تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     22-04-2020

کورونا وبا اور عالمی نظام کی گونج

جب سے اس دنیا میں انسان کے شعور نے آنکھ کھولی‘اُسی دن سے بقاء کے تقاضوں نے اسے خوف کا رفیق بنا دیا۔خوف کی اسی جبلت نے جہاں انسان کو مہلک بیماریوں کے علاج اورعظیم الشان دفاعی تمدن کی تشکیل کی طرف مائل کیا‘ وہاں یہی ڈر تباہ کن ہتھیار بنانے کا وسیلہ بھی بنا اور اسی خوف نے مابعد الطبیعات کی ایسی حیرت انگیز دنیا آباد کر لی‘ جس میں آفات سماوی سے سہمے ہوئے انسانوں نے شعلہ فگن آگ‘پرشور دریاؤں‘خوفناک سانپوں‘خونخوارشیروں اورقوی ہیکل ہاتھیوں کو دیوتا سمجھ کے ان کی پرستش شروع کر دی‘ تاہم اجتماعی سفر حیات میں بالآخر انسانی معاشروں نے اس عظیم کائنات کے خالق حقیقی کو پہچان کر موت کی حقیقت‘اس فانی دنیا کی عارضی آسائشوں کی دلکشی اور وقتی دکھوں کے خوف سے نجات حاصل کر کے عزیمت کی راہ پا لی۔یہی وہ مرحلہ تھا‘ جب نسل ِآدم نے اس کرۂ ارض کے ماحول پہ تصرف پانے کی ابتداء کی‘لیکن آج کے ڈیجیٹل تمدن میں جدیدٹیکنالوجی سے مزین طاقتور ریاستیں خوف کے اسی ہتھیار کو بروئے کار لاکر انسان کی اجتماعی زندگی کو فطری ارتقاء سے جدا کر کے حسب ِمنشا ء ڈھالنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں‘جس نے اسے حقیقت ِابدی کے قریب کیا تھا۔
کورونا وبا کا خوف بڑھانے کی عالمی میڈیا مہم اسی رجحان کا پیش خیمہ ہے؛بلاشبہ عہد جدید کی متمدن قومیں بھی اپنی فلاح کی بنیادکمزور قوموں کی تباہی کے اسباب پہ رکھتی ہیں۔ان کی سائنسی ترقی کا محور پوری انسانیت کی فلاح نہیں‘ بلکہ اپنے لئے ایسی طاقت کا حصول ہے‘ جس سے وہ دنیائے عالم کے وسائل پہ تصرف پا کر تہذیبی بالادستی حاصل کر لیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے انسانی معاشروں کی بقاء کی خاطر اتنی ادویات نہیں بنائیں‘ جتنے کرۂ ارض کو تباہ کرنے والے مہلک ہتھیار تیار کئے؛حتیٰ کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث میڈیسن‘ خوراک اور جن دیگر مفید اشیاء کی مقدار بڑھی‘ ان سے بھی انسانوں کو بلاتفریق فائدہ اٹھانے کا موقعہ دینے کی بجائے‘ انسانی احتیاج کا استحصال کر کے کمزور معاشروں کا حق حاکمیت غصب کر لیا۔دنیا کی رہنمائی کی دعویدار عالمی طاقتیں ‘زندگی بچانے والے ہیلتھ ٹیکنالوجی کی فراہمی کے عوض پسماندہ مملکتوں سے ایسی غیرمنصفانہ شرائط منوانے میں شرم محسوس نہیں کرتیں‘جو اُن اقوام کی فطری آزادیاں چھیننے کا سبب بنتی ہیں۔اس لیے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ کورونا وائرس بیالوجیکل ہتھیار ہو اوراسی کورونا وبا کے وجود سے کسی نئے عالمی نظام کا قیام مقصود ہو ۔ابھی حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم افغانستان کی بے معنی جنگ کو طول نہیں دینا چاہتے ‘بلکہ جنگیں اب صرف تجارتی مقاصد کے تحت پلان کی جائیں گی۔بظاہر ان کا اشارہ چین کے ساتھ اکنامک وار کی طرف تھا‘ لیکن جنگووں کے علاوہ عالمی تعلقات کی تشکیل میں بھی یہی اصول پیش نظر رہتا ہو گا کہ جنگ یا تعلقات کا اصل بینیفشری کون ہو گا؟چنانچہ لامحالہ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کورونا وبا کے خوف کا مین بینیفشری کون ہے؟ بادی النظری میں کورونا وبا کی پہلی لہر نے چین اور ایران کی معشت کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچایا‘جس کا براہِ راست فائدہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پہنچا۔چین اور ایران میں چونکہ اتھارٹیرین رجیم بیٹھی تھیں ‘اس لئے وہاں کی مضبوط ریاستیں یہ جھٹکا سہہ گئیں۔دوسرے مڈل ایسٹ میں عالمی طاقتوں کے انسانیت سوزجرائم کو وبا کے خوف کا نقاب ابہام پہنا دیاگیا۔اب‘ مستقبل قریب میں مڈل ایسٹ میں رونما ہونے والے جغرافیائی تبدیلیوں کے عواقب اسی وبائی طوفان کی گرد میں چھپ جائیں گے۔
کورونا وبا نے دنیا کی قریباً 200 مملکتوں کو لاک ڈاون کی لپیٹ میں لیکر مڈل ایسٹ کے تیل کی مارکیٹ کریش کر ڈالی۔اس وقت عالمی منڈی میں تیل کا کوئی نرخ نہیں رہا۔مغربی دنیا کے سفاک سرمایہ دار‘ انہی دو چار ماہ میں کروڑوں بیرل سستا تیل ذخیرہ کرلیں گے‘جب مارکیٹ اوپن ہو گی تو مہنگے داموں فروخت کر کے اربوں ڈالرز کما لیں گے۔وبائی خوف پھیلانے کی پلاننگ پوری منصوبہ بندی سے گئی‘جن مملکت نے لاک ڈاؤن کی سکیم میں شامل ہونے سے انکار کیا‘کورونا مرض کو جواز بنا کے پہلے مرحلہ میں ان پر نقل و حمل اور اقتصادی پابندیاں عائد کی جانی تھیں۔بعدازاں اسے عالمی برادری سے کاٹ دیا جاتا‘بالکل ایسے جیسے دو چار سال قبل پولیو کو جواز بنا کے پی آئی اے کی بین الاقوامی فلائٹس پہ پابندیاں لگائی گئیں۔ایران نے بھی شاید عالمی تنہائی سے نکلنے کی خاطر کورونا وبا کی مبینہ سکیم کو قبول کیا ہو ۔عالمی طاقتیں اس سے قبل بھی جنگ دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی خاطر انتھراکس کیمیکل ہتھیارکے خوف کی تشہیر کرتی رہیں‘جس کی حقیقت کا علم آج تک کسی کو نہیں ہو سکا۔کورونا وبا کے ذریعے لاکھوں مبینہ اموات کی خبروں کے ذریعے خوف کی جو لہر پیدا کی گئی ‘ہولوکاسٹ کی طرح اس کے مقاصد کی تفہیم کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی‘اس میں کوئی شک نہیں۔ہٹلر سمیت پوری جرمن قوم پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست کا ذمہ دار مقامی یہودیوں کو سمجھتی تھی‘ لیکن اتنی بڑی تعداد میں وہاں یہودیوں کا قتل عام نہیں ہوا‘ اگر اس میں دس فیصد بھی حقیقت ہوتی تو ہولوکاسٹ پہ تحقیق یا کھلی بحث پہ پابندی عائد نہ کی جاتی‘ تاہم بیسویں صدی میں یہی ہولوکاسٹ تہذیبی‘سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا بنیادی محرک بنا‘اسی طرح کورونا وبا‘جس کی اصل حقیقت کو جانچنے کی کسی کو اجازت نہیں‘مغربی افکار سے مزین نئے عالمی نظام کی اساس بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ نیا عالمی نظام کورونا وبا کے خوف سے نمودار ہو گا۔مغربی طاقتیں انسانیت کے خلاف ہر جرم کو میڈیا وار کے ذریعے کور کرلیتی ہیں‘ اس وقت پوری دنیا کا میڈیا کورونا وبا کے خوف کو لوگوں کے دل و داغ میں راسخ کرنے کی مہم سر کر چکا ہے۔کورونا وبا کے خوف سے عالمی طاقتوں نے ایک طرف تیل کی مارکیٹ کو بربادکر کے اپنے لئے بھاری منافع کی راہ ہموار کی اور دوسرے طرف مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے طاقتور ڈھانچہ کومنہدم کرکے اسلام کا طلسم توڑ ڈالا۔اب‘ حریت پسند مسلمان آزادی سے خوفزدہ ہیں‘ مسلمانوں کو مساجد میں باجماعت نمازیں اور دیگر مذہبی اجتماعات کو خوف کی لہروں میں تحلیل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ مناسک حج و زیارت‘عیدین اورنماز جمعہ جیسی اجتماعی عبادات کے بغیر بھی زندگی گزارسکتے ہیں؛ حالانکہ مسلمان اپنی مقدس عبادتگاہوں میں اجتماعی عبادات کے بغیر مذہبی شعور کو زندہ نہیں رکھ پائیں گے‘گویا قرآنی فلسفہ حیات کے برعکس مسلمانوں کو یہ باور کرایا جائے گا کہ دین ہر کسی کا انفرادی مسئلہ ہے اور اس کا انسانوں کے نظم اجتماعی سے کوئی تعلق نہیں۔
اب‘ ہمیں اپنی تہذیب سے کاٹ کے ایثار‘رواداری‘عفو و درگزر‘سخاوت اور شجاعت جیسی سنہری روایات سے بیگانہ بناکر خود غرضی پہ مبنی پرہجوم تنہائی میں جینے کا خوگر بنایا جائے گا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے علما کرام حج و عمرہ سے پرہیز کی اپیلیں کر رہے ہیں‘مساجد کے لاوڈ سپیکرز سے باجماعت کی بجائے گھروں میں نماز ادا کرنے کے اعلانات سنائی دیتے ہیں۔ملنے ملانے کے آداب بدل رہے ہیں‘یعنی سیاست کو دین اور تہذیب کو مذہبی اقدار سے جدا کرنے کا مرحلہ آن پہنچا۔
حیرت انگیز طور پہ اس سال جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی خانقاہ بلوٹ شریف کا عرس اور میلہ بہاراں جس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے تھے‘ منسوخ کر دیا گیا‘اسی طرح سندھ میں شہباز قلندر کا عرس‘ جس میں لاکھوں عقیدت مندوں کی شرکت وہاں بڑی معاشی سرگرمی کا محرک اور تہذیبی نموکا وسیلہ بنتی تھی‘مفقود ہو گئی‘اسی طرح عراق میں کربلائے معلی ‘نجف ِاشرف اور ایرانی شہر مشہد میں امام رضا کی پرُشکوہ خانقاہیں ‘ان دنوں ویران ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved