آج کل رات کے نو بجے اسلام آباد میں اتنی خاموشی ہوتی ہے کہ گھڑی کی ٹک ٹک صاف سنائی دیتی ہے۔میں کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی کہ اچانک گڑگڑ کی آواز سنائی دینے لگی۔مجھے لگا کہ شایدمیرا وہم ہے‘ لہٰذامیں دوبارہ کتاب پڑھنے لگی‘ پھر آواز آئی‘ تولگا کہ جیسے کوئی گھاس کاٹنے والی مشین چلارہا ہو۔مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ اس وقت کون گھاس کاٹ رہا ہے؟ٹیرس سے باہر دیکھا تو ایک بزرگ گرین بیلٹ پر بڑھی ہوئی گھاس کاٹ رہے تھے اور خشک ڈنڈیاں جمع کررہے تھے۔میں نے تجسس سے پوچھا :باباجی آپ کون ہیں؟ کیا آپ مالی ہیں اوراتنی رات کو یہ کام کیوں کررہے ہیں ؟ بابا جی کہنے لگے: جی بیٹا میں مالی کا کام کرتا ہو ں‘لیکن آج کل کورونا وائرس کے خوف سے کوئی بھی کام پر نہیں بلارہا ‘تو سوچا یہاں سے تھوڑی گھاس کاٹ لوںاور لکڑیاں جمع کرلوں۔گھاس میری بکری کے کام آجائے گی اوران لکڑیوں سے میرے گھر کا چولہا جل جائے گا۔میں نے بابا جی مدد کی غرض سے انہیں کچھ پیسے دینا چاہے‘ تو وہ کہنے لگے: بیٹا ! مجھ سے اپنے گھر کی کیاریوں کا کام کرالیں‘میں محنت کرکے کھاتا ہوں اور صدقہ خیرات نہیں لیتا ہوں۔میں نے ان کوصبح آنے کیلئے کہا‘ تاکہ پودوں اور کیاریوں کا کام کروایا جا سکے۔اگلے دن جب وہ کام کرنے آئے ‘ توانہوں نے مجھے بتایا کہ آج کل کام بالکل نہیں‘ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں اتنے پیسے کما لیتا ہوں کہ گھر کا راشن خرید سکوں۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ویسے بھی تو صدقہ خیرات لے سکتے تھے؟ انہوں نے کہا: بیٹا جب تک میرے ہاتھ سلامت ہیں‘ میں صدقہ خیرات نہیں لے سکتا ۔الغرض وطن ِ عزیز میں میں مالی بابا جیسے ایماندار‘ محنتی اور جفا کش بے شمار لوگ ہیں ‘ لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی بے شمار ہیں ‘جو قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
پاکستان پر حکومت کرنے والی اشرافیہ میں سے اکثر عوام کا حق خود ہڑپ کرلیتے ہیں اور نادم بھی نہیں ہوتے۔یہ جتنا پاکستان کو لوٹتے ہیں‘ اتنے ہی معتبر بنے پھرتے ہیں۔یہ لوگ اپنے کاروبارکیلئے حکومت سے سبسڈی لینا اپنا حق سمجھتے ہیں ‘ جبکہ عوام کو ایک روپے کی رعایت دینے کے روادار نہیں ہوتے‘ تاہم دنیاداری کی خاطر اور دکھاوے کیلئے لاکھوں روپے کی خیرات دیتے ہیں‘ نیز اپنے ٹیکس بچانے کیلئے ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن بنا لیتے ہیں‘ لیکن ان ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن میں کام کرنے والے ورکرز اپنی تنخواہوں کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں۔ان میں کام کرنے والوں کو کوئی بھی بنیادی سہولیات نہیں دی جاتی ہیں‘ یعنی یہ انوکھے لاڈلے ہوتے ہیں اوریہ ہر دور میں حکومت کا حصہ ہوتے ہیں ۔ہر دور میں مال بناتے ہیں اور حکومت تبدیل ہوتے ہی نئی حکومت کا حصہ بننے کیلئے تگ ودو میں رہتے ہیں۔یہ انوکھے لاڈلے ہر بار احتساب سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں‘ کیونکہ ان انوکھے لاڈلوں کو سب کچھ معاف ہے۔
جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو بہت بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ ہم ملک کا نقشہ بدل دیں گے‘ لیکن ایسااب تک نہیں ہوا۔ صرف ڈیڑھ سال میں تبدیلی مانند پڑگئی ہے اور سب کچھ ویسے ہی چلایا جارہا ہے‘ جیسے پہلے چلایا جاتا تھا۔ گزشتہ دنوں ا ٓٹے اورچینی کے سکینڈل کے بعد اب نجی پاور کمپنیوں کا ایک میگاسکینڈل بھی سامنے آیا ہے۔پاور سیکٹر میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ شعبہ توانائی میں یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے اور پاکستانی شہریوں کو خطے میں سب سے مہنگی بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ نجی کمپنیوں نے بہتر ٹیرف کیلئے تیل کے غلط اعداد و شمار پیش کیے‘ 1994ء کی پاور پالیسی کے تحت 16 کمپنیوں نے 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور یہ کمپنیاں اب تک 415 ارب روپے منافع کما چکی ہیں۔ واضح رہے کہ مارچ کے آخری ہفتے میں وزیراعظم عمران خان کو پاور سیکٹر میں ہونے والی بدعنوانی پر رپورٹ پیش کی گئی۔اس رپورٹ کے مطابق‘ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو اربوں روپے کی زائد ادائیگیاں کی گئیں ۔یہ ادائیگیاں کیوں کی گئیں؟اس کے پیچھے وہ تمام سابقہ حکومتیں ہیں ‘جن کے یہ انوکھے لاڈلے حصہ رہے ہیں۔سابقہ حکومتوں نے ملک کے مفاد کیخلاف ان سے معاہدے کئے اور ہر دور میں ان انوکھے لاڈلوں کو نوازا ۔
انکوائری کمیٹی کے مطابق ‘ان کمپنیوں کے سرمایہ کاروں نے شراکت داروں کو 22 گنا منافع ادا کیا۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاور پالیسی 2002 ء کے تحت 2934 میگاواٹ کے پاور پروجیکٹس لگائے گئے‘ جن میں ان کمپنیوں نے 57 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی‘ نیزپاور پالیسی 2002ء کے تحت کمپنیاں 203 ارب روپے منافع کما چکی ہیں۔اس کے علاوہ پاور پالیسی 2015ء کے تحت دو کمپنیوں نے پاور پروجیکٹس لگائے؛ ایک کمپنی ایک سال کے دوران ہی اپنی سرمایہ کاری پر 71 فیصد منافع کما چکی ‘جبکہ دوسری کمپنی نے ایک سال میں سرمایہ کاری کا 32 فیصد منافع کما لیا۔بجلی بنانے والی کمپنیوں نے بجلی بنانے کیلئے تیل کم استعمال کیا ‘مگر ظاہر زیادہ کیا‘ تاکہ بجلی کی قیمت زیادہ ہو۔تیل کی مد میں یہ کمپنیاں گزشتہ 9 سال کے دوران 64 ارب 22 کروڑ روپے سے زائد کما چکی ہیں۔ یہ کمپنیاں مستقبل میں اسی مد میں 145 ارب 23 کروڑ سے زیادہ وصولی کریں گی۔2013ء کے فریم ورک کے تحت بجلی بنانے کے 8 منصوبے لگائے گئے اور 2013ء کے فریم ورک کے تحت کمپنیوں کو 6 ارب 33 کروڑ روپے کی زائد ادائیگیاں کی گئیں۔انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ‘مِس میچ فریکوئنسی کے تحت 2002 سے لے کر اب تک 565 ارب 88 کروڑ روپے کی زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔جامشورو پاور پلانٹ کی قیمت 6 لاکھ 60 ہزار ڈالر فی میگا واٹ تھی‘ جبکہ ساہیوال کول پاور پلانٹ کی قیمت 10 لاکھ ڈالر فی میگا واٹ ہے۔
انکوائری میںیہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2005 ء اور 2010 ء کے دوران بجلی کی پیداواری لاگت میں 148 فیصد اضافہ ہوا‘ جبکہ 2007ء سے 2019ء کے دوران پاور سیکٹر کو 3202 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ 2007ء سے2019ء تک سبسڈی کی مد میں 2860 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔لیکویڈیٹی کی مد میں 142 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ مالی سال 2019 ء میں سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضے) میں 465 ارب روپے کا اضافہ ہوا‘ جبکہ 2007ء میں سرکاری قرضہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 52 فیصد تھا۔ 2019 ء میں حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے 85 فیصد تک بڑھ گیا‘لہٰذانکوائری کمیٹی نے پاور پلانٹس کیلئے اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ نجی بجلی گھروں کو کی گئی زیادہ ادائیگیاں ریکور کی جائیں‘ نیزیہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ بجلی گھروں کا منافع ڈالرز کی بجائے روپے میں کیا جائے۔انکوائری کمیٹی کا موقف ہے کہ سفارشات پر عمل سے مستقبل میں 4700 ارب روپے کی بچت ہوگی‘ نیزکمیٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدے ''ٹیک اینڈ پے‘‘ میں تبدیل کیے جائیں‘ اس سے 150 سے 200 ارب روپے کی بچت ہوگی۔واضح رہے کہ پاور سیکٹر پر ملکی تاریخ کی پہلی 278 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ 9 رکنی کمیٹی نے تیار کی ہے۔
عوام اور حکومت پاور سیکٹر کے ہاتھوں خوار ہوہوتی ہے‘ لیکن پاور سیکٹر کی کمپنیاں اپنے من مانے ریٹس مقرر کرتی ہیں اور لوڈشیڈنگ بھی کرتی ہیں اور آخر میں سب سے زیادہ منافع بھی کما لیتی ہیں۔یوں ہر سال نیا گردشی قرضہ کھڑا ہوجاتا ہے ‘جس کے نیچے پاکستانی معیشت دب جاتی ہے‘اگر مذکورہ بالا انکوائری رپورٹ کا فرانزک آڈٹ ہوگیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کا ہوجائے گا۔ان (آئی پی پیز) کو دیکھ کرلگتا ہے‘ جیسے یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسرا جنم ہیں۔گزشتہ دس سال میں کئی پاور پلانٹس میں سے متعدد نے بجلی پیدا ہی نہیں کی‘ لیکن منافع لے اڑے‘ لہٰذا ان کا احتساب ناگزیر ہے۔