نواب زادہ صاحب شعر پڑھا کرتے تھے ؎
سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
کئے جاؤ میخوارو کام اپنا اپنا
کورونا کی برپا کی ہوئی سنگین صورتحال میں بھی نیب اپنے کام میں مصروف ہے ۔نیب چیئرمین کا یہ قولِ صادق ان کی ہر تقریر کا جزو لازم بن چکا کہ ہم ''فیس‘‘ نہیں‘ ''کیس‘‘ دیکھتے ہیں۔(فرزندِ لال حویلی اپنی گفتگو میں انگریزی کے جو تین بار مقولے یا محاورے دہراتے رہتے ہیں ان میں ایک There is a face behind the caseبھی ہوتا ہے) یہ الگ بات کہ ہفتوں بلکہ مہینوں زیر حراست رہنے کے باوجود انویسٹی گیشن (اور اس کے بعد پراسیکیوشن) میں ایسی کمزوریاں رہ جاتی ہیں کہ عدالتیں ملزم کو ضمانت پر رہا کر دیتی ہیں۔ سنا ہے‘ جنابِ وزیراعظم گزشتہ دنوں اس صورت حال پر اظہارِ برہمی کئے بغیر نہ رہے‘ جس کے نتیجہ میں ''ولن‘‘ ''ہیرو‘‘ بن کر باہر آ جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںشہباز شریف کو تازہ نوٹس نیب حکام کی اپنے فرائضِ منصبی سے وابستگی اور احساسِ ذمہ داری کا ایک اظہار ہے۔ یہ آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا کیس ہے جس میں نیب نے 17اپریل کو شہباز شریف کو طلب کیا تھا‘ لیکن کورونا وبا میں آئیسولیشن کے بہانے انہوں نے حاضری سے معذرت کر لی۔ انہی دنوں فرزندِ لال حویلی نے (جنہیں بعض ستم ظریف سیاست کا بقراطِ عصر بھی کہتے ہیں) ایک ٹاک شو میں فرمایا کہ شہباز شریف اور حمزہ کے خلاف بڑے سنگین کیس ہیں اور وہ آئندہ چند دنوں میں شہباز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہے ہیں۔ (حمزہ شہباز تو پہلے ہی دس ماہ سے جیل میں ہیں) شہباز شریف 17اپریل کو حاضر نہ ہوئے تو شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ''دم‘‘ کا اثر ہے (جو شہباز شریف گرفتاری سے بچ گئے ہیں)۔ یاد آیا‘ مریم نواز شریف کو گزشتہ سال آٹھ اگست کو نیب نے دوبجے طلب کر رکھا تھا۔ یہ جمعرات کا دن تھا‘ کوٹ لکھپت جیل میں زیر حراست سابق وزیراعظم سے اہل خانہ کی ہفتہ وار ملاقات کا دن‘ مریم نے کسی اور دن طلب کرنے کی درخواست بھجوا دی‘ لیکن نیب حکام آٹھ اگست کو بارہ بجے وارنٹ گرفتاری لے کر کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے (جہاں مریم نواز اپنے والد سے ملاقات کرر ہی تھیں۔ نیب کے حکام نے حاضری کے طے شدہ وقت (دوبجے) کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔ یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ یہ وہی دن اور وہی وقت تھا جب مقبوضہ جموں و کشمیر کے خلاف مودی کی پانچ اگست کی عریاں سیاسی جارحیت پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حزب ِاختلاف متفقہ قرار داد کی تیاری میں مصروف تھی۔ تو کیا تاریخ ایک بار پھر خود کو دہراتی اور نیب حکام عدم حاضری پر شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے ماڈل ٹاؤن پہنچ جاتے؟لیکن شیخ صاحب کے بقول‘ ان کے ''دم‘‘ نے کام دکھایا اور شہباز شریف گرفتاری سے بچ گئے۔
ادھر نیب نے شہباز شریف کو 22اپریل (بدھ کو) دوبارہ طلب کر لیا ہے کہ اس اہم کیس میں انکوائری آخری مرحلے میں ہے‘ جس کیلئے شہباز شریف کے جوابات ضروری ہیں۔ نیب نے اس موقع پر (کورونا کے حوالے سے) ضروری حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی بھی کروائی ہے اور اس کے ساتھ اس بار بھی عدم حاضری کی صورت میں ضروری قانونی کارروائی کی یاد دہانی بھی۔ تو کیا یہ شہباز شریف کی گرفتاری کا اشارہ ہے‘ لیکن شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے ''دم‘‘ کے نتیجے میں ان کی ایک دو پیشیاں مزید نکل جائیں گی اور اس کے ساتھ میاں شہباز شریف کیلئے یہ مشورہ بھی کہ وہ رمضان شریف کا مہینہ گھر میں اللہ‘ رسولؐ کا نام لے کر آرام سے گزاریں (تو کیا اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری عید کے بعد تک ٹل گئی؟) ادھر نیب کا کہنا ہے کہ اس پر کسی کے ''دم‘‘ کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ قانون کے تقاضوں کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔ مریم اورنگ زیب وہی ''گھسا پٹا‘‘ استدلال لائیں کہ یہ کورونا سے لڑنے کا وقت ہے لیکن ''نیب نیازی گٹھ جوڑ‘‘ سیاسی مخالفین سے لڑ رہا ہے۔
ادھر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ کورونا وبا کے سر اٹھاتے ہی شہباز شریف کی لندن سے (اچانک) واپسی حکومت (اور حکومتی پارٹی) پر خاصی گراں گزری تھی۔ ہمارے فواد چودھری‘ شہباز شریف کی واپسی کے اعلان کو سیاسی ڈرامہ بازی قرار دے رہے تھے کہ لندن سے پروازیں تو معطل ہو چکیں‘ شہباز شریف بھاگم بھاگ آخری پرواز پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو فواد چودھری نے انہیں دو ہفتے کیلئے قرنطینہ میں بیٹھنے کا مشورہ دے دیا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا کہنا تھا‘ شہباز شریف کے تمام پراجیکٹ داغدار تھے۔ وہ اب کورونا کے حوالے سے جو بھی تجویز دیں گے‘ متنازعہ ہوگی۔ مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا‘ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان کے پاس اگر کوئی تجویز ہے تو سپیکر قومی اسمبلی کو لکھ بھیجیں۔ وہ وزیراعظم سے ملاقات پر مُصر ہوں تو اس کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کی دعوت پر پارلیمانی جماعتوں کے ویڈیو لنک سربراہی اجلاس میں‘ جناب وزیراعظم کے اپنی تقریر کے بعد چلے جانے (اور اس موقع پر حزب اختلاف کے رہنماؤں کیلئے خیر مقدمی یا الوداعی کلمات تک نہ کہنے) سے جو بدمزگی پیدا ہوئی اس میں میاں شہباز شریف اور بلاول بھی احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے۔
ایک بے قراری اور بے چینی شہباز شریف کی طبیعت کا بنیادی عنصر ہے۔ وہی ''فارغ نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا‘‘ والی بات۔ انہوں نے آتے ہی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی اور عہدیداروں کو متحرک کرنے کے علاوہ حزب اختلاف کی قیادت سے بھی رابطے کئے۔ وہ کورونا کے بدترین بحران میں‘ حکومت اور حزب اختلاف میں تعاون اور اشتراک عمل کی راہیں نکالنا چاہتے تھے۔ لیکن اس دوران ایک دو واقعات نے دور دور تک خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ وہ خواجہ سعد رفیق (اور سلمان رفیق) سے ملاقات کیلئے ان کے ہاں پہنچ گئے۔ اصل ''خدشہ‘‘ اگلے روز خواجہ برادران کی چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات نے پیدا کیا۔ یہ ملاقات تین گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ فریقین اسے رسمی خیر سگالی ملاقات قرار دے رہے تھے‘ جس میں خواجہ سلمان رفیق (اور حمزہ شہباز) کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا۔ لیکن کیا حقیقت بھی یہی تھی؟ اس کے ساتھ رانا ثنا اللہ سے علیم خاں کے (فون پر) رابطے کی خبر بھی آ گئی۔ (علیم خاں نے اس کی تردید کر دی)۔ ادھر ''وفاق‘‘ میں جہانگیر ترین کے ساتھ پیدا ہوئے مسائل نے پنجاب میں علیم خاں کی اہمیت بڑھا دی تھی‘ وہ جو کہتے ہیں‘ ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ تو اس سب کچھ کا نتیجہ بزدار کابینہ میں‘ علیم خاں کی سینئر وزیر کے طور پر واپسی کی صورت میں نکلا۔
لیکن میاں شہباز شریف کا کیا ہوا؟ ان کے تازہ انٹرویو میں ''چودھریوں‘‘ کے ساتھ شریف خاندان کی تلخیوں کے خاتمے‘ مقتدرہ کے ساتھ میاں شہباز شریف کے معاملات اور دونوں بھائیوں میں اعتبار اور اعتماد کے تعلقات کی کہانی نے اندیشوں کی نئی فصل اگا دی ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں قریب تر سنائی دے رہی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ کورونا وبا کے سر اٹھاتے ہی شہباز شریف کی لندن سے (اچانک) واپسی حکومت (اور حکومتی پارٹی) پر خاصی گراں گزری تھی۔ ہمارے فواد چودھری‘ شہباز شریف کی واپسی کے اعلان کو سیاسی ڈرامہ بازی قرار دے رہے تھے کہ لندن سے پروازیں تو معطل ہو چکیں‘ شہباز شریف بھاگم بھاگ آخری پرواز پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو فواد چودھری نے انہیں دو ہفتے کیلئے قرنطینہ میں بیٹھنے کا مشورہ دے دیا۔