دنیا بھر میں کورونا یلغار جاری ہے‘ایک غیر مرئی ذرّے نے عالمی طاقتوں تک کو عاجز کر رکھا ہے۔ بائیس لاکھ افراد اس سے متاثر ہو چکے اور ایک لاکھ سے زیادہ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہسپتال مریضوں کے لیے ناکافی پڑ گئے ہیں‘ہنگامی بنیادوں پر نئی سہولتیں تعمیر کی جا رہی ہیں‘تاکہ متاثرین کی نگہداشت کی جا سکے۔کورونا متاثرین میں سے جو جان کی بازی ہار جاتے ہیں‘ان کی تدفین کے لیے عالمی ادارۂ صحت نے جو ہدایات جاری کی ہیں‘ ان کے مطابق ‘قریبی ترین عزیز بھی اپنے طور پر آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکتے۔اس کی تفصیل بیان کرتے یا سنتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ڈاکٹر اور ان کے معاونین بھی کئی مقامات پر اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں سنگین امراض کے مریضوں کو بھی بروقت طبی امداد فراہم نہیں ہو پا رہی۔ہر مریض سے کورونا وائرس برآمد ہونے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے‘ کئی ہسپتالوں میں دِل‘ یا معدے کے امراض کا علاج کرنے والے بھی اس وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں کہ اس کی بعض اوقات کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی‘ یہ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت متاثر کر سکتا ہے اور وہ اپنے متعلقین کی بڑی تعداد کو کام کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔بھارت میں تو ڈاکٹروں پر حملے شروع ہو چکے ہیں‘ کئی مقامات پر انہیں کورونا وائرس کا ذمہ دار قرار دے کر ہجوم ان پر پل پڑے۔ ان کے لیے عام آبادیوں میں معمول کی زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔دُنیا بھر میں ڈاکٹروں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘ لوگ ان کو پھول پیش کر رہے ہیں‘ ان کے نعرے بلند کر رہے ہیں‘ان پر واری صدقے جا رہے ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں وہ مجاہدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔اپنے آپ کو خطروں میں ڈال کر دوسروں کو زندگی بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھارت ہی میں کئی مقامات پر موبائل کمپنیوں کے بوسٹرز کو بھی نشانہ بنا ڈالا گیا ہے۔ انہیں وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی منظر عام پر ہیں۔گائو موتر سے وائرس کا علاج کرنے والے عطائیوں کا شورو غوغا الگ ہے۔ بعض ہسپتالوں میں مذہب کے نام پر الگ الگ وارڈ بنا ڈالے گئے ہیں‘ تاکہ ایک ہندو مریض ایک مسلمان متاثرہ شخص سے دور رہ سکے۔مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے والے بھی سرگرم ہیں‘ تبلیغی جماعت کے امیر پر اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے کہ ایک تبلیغی اجتماع کو یہ وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی جگہ ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کے علاج سے انکار کر دیا ہے‘ غرض بھارتی سماج میں پڑنے والے کیڑے صاف دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں برقرار ہیں اور کشمیریوں کو انسان سمجھنے پر بھارتی حکمران ابھی تک تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں سات ہزار سے زائد افراد اس بَلا کی زد میں آ چکے ہیں۔ابھی تک وزیراعظم عمران خان کے بقول پھیلائو توقع سے کم رہا ہے۔ہلاکتیں بھی محدود ہیں۔دو ہزار کے قریب صحت مند ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں۔اب مختلف مقامات پر لاک ڈائون کو نرم کیا گیا ہے۔ بعض صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں شروع کی جا رہی ہیں‘ لیکن خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔اگر سماجی رابطے محدود نہ کیے گئے‘ اجتماعات کا انعقاد بے لگام ہو گیا یا بھیڑ پر قابو نہ پایا جا سکا‘تو وائرس کا حملہ شدید تر ہو سکتا ہے اور پاکستان کی طبی سہولتیں اس کے سامنے بے بس ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد میں جمعہ اور تراویح کے اجتماعات کے انعقاد پر بھی ہنگامہ برپا ہے۔صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی جنہوں نے جامعہ الازہر اور سعودی علما سے مسجدوں میں نمازوں کے اجتماعات پر پابندی لگانے کے حق میں فتویٰ حاصل کیا تھا‘اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علمائے کرام کو اس کا قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی‘ اب تراویح کے حوالے سے نئی مشاورت کا ڈول ڈالے ہوئے ہیں۔اعلان کیا گیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نمازِ تراویح کی اجازت ہو گی ۔سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں مساجد میں باجماعت نماز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی مساجد میں بھی اس بندش پر عمل کیا جا رہا ہے۔ حرمین شریف میں تراویح کی نماز نہیں ہو گی۔سعودی مفتی اعظم کا واضح اعلان سامنے آ چکا ہے۔ نمازِ عید کا اجتماع بھی نہیں ہو سکے گا اور تو اور‘ حج کا فریضہ بھی(شاید) ادا نہ کیا جا سکے۔سعودی وزارتِ حج نے مختلف ممالک کے ذمہ داروں کو حج کے حوالے سے کسی بھی قسم کا معاہدہ یا انتظام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ترکی میں بھی مساجد میں صرف اذان دی جاتی ہے‘ باجماعت نماز کا اہتمام نہیں کیا جا سکتا۔لیکن پاکستان میں اس حوالے سے حکومت گو مگو کا شکار ہو چکی ہے۔ صدرِ مملکت کے زیر صدارت اجلاس کا اعلامیہ ابہام کا شکار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مفتیانِ عظام نے اپنے ایک گزشتہ فتوے میں حکومت کا یہ حق تسلیم کر لیا تھا کہ وہ طبی وجوہات کی بنیاد پر مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کر سکتی ہے‘اور اسی کے نتیجے میں مساجد کے عملے کے پانچ افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو باجماعت نماز کا اہتمام کرنے سے روک دیا گیا تھا‘ تو اب تراویح یا نمازِ عید کے حوالے سے اس پر نظرثانی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔نمازِ تراویح تو واجب بھی نہیں ہے‘یہ ایک نفلی عبادت ہے‘ جس کا بخوبی اہتمام گھروں پر کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہنا چاہیے کہ جن احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ ان کو ملحوظ خاطر رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ ہزاروں کیا لاکھوں مساجد میں آنے والے لاکھوں افراد کو سماجی فاصلے پر کون مجبور کر سکے گا؟...اللہ کرے‘ یہ وائرس نہ پھیلے‘لیکن اگر پھیلا اور مساجد کے اجتماعات اس کا بڑا ذریعہ بن گئے تو پھر نتائج کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟حکومت پر یا ان مفتی صاحبان پر جو دو ٹوک انداز میں معاملہ نہیں کر رہے۔وزیراعظم عمران خان نے بھی ائمہ مساجد سے اپیل کی ہے کہ وہ قواعد کی پابندی کریں اور نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلہ یقینی بنائیں۔ یہ توقع اپنی جگہ ‘لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ کورونا وائرس ایک غیر مرئی شے ہے‘ بعض اوقات اس کا حامل جو اسے دوسروں کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ خود بھی اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ اس میں اس کی کوئی علامت نظر نہیں آ رہی ہوتی‘کہا جا رہا ہے کہ بزرگ اور بیمار مساجد کا رخ نہ کریں‘لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ مسجدوں میں جانے والے نوجوان اگر وہاں سے یہ تحفہ لا کر اپنے بزرگوں کی نذرکر دیں گے تو پھر کیا ہو گا؟ صدرِ مملکت نے اپنے ڈھیلے ڈھالے اعلامیے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر خصوصی ہدایات کی پابندی نہ کی گئی تو پھر کوئی اور حکم بھی جاری کیا جا سکتا ہے‘ یعنی پھر پابندی لگائی جا سکتی ہے... بصد ادب یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ نمازِ تراویح کے وقت ڈسپلن قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔حکومت کی ڈھلمل یقینی اور علمائے کرام کی ضد سے کسی بڑے فتنے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ غیر معمولی حالات میں نماز ادا کرنے کے حوالے سے رسول اللہؐ کے احکامات واضح ہیں۔ایسے مواقع پر انہوں نے واضح طور پر نماز گھروں میں ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ براہِ کرم پورے عالمِ اسلام سے الگ کھڑے ہو کر اپنا مذاق نہ بنایا جائے۔ نفلی عبادت کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ اقدام کیا جائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)