تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     22-04-2020

آئنہ ٹوٹ چکا ہو جیسے

دوست نے پوچھا: افسر سے بڑا کوئی عذاب ہوتا ہے؟ میں نے کہا: بالکل‘ سابقہ افسر۔ بولا: سول؟ میں نے کہا: میرے تو پر جلتے ہیں بات کرتے ہوئے۔‘ بہرحال یہ ہے کہ ان میں سے ایک مہلک تر ہے ۔یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ کون سا۔
کورونا کے دن ہیں۔ بات فون پر ہو رہی تھی اس لیے ایک دوسرے کے حلقۂ گزند سے باہر بھی تھے اور فارغ بھی۔ کہنے لگا: ویسے بڑے پڑھے لکھے بیوروکریٹ بھی تو ہیں۔ عرض کیا: جتنا پڑھا لکھا اتنا ہی کج مزاج‘ جتنا صاحب مطالعہ اتنا ہی بد فہم‘ جتنا اپنے لیے حساس اتنا ہی دوسروں کے لیے بد تمیز۔ بولا: یار زیادتی ہے کہ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہے ہو۔ عرض کیا: پیارے! میں کون سا اعلیٰ گریڈ کا ریٹائرڈ افسر ہوں کہ بیک جنبش زبان سب کی گردن اڑانے کا حکم صادر کر دوں۔ ظاہر ہے کہ ہر طبقے کی طرح ان میں بھی اچھے لوگ ہیں‘ اگرچہ میری مراد صرف انہی سے ہے جو تمہارے خیال میں بھی ہیں۔
ایک لمحہ خاموشی رہی پھر اس نے قہقہہ لگایا۔ مجھے بھی کچھ اچھے اچھے یاد آ رہے ہیں جو ان دنوں ہر شعبے میں اصلاح کر رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں۔ ویسے مجھے خیال آتا ہے کہ جب یہ ملازمت میں ہوتے ہیں۔ وسیع‘ عالی شان دفتروں میں فیصلے صادر کرنے کی لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات لے رہے ہوتے ہیں تو یہ دانائی، خلق کی پریشانی کا احساس، خدمت کا جذبہ، اصلاح کی تڑپ کہاں سوئی ہوتی ہے؟ میں نے کہا: یہ کون سی مشکل بات ہے‘ یہ سب احساسات درازوں میں مقفل ہوتے ہیں؟ ریٹائرمنٹ پر جب اپنا ذاتی سامان نکالا ہو گا تو یہ بھی ساتھ گھر چلے گئے ہوں گے۔
کہنے لگا: وہ یاد ہے یوسفی کا جملہ ''انہیں بیورو کریٹس کے بجائے بیورو کرپٹس کہنے میں مضائقہ نہیں‘‘۔ دونوں نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ میں نے کہا: اور وہ یاد ہے ابن انشا کا جملہ جو ریٹائرڈ کنندگان پر صادق آتا ہے ''میری اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو ہدایت ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلیں جس پر ہم خود بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہیں چل پائے تھے‘‘۔ فلک شگاف قہقہے سے فون گونجا۔ پھر وہ بولا: بھئی افسری میں تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے تو لگتا تھا کہ عید ہو گئی ہے۔ دو حرف نرم لہجے میں بول دیں تو سمجھو زندگی میں بہار ہی بہار ہے لیکن شاید یہ صرف ایک عام آدمی کے لیے ہوتا ہو گا‘ برابر کے اور نچلے افسروں سے تو خوش اخلاقی سے بات ہوتی ہو گی اور ان کی باریابی بھی ہو جاتی ہو گی۔ میں نے کہا کہ مزاج مزاج، بندے بندے کا فرق ہوتا ہے۔ خوش اخلاقی درجات اور عہدوں پر منحصر ہوتی ہے۔ افسرانہ شان نہ ہو تو افسری کیا بھاڑ جھونکنے کے لیے کرنی تھی؟ یاد رکھیے کچھ افسروں کی گردن کا سریا کبھی زنگ نہیں پکڑتا اور کچھ بیورو کریٹس کا کلف ساری عمر نہیں دھلتا۔ مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے جو ایسے ہی ایک بڑے افسر کے ماتحت نے، جو خود بڑا افسر تھا، مجھے سنایا تھا۔ میں خود بھی ان شاہ شاہان کو جانتا تھا اس لیے قصے کا لطف آیا۔ راوی بولا ''صاحب جب فلاں جگہ فلاں عہدے پر تعینات ہوئے تو ہم سب ماتحت ان سے ملاقات اور مصافحے کا شرف حاصل کرنے کے لیے لائن لگا کر حاضر ہوئے۔ باریابی ہوئی تو صاحب کرسی میں دھنسے ہوئے تھے‘ ہمیں دیکھ کر پوری کوشش سے کرسی میں مزید چند انچ دھنس گئے اور منہ نیچے کر لیا۔ پھر صاحب نے کہنی موڑ کر اپنے ہاتھ کا اوپری حصہ باہر نکالا، میز کی دوسری طرف سے اس ید طولیٰ کا صرف وہ حصہ چھوا جا سکتا تھا جو پوروں کے آخری حصے پر مشتمل تھا۔ ہم نے باری باری ان کے بے آب و گیاہ سر کی زیارت کی اور پوروں کو چھوا۔ اسے مصافحہ ہی سمجھا گیا حالانکہ اس لمس پر کسی بھی زبان کی لغت میں مصافحے کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ شرف بہرحال بڑا تھا کہ انہوں نے اس لمسِ مطمئنہ کی اجازت مرحمت فرمائی تھی لیکن اس ملاقات سے واضح ہو گیا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس جگہ سے ٹرانسفر کی سرتوڑ کوشش شروع کر دینی چاہیے‘‘۔ اب میں ان پیکر عجز کی تحریریں پڑھتا ہوں جو انکساری اور خوش اخلاقی کی تنبیہات پر مشتمل ہوتی ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میری کرسی جیسی بھی ہے میں اس میں مزید کچھ انچ دھنس جاؤں۔
دوست کہنے لگا: لیکن فلاں صاحب نے اپنے بارے میں بہت عاجزانہ متاثر کن باتیں کی تھیں۔ میں نے کہا کوئی تبصرہ نہیں لیکن پھر اپنا یہ شعر کہاں جا کر غرق کروں‘
سجی ہوئی ہے سروں پر کلاہِ عجز و نیاز
اور اس پہ طرّۂ جاہ و حشم لگا ہوا ہے 
قہقہوں کے بعد فون بند ہو گیا۔ اصولاً ہنسنا چاہیے تھا لیکن ہوا یہ کہ رونا آنے لگا۔ وہ خود نوشتیں، تحریریں، تقریریں، کالم، سٹیٹس فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جن میں ایک بہترین، سچا،خوش اخلاق، دیانتدار، محب وطن، شعبے کا ماہر، مراعات کا نافر، سرکاری خزانے کی حفاظت کرنے دور رس فیصلے کرنا والا افسراپنے بہترین زمانہ ملازمت میں اپنی زوردار کارکردگی بیان کرتا ہے اور اپنی رخصت کے بعد عہدے کے انحطاط پر کڑھتا ہے۔ کون سا شعبہ ہے جس میں نابغوں نے قابلیت کے دریا نہیں بہائے۔ گنتے جائیے، شعبوں کے زوال پر گریہ کرتے جائیے۔ ہم وطنوں کی خیر خواہی کا کیڑا بہت مشکل سے مرتا ہے۔ اسی نے صدر ایوب خان کو بے چین رکھا اور فرینڈز ناٹ ماسٹرز لکھوا کر دم لیا۔ اسی نے پرویز مشرف سے ان دی لائن آف فائر لکھوائی۔ یہ الگ بات کہ اس نے ان صدور سے لکھوائی اور صدور نے کسی اور سے۔
میں اعتراض کرنے والا کون؟ اتنے با کمالوں کے درمیان ایک ناقص کی کیا حیثیت لیکن یہ کسی طرح سمجھ نہیں آتا کہ اتنے نابغۂ روزگار افسروں، دیانت دار بیوروکریٹس کے ہوتے ہوئے یہ شعبے پاتال میں کیسے پہنچ گئے؟ مجھے ان کے کرسیوں میں دھنسنے پر حاشاوکلا کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ جب اتنا بڑا پہاڑ کرسی میں دھنسا ہوا تھا تو ملک ناک کے بل نیچے کیسے آتا رہا؟ یہ ریاست اتنے لا تعداد بزرجمہروں کی موجودگی میں دنیا کے سب سے خراب حالات کا شکار کیوں ہے؟ میں ان کی طرح پڑھا لکھا نہ سہی۔ سرکاری ملازمت سے دور کا واسطہ بھی نہ سہی لیکن عوام کالانعام میں سے ایک کو کم از کم یہ سمجھنے کا حق تو ہے۔
اچھا چلیے دوران ملازمت جو بھی کارکردگی تھی آپ نے لاکھوں تنخواہ، بڑا سرکاری بنگلہ، سلطنت کے بے شمار نوکر چاکر، دو دو سرکاری پلاٹ، پُر تعیش بیرونی سفر، خطیر پنشن، سب کچھ حاصل کر لیا اور یہ توجیہہ بھی بجا کہ آپ کو ان سب کا استحقاق تھا۔ مان لیا کہ ریٹائرمنٹ کے وقت توسیع کی جو سرتوڑ کوشش کی، آپ کا حق تھا۔ پھر چونکہ آپ ملک کی اشد ضرورت تھے اس لیے دیگر ممکنہ کشش انگیز ملازمتوں کے لیے سفارشیں لڑوائیں۔ کبھی کامیاب ہوئے، کبھی ناکام۔ ناکامی پر کام نہ کرنے والے مجاز شخص کو گالیاں دیں اور مجبوری میں پنشن پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے۔ تقریریں شروع کیں، کالم لکھے، ٹی وی ٹاک شوز میں ماہرانہ تبصرے کرنے شروع کیے جنہیں ماہرانہ کہنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ جارحانہ لب و لہجہ سودا بیچنے کی ضرورت تھی لیکن ہر جگہ جارحانہ پن کیسے ہو؟ رد عمل بھی تو ظاہر ہوتا ہے۔ بیورو کریٹس؟ اف‘ ہرگز نہیں۔ ادیب، شاعر؟۔ خبردار۔ سب کے ہاتھ میں قلم ہے۔ صحافی، کالم نگار؟ گلا نہیں گھونٹ دیں گے؟ ہاں مذہب اور اہل مذہب مناسب ہے۔ اس میں بھی وہ طبقہ جس سے خطرہ کم ہو۔ سودا بکتا بھی ہے اور نقصان کا اندیشہ بھی نہیں۔
وقت بہت تھا۔ محدب عدسہ لے کر بیٹھ گئے۔ زہر وافر تھا سو کسی ملک کی چھوٹی سی جھوٹی خبر ملی اور آپ بپھرے۔ علما کو بے نقط سنائیں۔ نام لے لے کر اور اس تمیز اور آداب سے باہر نکل کر جن کے لیے اپنے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ یہ سب کیا لیکن جس شعبے میں پچاس سال بھاڑ جھونکا۔ اس کے متعلق کوئی تجویز، کوئی مضمون، کوئی کتاب نہیں لکھی؟ کیوں؟ کس بات کا خوف ہے؟ کیا ان ساتھی بیوروکریٹس کا جو حضور کا کچا چٹھا جانتے ہیں یا ان ماہرین کا جو ایک نظر میں سمجھ جائیں گے کہ یہ ان مناصب کے لیے نااہل تھے؟ 
کیا تماشا ہے کہ اپنے اوپر فریفتہ لوگوں نے گھر میں آئینے بھی لگوائے ہوئے ہیں اور دیواریں بھی شیشوں کی بنوائی ہوئی ہیں۔
یہ خود اپنے ہی پہ مر مٹ خلقت
آئنہ ٹوٹ چکا ہو جیسے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved