تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     21-04-2020

دنیابدل گئی‘ ہم کب بدلیں گے؟

چین میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں سامنے آئیں تو ہرکوئی تبصرے کررہاتھاکہ اب‘ چینی معیشت تباہ ہوجائے گی‘ یہ امریکہ کی چال ہوسکتی ہے‘ یہ پاک چین لازوال دوستی اورسی پیک کیخلاف عالمی سازش ہے‘ اب چائنہ دنیا میں تنہا رہ جائے گا‘ حلال وحرام میں عدم تفریق نے چائنیز کو اس وبا میں مبتلا کردیا‘ اب دنیا کے کونے کونے میں چینی مال شاپنگ مالز کی زینت نہیں رہے گا۔ دنیا کے سارے تبصرے و تجزئیے دوست ہمسایہ ملک تک محدود تھے‘ جیسے یہ وبا سرحد پار تو کرنہیں سکتی‘ چائنیز کے سوا کسی اورکو لاحق نہیں ہوسکتی‘ کوئی اس کو مذاق سمجھ کر قہقہے لگارہاتھاکہ یہ چائنیز وائرس ہے‘ جس کی کوئی گارنٹی نہیں اور اس کی عمر تھوڑی ہی ہوگی‘ پھر سارے مفروضے‘ تبصرے اورتجزئیے الٹ ہونے لگے۔ خبرآئی کہ بیرون ملک سے واپس آنے والے رونا وائرس سے متاثر ہیں اور ان کے ذریعے یہ وبا پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔ شروع میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحد عارضی طورپر بند کی گئی توپھر سننے میں آیاکہ یورپ اوردیگر ممالک سے واپس پہنچنے والے کئی ہم وطن بھی اس وائرس کے کیریئر کا سبب بن چکے ہیں‘ آہستہ آہستہ ایک سے دو‘ دو سے چار اورپھر قریباً ساری دنیا ہی عالمی وبا کی شکل میں اس وائرس کے سامنے بے بس دکھائی دینے لگی‘ لوگ چائنہ کو بھول گئے اورہر کسی کواپنی فکر لاحق ہونے لگی۔ عالمی ادارۂ صحت( ڈبلیو ایچ او) نے ہیلتھ ایڈوائزری جاری کردی‘ جس میں ہاتھ ملانے‘ گلے ملنے اور اجتماع سے سخت تلقین کی گئی‘ صابن سے ہاتھ بار بار دھونے کی تاکید اورصفائی وتنہائی کی ہدایت کی گئی‘یوں عالمی ادارۂ صحت کے کہنے پر سماجی اصلاحات میل جول سے دوری میں بدل گئیں ۔ 
چین نے تو حقیقی معنوں میں لاک ڈائون اورڈبلیوایچ او کی ہدایات پر سو فی صد عمل کرکے وبا کو بڑی حد تک روک لیا اوراپنی معیشت کو تباہی کے دہانے سے موڑ لیا ‘مگر باقی دنیا پرابھی تک معیشت کی تباہی وبربادی کے سائے منڈلا رہے ہیں‘ سی پیک کے مخالفین خود کورونا وائرس سے نمٹنے اورحفاظتی سامان کیلئے چینی منڈیوں کے خریدار بن کر قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں‘ چین کو دنیا میں تنہا سمجھنے والے خود قرنطینہ میں ہیں‘ کورونا کو چینی وائرس اوراس کی گارنٹی وعمر کامذاق اڑانے والے اب خود کو بے بس تصور کررہے ہیں اور اس وبا کے مستقبل بارے کچھ بھی سمجھنے یاکہنے سے قاصر ہیں‘ ہمارے ملک میں چینیوں کی بڑی تعداد میں آمدورفت کے باوجود یہ وائرس دیگر ممالک سے پاک سرزمین میں داخل ہوااورپھر کراچی سے خیبر اورکشمیر تک پھیلتا چلاگیا۔ متاثرین کی تعدادایک سے دو‘ دو سے چار اورپھر چار سے دس کے تناسب سے بڑھنے لگی ‘ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے لگیں ‘ ہمیں صفائی وتنہائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کا درس بھی دیاگیا اور ساتھ ہی اس مشکل گھڑی میں اپنے گردونواح میں موجود غریب‘ مستحق و سفید پوش طبقات کی مدد اورحقوق العباد کی تلقین بھی کی گئی‘ لیکن ہم نے پہلے کب ایک قوم کی طرح سوچا یا عمل کیا‘جو اس بار ایساکرتے۔ ہم چینیوں کو مذہب کے حوالے سے سب سے زیادہ بے نیاز سمجھتے ہیں‘ لیکن انہوں نے تو قیامت صغریٰ کی اس گھڑی میں اپنی غلطیوں اورگناہوں پر اللہ سے توبہ کی اورجن علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے‘ وہاں مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا اورقرآن پاک تقسیم کئے‘ چینی وزیراعظم ‘اللہ کے گھر(مسجد) گئے اور ڈبلیو ایچ او کی ہدایات پر سوفی صد عمل درآمد کے ساتھ اپنے مذہب‘ سوچ اورعقل کے مطابق توبہ واستغفار کرکے اس وبا پر کسی حد تک قابو پالیا۔ انہوں نے لاک ڈائون میں پھنسے لوگوں میں رنگ‘ نسل اورمذہب کی تفریق کئے بغیر ناصرف علاج ومعالجے کی سہولیات فراہم کیں‘ بلکہ ہر ایک کیلئے خوراک کابندوبست کیاگیا ‘لیکن افسوس کہ ہم خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھنے کے باوجود یہ سب کچھ نہ کرپائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی قوم جنگ‘ سیلاب‘ زلزلے اورکسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں پیچھے رہنے والی نہیں‘ 1947ء سے لے کر آج تک جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو پاکستانیوں نے دل کھول کر امداد دی اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیا ‘لیکن شاید مسئلہ سیاسی قیادت کاہے ‘جس نے قوم کی رہنمائی کرنی ہے‘ مشکل کی گھڑی میں قوم کومتحد کرکے لوگوں کی جان ومال کی حفاظت اورخوراک وادویات کابندوبست کرناہے ‘ سیاست کی بجائے قومی سلامتی کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہیں‘ لیکن خدا جانے وطن ِعزیز میں ایسی تبدیلی کب آئے گی‘ اس عالمی وبا نے پوری دنیا کی سوچ کو بدل دیا‘ لیکن معلوم نہیں ہم کب بدلیں گے؟ ہمارے سیاستدان قومی سلامتی کی خاطر کب متحد ہوں گے اور قوم کی صحیح رہنمائی کریں گے؟زلزلے اور سیلابوں کے بعد ہم نے دیکھا کہ کورونا وائرس بھی آیا تو پاکستانی قوم امداد کیلئے گھروں سے نکل آئی‘ لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں میں رقوم ‘ خوراک اورامدادی سامان کی تقسیم شروع کی تو افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس بار بھی جب غریب دیہاڑی دار مزدور کی امداد کی بات کی گئی تو حقیقی معنوں میں غریب‘ مستحق اورسفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تو اپنی عزت نفس اور دیگر سماجی مسائل کے سبب کم ہی سامنے آسکے‘ لیکن بھکاریوں کی بڑی تعداد (معمول سے کئی گنازیادہ)ٹوٹی پھوٹی گینتی اورزنگ آلود بیلچے پکڑ کر سڑک کنارے کھڑی ہوگئی اورجوبھی لوگ گھروں سے خوراک یادیگر امدادی سامان لے کر نکلتے وہ سب کچھ یہ بھکاری سمیٹ کر لے جاتے‘ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بھکاری دن میں دس دس آٹے کے تھیلے اوردیگر سامان جمع کرتے اور پھر آدھے نرخوں پر واپس مارکیٹ میں فروخت کردیتے‘ پھر مخیرحضرات کچھ مایوس ہوکر اورکچھ یہ سمجھ کر کہ انہوں نے اپنافرض پورا کردیاہے‘ گھروں میں بیٹھ گئے اور مستحق و سفید پوش طبقے کی بڑی تعداد آج بھی امداد سے محروم اورفاقہ کشی پر مجبور ہے۔ فلاحی ادارے بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اوروہ کسی حد تک منظم انداز میں لوگوں تک خوراک پہنچانے کابندوبست بھی کررہے ہیں‘ لیکن کوئی بھی تنظیم لامحدود وسائل نہیں رکھتی اور نہ ہی اس کے پاس سرکار جیسے اختیارات ہوتے ہیں‘ جن کی بدولت وہ ہر شہری تک پہنچ سکے‘ لہٰذا اصل ذمہ داری ہماری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے‘ جس میں حکومت اوراپوزیشن دونوں شامل ہیں‘ جنہیں الیکشن والے دن تو ہر ووٹر کی گلی‘ مکان نمبر حتیٰ کہ رابطہ نمبر بھی معلوم ہوتاہے ‘ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس گھر میں کتنے بالغ مرد‘ کتنی خواتین ‘ کتنے بزرگ اورکتنے بچے ہیں‘ انہیں ووٹر کی معاشی حالت کابھی پتہ ہوتاہے کہ اسے پولنگ بوتھ تک لانے کے لئے سواری بھی مہیا کرنی ہے‘ پولنگ سٹیشن کے باہر سائے کابندوبست بھی کرناہے ‘ پانی کی سبیل بھی ضروری ہے اور کھانا بھی کھلانا ہے ‘لیکن الیکشن کانتیجہ آنے کے بعد جیتنے یا ہارنے دونوں صورتوں میں یہ ڈیٹا کہیں گم ہوجاتاہے اور پھر مستحقین کی فہرستیں بننا شروع ہوجاتی ہیں ‘جن کی وجہ سے سفید پوش ہمیشہ محروم رہ جاتاہے۔ 
آپ کہیں گے کہ سوشل میڈیا پرحزب اقتدار واختلاف سے تعلق رکھنے سیاستدانوں کی جانب سے غریبوں میں آٹے کاتھیلا‘ گھی کاپیکٹ اور دال ونمک تقسیم کرنے کی اتنی تصاویر اورویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں کیاپھر بھی کوئی مستحق ابھی امداد سے محروم ہے؟ توجناب ! اپنے بچوں کی سالگرہ اورتعطیلات منانے پر لاکھوں وکروڑوں روپے خرچ کرنے والے ان سیاستدانوں کی اکثریت آٹے‘ گھی اوردالوں کے چند پیکٹ صرف ذاتی تشہیر کیلئے تقسیم کرتی ہے ‘ ان کی تشہیرکے خوف سے سفیدپوش اکثریت ذلت کی خوراک سے بھوکا مرنے کوترجیح دیتی ہے۔الغرض دنیا بد ل گئی‘ ہم کب بدلیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved