تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     21-04-2020

انتقامی سیاست کا انجام

عام انتخابات کو ہوئے بائیس ماہ ہوچکے ہیں۔ مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومتیں کام کررہی ہیں۔گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بدستور فرائض انجام دے رہی ہیں‘ لیکن اپنے آپ کو ناگزیر اور لازم و ملزوم سمجھنے والے ابھی بھی اس لکیر کو پیٹ رہے ہیں ‘جو ان کے لیے مِٹ چکی ہے اور اس قسمت کی لکیر کو دوبارہ اپنے مقدر میں شامل کرنے کیلئے اقتدار سے محروم خاندان دن رات تگ و دَو میں مصروف ہے۔
مسلم لیگ (ن )کے صدر شہباز شریف کا ایک انٹرویو محترم سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں تحریر کیا ہے‘ جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ عام انتخابات 2018ء سے ایک ماہ پہلے ان کی بااثر حلقوں سے ملاقات میں ان کا کہ آئندہ وزیراعظم ہونا اور کابینہ تک کے نام فائنل ہوچکے تھے‘ لیکن پارٹی (مریم نواز) کے بیانیے نے ایسا نہ ہونے دیا۔میاں شہباز شریف کی اس گفتگو کا واحد مقصد اس کے علاوہ کچھ اور معلوم نہیں ہوتا کہ وہ سننے اور دیکھنے والوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں انہیں مقتدر حلقوں نے آؤٹ کیا ہے‘ ورنہ تو معاملات کچھ اور تھے۔دوسرے لفظوں میں شہباز شریف وہی بات کر گئے جو مریم نواز کا بیانیہ ہے‘ یعنی سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کا۔اور یہ بات شہباز شریف اس وقت کس کو سنا رہے ہیں اور کس کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ؟اور ان کی توپوں کا ہدف اصلاً کون ہیں؟ یہ بالکل واضح ہے۔
یہاں ایک خبر اور شامل کردوں کہ پوری بات یہ ہے کہ شریف فیملی نے آخری وقت تک کوششیں جاری رکھیں کہ انہیں خدمت کا ایک اور موقع دیا جائے ‘خاص طور پر شہباز شریف نے بہت کوشش کی اور اس کیلئے انہوں نے سعودی عرب اور ایک اور تگڑے ملک سے براہ ِراست سفارشیں بھی کروائیں۔ایک بڑے ملک کے تگڑے وزیرنے پاکستان کے تگڑے ترین بندے کو کم و بیش تین بار فون کال کی جس کا واحد پیغام یہ تھا کہ شریف فیملی کا خیال رکھا جائے اور انہیں عام انتخابات میں مناسب سپیس دی جائے ۔اس تگڑے ملک کے تگڑے وزیر کو چونکہ کوئی واضح انکار نہیں کیا گیا تھا اس لیے کالر وزیر کا خیال یہی تھا کہ ان کی بات کا اثر لیا جائے گا‘ لیکن زمینی حقائق ذرا مختلف بھی تھے اور ڈیپ سٹیٹ کے سینے میں دل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی؛البتہ سعودی عرب کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ شریف فیملی کا آئندہ اقتدار میں کوئی حصہ نہیں ہوگا‘ اسی لیے عام انتخابات سے پہلے عمران خان عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے تھے‘ جہاں ان کی محمد بن سلمان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔
دراصل شریف فیملی نے اپنے آپ کو ملکی سیاست اور ایوانِ اقتدار کا مستقل مکین سمجھ لیا تھا اور یہ جانے بغیر کہ ریاست میں وہی کھپ سکتا ہے‘ جو ریاست کے تابع رہ کر کام کرے‘ ریاست سے بڑا ہونے کی پرویز مشرف نے بھی کوشش کی تھی‘ جس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ہمارے ہاں کا یہ المیہ رہا ہے کہ جو بھی مقبول عوامی لیڈر بنا اس نے سب سے پہلے اپنے اداروں کو فتح کرنے کی کوشش زیادہ کی اور اس فتح سے ہمکنار ہونے کیلئے اس نے بیرونی طاقتور کرداروں کا سہارا لیااور ہمیشہ مقتدرہ سے پنجہ آزمائی کی اور اپنے پنجوں سے محروم ہوا۔
غدارِ وطن شیخ مجیب عوامی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کی سب سے بڑی اور پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کو دولخت کرنے میں دشمنوں کا کھیل کامیابی سے کھیل چکا تھا‘ پاکستان ایک ایسی مملکت تھی ‘جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی اور ایک عجوبے سے کم اس لیے بھی نہیں تھی کہ اس اسلامی مملکت کے دو صوبوں میں زمینی رشتہ کوئی نہیں تھا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا‘ لیکن پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نظریے نے اس وطن کو ایک بنادیا تھا اور مختلف زبانوں ثقافتوں اور مذاہب کے لوگ سبز ہلا لی پرچم کے تلے متحد تھے۔جو ہوا تاریخ میں محفوظ ہے اور وقت نے ثابت کیا پاکستان کو دولخت کرنے میں داخلی اور عالمی استعمار وں نے اپنا کھیل کھیلا اور جس طرح خالدہ ضیا کی حکومت کے بعد حسینہ واجد کی حکومت ہر اس شخص کو بلا تمیز بے رحمی سے نام نہاد عدالتی ٹربیونلز کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش اور پاکستان کو دوبارہ قریب لانے کے خواہشمندوں کی نسل ہی ختم کردی جائے ‘تاکہ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ذرا سوچئے‘ اگر ایٹمی قوت پاکستان آج متحد ہوتا تو بھارت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سینڈ وچ بن گیا ہوتا اور اس کے دونوں اطراف ایٹمی قوت پاکستان ہوتا‘لیکن اس وقت کے استعماروں نے میر جعفر اور میر صادق کے ذریعے ایک زہریلا کھیل کھیلا۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات نے پاکستان کو دولخت کروا دیا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو دوسرے بڑے عوامی لیڈر تھے‘ بدقسمتی سے وہ سویلین کے روپ میں بدترین آمر قرار پائے‘ اپنے مخالفین کیلئے فیڈرل سیکورٹی فورس بنائی اور امورِ مملکت بھی اسی انداز میں چلائے‘ آئین پاکستان 73 کی تشکیل اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے جیسے نمایاں اقدامات کرنے کے باوجود اپنی کامیابی کو مثبت طور پر استعمال میں نہ لاسکے اور دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش نے دھاندلی زدہ الیکشن کروایا اورپھر سنبھل نہ سکے۔ ضیا الحق شہید سے پنجہ آزمائی ہوئی اور ایک قبر دو شخصیات کا جملہ مشہور ہوا ‘یعنی بھٹو مرحوم اور ضیا الحق میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا تھا ۔ظاہر ہے‘ جو اس وقت طاقتور تھا وہ کامیاب قرار پایا‘ بھٹو مرحوم نے سمجھوتہ نہیں کیا اور پھانسی تک جا پہنچے ؛البتہ ان کی قربانی آئندہ آنے والے وقتوں تک وہ قیمت ہے ‘جو بھٹو مرحوم نے تمام سیاستدانوں کی طرف سے پیشگی اداکردی ‘کیونکہ بھٹو مرحوم کے بعد اب کسی کیلئے بھی یہ ممکن نہیں رہا کہ کسی عوامی لیڈر کو سزائے موت دے سکے۔اس کی وجہ بھٹو مرحوم کی پھانسی سے پیدا ہونے والی وہ تلخیاں ہیں جو آج تک قائم ہیں اور سول ملٹری جوڈیشری تعلقات میں قائم ہیں۔
بھٹو مرحوم کی پھانسی کے بعد تلخیاں نفرت اور دشمنی تک جا پہنچیں اور بھٹو مرحوم کے بیٹوں نے ریاست سے انتقام لینے کیلئے عسکری تنظیم الذوالفقار بنائی‘ جس نے پی آئی اے کا جہاز ہائی جیک کیا اور ایک مسافر کو قتل کیا ‘بدلے میں پچاس سے زائد جیلوں میں قید پی پی پی کے رہنماؤں کو رہا کروایا اور جہاز اور مسافروں کو رہا کیا۔بھٹو مرحوم کے بچوں کے جذبات کو پاکستان کے دشمنوں نے بھی خوب استعمال کیا اور انہیں پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا کردم لیا؛البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے آپ کو سیاسی جدوجہد تک محدود رکھا اور اس کا ثمر انہیں دوبار وزارتِ عظمیٰ تک لے گیا ‘تاہم دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بیگانی جنگ میں وہ دہشت گردوں کے انتقام کا نشانہ بن گئیں۔بھٹو مرحوم کی جنرل ضیا سے دشمنی اور نواز شریف کی پرویز مشرف سے دشمنی صرف شخصیات اور افراد تک محدود رہتی تو تلخیاں ختم ہوسکتی تھیں‘ لیکن یہ دشمنیاں اداروں تک بڑھا دی گئیں۔ جو غلطیاں اور راستہ بھٹو مرحوم کے صاحبزادوں نے اختیار کیا ‘اسی راستے پر نواز شریف کی صاحبزادی چل رہی ہیں‘ انہوں نے بھی کچھ آڈیو اور ویڈیو ٹیپس ریکارڈ کرکے لندن بھجوائی ہوئی ہیں اور وہ اپنے زورِ بازو اور غیروں کی لابی سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا چاہتی ہیں اور پھر سلسلہ وہیں سے شروع کرنا چاہتی ہیں‘ جہاں پر ان کے والد نے چھوڑا تھا۔جب ان ارادوں سے ادارے آگاہ ہوں تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنے پاؤں پرکلہاڑا مارنے کیلئے خود ہی مریم بی بی کو دے اور اپنا سر تک قلم کر والے۔
پاکستان کا المیہ صرف ایک ہے کہ ہم خود ہی باہم برسر پیکار ہیں اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں ‘بدلے کی آگ سے کبھی خیر برآمد نہیں ہوتا‘ ہمیشہ شر فساد‘ حسد اور لاحاصل فتنے ہی جنم لیتے ہیں۔اور ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بدلے کی آگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دنیا کی کوئی مملکت ایسی نہیں کہ جہاں ایسی قیادت کو اقتدار سونپ دیا جائے جس کے منشور میں اپنی ہی ریاست کے اداروں کو فنا کرنا ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved