو تادم ِمرگ تھامے رکھے۔جلال الدین اکبر نے سارے برصغیر پر حکمرانی کا خواب دیکھا تو راجاؤں ‘پنڈتوں ‘ مولویوں اور اہل ِدانش کو اپنی قربت کا نوالا کھلایا تاکہ عوام مغلیہ سلطنت کے گیت گاتی رہے ۔ جودھا اکبر اور دینِ الٰہی اس کھیل کی انتہا تھے ۔مراٹھا سامراج کے سب سے جی دار پیشوا باجی راؤ کی خواہش تھی کہ وہ مغلوں کو ہرا کر دلی پر تخت نشین ہو‘ اس حسرت کو شرمندۂ ٔتعبیرکرنے کے لیے اس نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا پلان بنایا اوراپنے اہم حریف دکن کے نظام الملک کو ملنے جا پہنچا۔باجی راؤ کا ماننا تھاکہ ہر کام جنگ سے نہیں ہوتا ‘ حکمت اور دانائی کا تقاضا ہے کہ جس دشمن کو زبان سے زیر کیا جاسکے اس کے لیے تلوار نہیں اٹھانی  چاہیے۔ میر تقی میر نے اس الجھی گتھی کو یوں سلجھایا ہے ؎
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں 
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے 
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عمران خا ن صاحب اس دھرتی پر صدیوں سے رائج وہ سلیقہ ‘ وہ ڈھنگ ‘ وہ منتراکیوں نہ سیکھ سکے جس سے عوام کو قابو کیا جاتا ہے‘ چوبیس سال سیاست کی خاک چھاننے کے باوجود وزیراعظم کا ہاتھ عوام کی نبض پرکیوں نہیں ہے؟ وہ اپنے منتشر خیالات کی دنیا میں مگن زمینی حقائق سے کوسوں دور کیوں کھڑے ہیں؟کیا اس بات کا کوئی جواب ہے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ ایک بھی بیٹھک کیوں نہ کی ؟مذہبی جماعتوں اور تمام مکاتبِ فکر کے علما کو اپنا ہم نوا کیوں نہ بنایا ؟ وزیراعظم یہ بات سمجھنے سے قاصرکیوں رہے کہ ساڑھے اکیس کروڑ آبادی میں سے بیس کروڑ پاکستانی ان کے ووٹر نہی ںہیں‘ وہ ان کی ہربات آنکھیں موندکر کیسے قبول کریں گے ؟ اور سب سے بڑھ کر وہ خود صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک پیج پر کیوں نہ آسکے ؟ 
اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وزیراعظم کی سوچ سب سے مختلف ہے اور ناک سب سے اونچی‘ مگر ناک تو سعودی عرب کی بھی بہت اونچی ہے پھر وہ کورونا وائرس کی وجہ سے یمن میں جنگ بندی پر کیسے راضی ہو گیا ؟ فخر تو ترکوں کو بھی اپنے آپ پر بہت ہے پھر وہ مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کو کورونا سے بچاؤ کا سامان کیوں بھجوا نے پر مجبور ہوئے ؟اپنی تاریخی اہمیت پر روسی بھی نازاں ہیں تو پھر انہوں نے سوشلزم کی ضد امریکہ کو کیوں میڈیکل سامان اور ماسک بھجوائے ہیں ؟ چین اس وقت کورونا کے خلاف جنگ کا واحد فاتح ہے ‘ وہ اپنے تجربات کو دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کیوں برابری کی سطح پر شیئر کررہا ہے ؟ شاید اس کی واحد وجہ انسانیت ہے جو ان دنوں بسترِ مرگ پر ہے اور اسے بچانے کیلئے اقوام عالم کے پاس دعا توہے دوا نہیں‘ کوشش ہے مگر گارنٹی نہیں۔ 
تحریکِ انصاف کے ورکروں کا ماننا ہے کہ وزیراعظم جو سوچتے ہیں کمال سوچتے ہیں ‘ جوکام کرتے ہیں وہ ارفع واعلیٰ ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کرپٹ ہے وہ ا ن کے ساتھ کیوں بیٹھیں ؟ خدارا وزیراعظم صاحب اپنے فالورز کی سوچوں کے اسیر مت ہوں ‘ ملک کے وزیراعظم بنیں نہ کہ تحریک انصاف کے ۔ چینی کہاوت ہے کہ جوکام اکیلے چرواہے سے لیا جاسکتاہے اس کے لیے پورے ریوڑپر محنت کرنے کی کیاضرورت ہے ۔ وزیر اعظم کو دیکھنا ہو گا کہ یہ وقت واہموں ‘ وسوسوں اور اندھی سوچوں کا نہیں ‘ قومی اتفاق رائے ناگزیر ہو چکا ہے ‘ لاک ڈاؤن کو چوتھا ہفتہ شروع ہے اور نتیجہ صفر بٹا صفر۔ اب بھی وقت ہے وزیراعظم صاحب آگے بڑھیں اور اپوزیشن سے مشورہ کرلیں‘ علما سے رائے لے لیں‘ صاحبِ ثروت لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیں ۔ لوگ احتیاط کرنے لگیں گے ‘ سماجی رابطوں میں ذمہ داری کا مظاہرہ شروع ہو جائے گااور کورونا وائرس اپنی موت آپ مرجائے گا ۔ ایسا نہ ہوکہ وقت ہاتھ سے پھسل جائے اور سارا الزام آپ کے کندھوں پر لاد دیا جائے ۔ویسے بھی کب تک اپوزیشن کو برابھلا کہہ کر زندہ رہا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم صاحب‘ تھوڑا انداز بدلیں ‘ اک جیسی زندگی کو کتنا بسر کریں گے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved