اس حکایت کو دنیا کے ہر ادب میں مختلف انداز اور پیرائے میں پیش کیا گیا ہے‘ اقتدار کے ایوانوں کی بے ثباتی پر اس سے خوبصورت حکایت پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایک بادشاہ اپنا دربار سجائے انتہائی شان و شوکت کے ساتھ تخت پر بیٹھا تھا۔ خوشامدی درباریوں کی گفتگو جاری تھی۔ تخت و تاج کی کہانی عجیب ہے۔ جب کوئی اس مسند پر بیٹھا ہو تو اسے کوئی لاکھ یقین دلائے کہ سب کچھ عارضی اور ختم ہونے والا ہے،اسے کسی طور اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسی ہی کیفیت میں سجے ہوئے اس دربار میں ایک درویش اندر داخل ہوا اور سامنے بیٹھے بادشاہ سے سوال کیا: کیا میں اس سرائے میں چند دن قیام کرسکتا ہوں؟ پورے دربار میں اس سوال پر سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ نے غصے سے سوال کیا: تم نے کوئی ایسی سرائے دیکھی ہے؟ اس قدر خوبصورت، اتنی پرشکوہ اور اتنی جاذب نظر۔ یہ سرائے نہیں، میرا محل ہے۔ درویش نے سوال کیا: اس جگہ کو جسے تم محل کہتے ہو‘ تم سے پہلے کون رہتا تھا؟ بادشاہ نے جواب دیا: میرا باپ، اس سے پہلے میرا دادا اور دادا سے پہلے اس کا باپ۔ بادشاہ اپنے خاندان کے نام گنتا گیا۔ درویش نے پوچھا: ان سب سے پہلے؟ بادشاہ نے کہا کہ فلاں خاندان کے افراد جن سے ہم نے یہ تخت چھینا تھا۔ درویش نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا: بادشاہ! کسی عقل والے سے جا کر پوچھو، جس جگہ لوگ آئیں، چند روز قیام کریں اور پھر چلے جائیں‘ اسے سرائے ہی کہتے ہیں یا کچھ اور؟ پاکستان کے اقتدار کی سرائے میں نئے مکین آنے والے ہیں۔ جمہوریت کے دو کمالات ہیں۔ پہلا یہ کہ جس طرح مسافر بار بار سفر کرتے ہوئے ایک ہی سرائے میں کئی بار ٹھہرتے ہیں، ویسے ہی اقتدار کی سرائے میں بار بار کسی شخص کو قیام کا موقع ملتا ہے۔ دوسرا کمال یہ ہے کہ اس سرائے میں چند سال گزارنے کے لیے داخل ہونے والا یہ سمجھتا ہے‘ بلکہ اس کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اسے یہ مرتبہ و مقام اس کی حکمت عملی، مفید پالیسیوں‘ منشور اور سب سے بڑھ کر عوام کی اکثریت کی بدولت ملا ہے۔ اس کی زبان سے یہ لفظ نکلتے تو ضرور ہیں کہ ’’اللہ کے فضل سے‘‘ لیکن دل ان الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا۔ پاکستان جیسے ممالک کا ایک اور المیہ ہوتا ہے، یہاں حکومتیں ایک مقصد کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔ ایک ایجنڈے کے تحت لوگوں کو برسراقتدار لایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس محل سرائے میں براجمان ہونے والے سب سے پہلے ان طاقتوں اور قوتوں کے شکرگزار ہوتے ہیں، ان کی خوشی اور خوشنودی کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور اپنے اقتدار کی طوالت کو ان طاقتوں کی مہربانی سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ کی بجائے ان سے خوفزدہ ہوتے ہیں جبکہ اللہ اپنے بندوں کی ایک ہی پہچان بتاتا ہے: ’’آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو‘‘ (آل عمران :175) لیکن یہاں تو دلوں میں خوف ہی کسی اور کا ہوتا ہے‘ چاہے ان طاقتوں کا خوف ہو جن کے سرمایے اور منصوبہ بندی سے وہ برسراقتدار آئیں یا پھر جمہوری نظام میں اپنے ووٹر کا خوف۔ یہ دونوں خوف ہیں جو سرائے کے عارضی مکینوں کو انصاف سے دور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ جب فیصلے کرتے ہیں‘ ان کے سامنے یا تو الیکشن میں عوام کا ووٹ ہوتا ہے یا پھر وہ طاقتیں جن کے سفیر سروں پر تلوار لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ طاقتیں کیا چاہتی ہیں اور پاکستان کا موجودہ الیکشن کس قسم کے نتائج لے کر آیا ہے۔ ایسے نتائج عوام کی اجتماعی سوچ سے برآمد نہیں ہوا کرتے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میںآپس میں اس قدر نفرت بھی نہیں ہے کہ جو پارٹی خیبرپختونخوا میں جیتے وہ پنجاب میں نہ ہو اور جو پنجاب میں ہو اس کا وجود سندھ میں نظر نہ آئے اور بلوچستان تو ایک بار پھر حیرت سے دیکھ رہا ہے کہ یہ سب کون ہیں اور یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ 1970ء کے الیکشن میں ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی تھی اور پھر اس دورمیں محل سرائے کے مکین نے ان دونوں قوتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کی تقسیم کا ڈرامہ رچا دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ کے نام پر بننے والے اس ملک کی تقسیم کے ذمہ دار جو لوگ بھی تھے ان گھرانوں میں کوئی شخص اپنے پیاروں کی لاش سکون اور اطمینان سے نہیں اٹھا سکا تھا۔ اندراگاندھی سے سنجیو اور پھر راجیو، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کہ جسے بابائے قوم کہا جاتا تھا پورے خاندان سمیت نشان عبرت بن گیا۔ پاکستان میں جو تھا اس کا تذکرہ کیا کرنا‘ سب کو اس بدقسمت گھرانے کا ادراک ہے۔ یہ سب میرے اللہ کی طرف سے نشانیاں تھیں‘ ایک وارننگ کہ سنبھل جائو لیکن شاید اب وارننگ نہیں ملے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کی آزمائش طویل ہوگئی ہے۔ مہلت زیادہ مل گئی ہے۔ مہلت زیادہ مل جائے تو نہ سمجھنے پر سزا بھی سخت ہوتی جاتی ہے۔ لیکن وہ جو صاحب ایمان ہیں، جن کے دلوں میں صرف اللہ کا خوف ہے‘ ان کا راستہ وہی ہے جو نئے مکینوں سے آنے سے پہلے والوں کے ساتھ تھا۔ اس کو یہ راستہ تو میرے آقا محمدﷺ نے بتایا ہے۔ حضرت کعب بن عجرہؓ روایت کرتے ہیں: ’’رسولﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم نو آدمی تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے بعد ایسے امیر آئیں گے کہ جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے گا‘ نہ وہ میرا ہے اور نہ میں اس کا اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر بھی نہیں آسکے گا اور جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا۔‘‘ (سنن نسائی، کتاب البیع) حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ صحابہ نے پوچھا: کیسے ذلیل کرے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’وہ کوئی ایسی بات دیکھے جس پر اللہ کیلئے کچھ بولنا چاہیے تھا پھر بھی وہ نہ بولے تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ موقع ضائع کر چکا ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تم کو حق بات کہنے سے کس نے روکا، وہ کہے گا، لوگوں کے خوف نے‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں اس بات کا زیادہ حق دار تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے‘‘ (کتاب الفتن) عبرت سرائے کے مکین بدلتے رہتے ہیں۔ سب کے دلوں میں انسانوں کے خوف ہیں جبکہ وہ جو صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، ان کا راستہ پرانا ہے وہ اس پر چلتے ہوئے تھکتے نہیں، ان کے پائوں لہولہان ہوں یا سانس پھول جائے، انہیں اللہ کا خوف اس راستے سے ہٹا نہیں سکتا۔ وہ تو سجے سجائے دربار میں کھڑے صرف ایک ہی صدا بلند کرتے ہیں۔ یہ ایک سرائے ہے اور اس کے مکین مسافر ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved