تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     22-04-2020

مدد آپ کی

خدانخواستہ کسی وجہ سے آپ کو سرکاری امداد کی ضرورت پڑ جائے تو ظاہر ہے کہ آپ درخواست لکھیں گے یا پھر موبائل فون سے مخصوص نمبر پر اپنے شناختی کارڈکی تفصیل بھیجیں گے۔ امداد کی اس درخواست کی قبولیت کیلئے ضروری ہے کہ احتیاط کی خاطر حکومت کی لگائے گئے فلٹرز سے بغیر کسی اعتراض کے گزر جائے۔ بصورت دیگر درخواست مسترد ہو جائے گی۔ اللہ نہ کرے کسی کو کبھی حکومت کے قائم کردہ بیت المال میں کسی ضرورت سے جانا پڑے کیونکہ وہاں بھی کئی قسم کے فارم بھر کر اور پھر ان کی تصدیق کراکے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ درخواست دہندہ کچھ نقد پانے کا حقدار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مخصوص قسم کا علاج کروانے کیلئے بھی حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے سوشل ویلفیئر کے دفاتر قائم کررکھے ہیں۔ ان دفاتر کا کام یہ ہے کہ اگر کوئی علاج کے پیسے نہیں دے سکتا تو وہ ایک فارم بھرے۔ اس کے بعد اس کے نصیب اور سوشل ویلفیئر کے محکمے کے اہلکار اچھے ہوئے تو کچھ کام بن سکتا ہے ورنہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرجانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ یوں بھی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری خزانے کے دروازے بند ہی رکھے جائیں اور اگر کھلیں تو پھر ہر کاغذ پورا ہو۔ اسی لیے سرکاری خزانے سے پیسے نکلوانا مشکل نہیں تقریباً ناممکن ہے لیکن کچھ صورتیں ایسی ہیں جو ایسی درخواستیں دینے کی نسبت بہت آسان اور سادہ ہیں۔ 
سرکار سے پیسے نکلوانے کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ آپ ٹھیکیداری شروع کردیں۔ اس کے لیے پیسے کی نہیں تعلقات کی یا تعلقات بنانے کے فن کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو یہ فن آتا ہے تو کسی بھی سرکاری دفتر میں گھس جائیں۔ پہلے پہل کوئی ہمدرد آپ کو کاغذ ،قلم، پینسل کی خریداری کا ٹھیکہ دے گا۔ اگر آپ نے اس ٹھیکے میں دفتر کے تمام متعلقہ شعبوں کو خوش رکھا تو آپ کی ترقی کا دور شروع ہوجائے گا۔ کچھ عرصے بعد آپ کو پتا چلے گا کہ سرکاری کاموں کے ٹینڈر کے اشتہارات میں جو لکھ رکھا ہوتا ہے کہ 'سربمہردستاویزات فلاں وقت کھولی جائیں گی‘ کا مطلب کیا ہے۔ آپ کو سربمہر بند لفافوں میں پڑی دستاویزات کے بارے میں پہلے سے ہی علم ہوگا۔ یہ بھی پتا ہوگا کہ ٹینڈر کی کم ازکم مالیت کس نے بھری ہے ۔ جب یہ ٹینڈر کھلے گا تو اس کے بعد کا ڈرامہ بھی سمجھ لیجیے۔ کم ترین قیمت پر کھلنے والے ٹینڈر کے مطابق کام شروع ہوگا اور اچانک قیمتیں بڑھ جانے یا کام کی نوعیت تبدیل ہوجانے کی وجہ سے اس میں دیے گئے کم ترین نرخوں پر نظر ثانی کی جائے گی اور قیمت کا فرق قانون کے عین مطابق آپ کو دے دیا جائے گا۔ اس کاروبار کو یوں سمجھیے کہ آپ نے ایک سو روپے فی لائٹ کے حساب سے نارووال میں سڑکوں پر لائٹیں لگانے کا ٹھیکہ لیا۔اب آپ کو کہا جاتا ہے کہ لائٹ لاہور کی فلاں دکان سے خریدی جائے۔ آپ حسبِ حکم اس دکان پر جاتے ہیں اور لائٹ کا ریٹ معلوم کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بازار سے پچاس روپے میں ملنے والی لائٹ یہاں سات سو روپے کی مل رہی ہے۔ آپ پریشان ہوکر دوبارہ سرکارسے بات کرتے ہیں تو وہاں سے کہا جاتا ہے کوئی بات نہیں آپ قیمتوں پر نظر ثانی کی درخواست بھیج دیں۔ آپ نہایت شرافت سے مطلوبہ درخواست دائر کرتے ہیں جس میں نئی قیمت ایک ہزار روپے لکھی جاتی۔ یہ درخواست فوری طور پر منظور ہوجاتی ہے۔ یوں ایک سو روپے کی لائٹ ایک ہزار روپے میں عوام کو ملتی ہے اور عوام کا خزانہ 'قانون کے عین مطابق‘ متعلقہ جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ دیکھا آپ نے کہ کتنی آسانی سے اور بغیر کسی بڑی محنت کے لاکھوں روپیہ' قانون کے عین مطابق‘ آپ نے کما لیا۔ 
ٹھیکیداری اگر آپ کے مزاج کے مطابق نہیں اور آپ ذرا نئی قسم کا کارپوریٹ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ دوسرا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ آپ ایک اچھی سی پریزینٹیشن بنائیں جس میں بتایا گیا ہو کہ آپ ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنا چاہتے ہیں بشرطیکہ سرکار آپ سے بجلی خریدے۔ سرکار آپ سے بجلی خریدنے کا فیصلہ فوری کرلے گی‘ اگر آپ نے سرکار کی ضروریات بروقت پوری کردیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیے کہ کس طرح آپ کی دی ہوئی تجویز دوڑتی ہوئی کابینہ کے ایجنڈے میں آئے گی، وہاں سے منظور ہوگی بلکہ آپ کو یہ ضمانت بھی مل جائے گی کہ آپ کو کاروباری طور پر جو بھی نقصان ہوا وہ حکومت بھرے گی۔ جب یہ کام ہوجائے توپھر آپ دکھانے کے لیے بجلی کا کوئی کارخانہ بھی لگا لیں ، یہ چلے نہ چلے بس یہ خیال رکھیں کہ اس کی مشینوں پر کپیسٹی وہی لکھی ہو جو آپ نے کاغذوں میں لکھ کر دی تھی کیونکہ اسی کپیسٹی کے حساب سے آپ کو پیسے ملنے ہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ بات بھی آپ کو مثال سے ہی سمجھانی پڑ ے گی۔ چلیے فرض کیا آپ کا پاورپلانٹ رائے ونڈ کے نزدیک لگا ہے۔ آپ کو انجن اورجنریٹر چاہیے۔ ظاہر ہے کہ نئی مشینیں خریدنے کے لیے کافی رقم چاہیے لیکن یہیں سے آپ کی فنکاری شروع ہوتی ہے۔ آپ کراچی کے قریب گڈانی جائیے جہاں پر پرانے بحری جہاز توڑے جاتے ہیں۔ وہاں پر موجود کوئی شخص آپ کو بتا دے گا کہ اس نے کباڑ میں ایک بحری جہاز خریدا ہے جو کسی دوسرے ملک میں کھڑا ہے۔ آپ اس سے انجنوں کا سودا کباڑ کے بھاؤ کریں۔چونکہ آپ یہ انجن بجلی پیدا کرنے کے لیے خریدیں گے اس لیے اس پر ڈیوٹی معاف ہوگی۔ آپ کباڑ بحری جہاز کے انجن اسی جہاز کے ذریعے ڈیوٹی فری امپورٹ کرلیں۔ اس طرح جہاز کے خریدار کو ڈیوٹی بچ جائے گی اور آپ کو انجن۔ یہی ناکارہ انجن آپ اپنی پاور کمپنی میں لگائیں اور عیاشی کریں۔ اس کباڑ کے تیل پانی کا خرچہ حکومت اٹھائے گی، اس کے اوپر لکھی ہوئی پیداواری صلاحیت کے مطابق آپ کو پیسے ملیں گے ، اس چکر میں اگر بجلی نہ بھی پیدا ہو تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اب تک آپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ پاکستان میں مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ 
مجھے لگتا ہے‘ آ پ ٹھیکیداری کرسکتے ہیں نہ پاور پلانٹ لگا سکتے ہیں۔ چلیے آپ کو ایک آسان کام بتا تا ہوں۔ آپ ٹیکسٹائل کا کام شروع کردیں۔ کام کریں نہ کریں بس شور مچاتے رہیں ۔ کبھی کبھارکرائے پر لائے گئے مظاہرین کے ذریعے فیصل آباد، لاہور یا کراچی میں حسبِ توفیق مظاہرے کروا دیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ آپ کو اربوں روپے کا پیکیج ملے گا ، جس میں رعایتی بجلی یا گیس بھی شامل ہوگی۔ یہ بجلی یا گیس کسی دوسرے کو بیچ دیں اور موج کریں۔ اگر کچھ ایکسپورٹ کرنے کو مل جائے تو پھر اس کا حساب کتاب یوں جوڑیں کہ حکومت آپ کو ٹیکس ریفنڈ کرے ۔ اس ریفنڈ سے آپ آسانی سے بڑی بڑی گاڑیاں خریدیں، بڑے بڑے گھر خریدیں ، عیاشی کریں اور مملکت خداداد کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگیں۔ اگر ٹیکسٹائل کا دھندہ بھی نہیں کرنا تو سرکاری زمینوں کا جوڑ توڑ کرلیں، کسی چھوٹے سے پلاٹ پر بڑا سا پلازہ بنا کر بیچ دیں۔ یہ بھی نہیں کرسکتے تو ٹال ٹیکس کا ٹھیکہ لے لیں‘ اور ہاں اس بات سے نہ گھبرائیں کہ آپ کی ''حق حلال‘‘ کی کمائی کے بارے میں ٹیکس والوں نے پوچھ لیا تو کیا ہوگا۔ جس رفتار سے ہماری حکومتیں ٹیکس ایمنیسٹی سکیمیں لا رہی ہیں ، جلد ہی ہر چور ، ڈاکو، اچکے، اٹھائی گیرے،جیب تراش اور مویشی چور کی آمدنی بھی قانونی ہوجائے گی۔ اور جس تیزی سے موجودہ حکومت نے ایمنیسٹی سکیمیں دی ہیں مجھے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے پر شرمندگی ہونے لگی ہے۔ بہرحال، تھوڑا صبر کرلیں ، نئی ایمنیسٹی سکیم تک کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ نہ بھی بنوایا تو کیا ہوجائے گا۔ اپنے ملک میں نقد خرچ کرکے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے تو کیا ضرورت ہے کارڈوں کے جھنجٹ کی۔ 
ایسے حالات میں جب کمانے اور دولت بنانے کے اور بھی راستے موجود ہیں‘ کون ہو گا جو درخواست دینے کا راستہ اختیار کرے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved