تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-04-2020

انسان کی سائنسی ترقی اور مذہب

شکاری کتوں اور ان جانوروں کے بارے میں‘ انسان جن سے مدد لیتاہے‘ قرآن یہ کہتا ہے: تعلمونھن مما علمکم اللہ۔''تم انہیں اس میں سے کچھ سکھاتے ہو‘ جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے‘‘(المائدہ‘4) ۔آدمی ہو یا جانور‘ جو کچھ وہ سیکھتا ہے‘اس دوران اس کے جسم میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ تیراکی سیکھنے سے پہلے اور بعد میں جسم وہی ہوتا ہے‘ بدلتا دماغ ہے۔ ہر نئی مہارت کے دوران دماغ کے خلیات آپس میں نت نئے روابط (Connections) بنا رہے ہوتے ہیں۔ وہ نئی ترتیب میں جڑتے ہیں۔آپ قتل وغارت سیکھیں یا جہاز اڑا نا‘ بنیادی طور پر یہ تبدیلی دما غ میں رونما ہو رہی ہوتی ہے۔جب آدم علیہ السلام کو اللہ اسماء کا علم دے رہا تھا تو ہومو سیپنز کے دماغ میں اتنے نیورونز پیدا ہو رہے تھے اور ان کے درمیان اتنے کنیکشنز پیدا ہو رہے تھے کہ جو کائنات کی تاریخ میں کسی سپیشیز میں نہیں ہوئے تھے ۔ آج بھی دنیا میں 87لاکھ قسم کی مخلوقات(سپیشیز) پائی جاتی ہیں ‘لیکن ان میں سے کسی کے دماغ میں اتنے نیورونز(دماغی /عصبی خلیات) اور ان نیورونز کے درمیان اتنے کنکشنز نہیں ہیں ‘ جتنے کہ انسان میں ۔ آپ ان 87لاکھ سپیشیز میں سے جس مرضی کادماغ کھول کر دیکھ لیں ۔ 
انسان کے دماغ پر علم نازل ہوتا ہے ۔رزق تو سب پر نازل ہوتا ہے‘ لیکن علم کسی کسی پر ۔ جیسے خوابوں کی تعبیر کا علم ہے ۔ پہلے تو یہ بات ہی بڑی عجیب ہے کہ انسان سویا ہوا کچھ مناظر دیکھ اور آوازیں سن رہا ہے ‘ پھر زیادہ تر خواب نفسیات سے جنم لیتے ہیں ۔ انسان کے خوف ‘ بچپن ‘ وغیرہ وغیرہ ‘لیکن انہی خوابوں میں کہیں کوئی ایک علامت نظر آتی ہے اور خوابوں کی تعبیر کا علم رکھنے والے اسے ایسے پہچانتے ہیں ‘جیسے ایک شخص اپنی اولاد کو پہچانتا ہے‘ جب وہ اس کی تعبیر بیان کر دیتاہے تو وہ پتھر پہ لکیر کی طرح پوری ہو کر رہتی ہے ۔
پھر دنیاوی علوم ہیں ۔ جب ایک انسان سائنسز سیکھ جاتاہے تو وہ دوسروں کو شکست دے سکتاہے ۔ بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مذہب کو سائنس سے الگ رکھنا چاہیے۔ بنیادی طور پر مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں‘ لہٰذا ان میں تصادم کی نوبت بھی نہیں آنی چاہیے۔جن کائناتی اصولوں کو انسان سمجھتا چلا جاتاہے‘ انہیں وہ سائنس میں شامل کر دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سائنس اس طریقِ کارکا نام ہے‘ جس میں یہ دنیا بنی ہے اور ان اصولوں کا‘ جن کی بنیاد پر یہ کائنات چل رہی ہے ‘ مثلاً ؛کششِ ثقل‘ زمین کا ہمیں اپنی طرف کھینچنا‘ دو سیاروں‘ دو زمینوں‘ دو سورجوں اور دو کہکشائوں کا ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنا ایک کائناتی حقیقت ہے۔ انسان کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے کششِ ثقل کے اصول سیکھے۔ اس نے کششِ ثقل کی سائنس سیکھی۔ اس کے مقابلے میں مذہب کا دائرۂ کار یکسر مختلف ہے۔ مذہب نام ہے خدا کے وجود پر یقین (ایمان) کا اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر زندگی گزارنے کا۔ یہاں ہم ایک بات بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ کہ مذہب اور سائنس کا دائرۂ کار مختلف سہی‘ ان دونوں کا مآخذ ایک ہے؛ دونوں کی ابتداء خدا ہے۔
خدا ہی نے کششِ ثقل اور دوسرے قوانین کے ذریعے یہ دنیا بنائی اور خدا ہی اپنے بندوں سے خود پر ایمان لانے (یعنی مذہب پہ چلنے )کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چلئے میں کہہ دیتا ہوں کہ مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں‘ لیکن خدا اپنی مرضی کا مالک ہے۔ وہ سائنسی حقیقت بیان کرنا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ اسے روک سکے۔ خدا کہتا ہے: ''کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے‘ ہم نے انہیں جدا کر دیا‘‘۔( الانبیاء 30)۔ خدا کا انکار کرنے والے بخوبی دیکھ چکے ہیں کہ زمین اور آسمان اکھٹے تھے اور انہیں ایک دھماکے سے جدا کیا گیا۔ انہوں نے اسے نام ہی ایک عظیم دھماکے‘ یعنی بگ بینگ کا دیا ہے۔
یہاں ایک اصول واضح ہوا۔ قرآن سائنس کی کتاب ہرگز نہیں‘ لیکن یہ خدا کا کلام ہے۔ یہ خالق کا اپنی سب سے ذہین مخلوق سے خطاب ہے۔ یہ تخلیق کی کتاب ہے۔ جب کبھی خدا چاہے گا‘ وہ سائنس پر رائے دے گا اور یہ رائے حتمی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ خدا ہر سائنسی موضوع پر لازماًکلام کرے ‘لیکن یہاں اس آیت میں اس نے کائنات کی ابتد ا کے بارے میں بات کی ہے۔ کسی بھی سائنس پر جب وہ بات کرے گا‘ تو اس کی بات حتمی ہوگی۔ اسی نے یہ تصور دیا کہ اختتام پر سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے( و جُمِع الشمس و القمر)۔ آج یہ بات ایک ماہرِ فلکیات ہی جانتا ہے کہ ہر سورج یا ستارہ اپنے اختتام پر پھٹ کر پھیل جاتا ہے ۔ اپنے قریبی سیارے اور چاند وہ نگل لیتا ہے۔اس کے بعد پھر وہ سکڑنا شروع کر دیتاہے اور انتہائی حد تک سکڑ جاتا ہے ۔ ہمارے سورج کے بارے میں بھی پیش گوئی یہی ہے کہ آخری وقت میں یہ پہلے دو تین سیارے ‘یعنی عطارد‘ زہرہ‘ زمین کا چاند اور ممکنہ طور پر زمین کو بھی ہضم کر جائے گا۔ 
ساتویں صدی عیسوی میں آغازِ کائنا ت اور اس کے اختتام کے بارے میں آیات نازل ہوئیں۔ تب تک ارسطو اور بطلیموس کے کائناتی ماڈل درست سمجھے جاتے تھے۔ ٹھیک ایک ہزار سال بعد‘ سترہویں صدی عیسویں میں ماہرِ فلکیات گیلیلیو کو یہ سچ ظاہر کرنے کی پاداش میں چرچ نے نظر بندی کی موت مار دیا کہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہرگز نہیں۔ یہ صرف پانچ سو سال پہلے کا قصہ ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ جس عظیم دھماکے کا ذکر ہے‘ 1927ء میں پہلی بار فرانسیسی فلکیات دان Georges Lemaitre نے اس کا اندازہ لگایا تھا۔ 1929ء میں ایڈون ہبل نے دیکھا کہ کہکشائیں واقعتاً ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی تھیں۔ 1965ء میں پہلی بار اس عظیم دھماکے کی باقیات کا براہِ راست مشاہدہ کیا جا سکا‘ جو کہ اس کا ایک حتمی ثبوت تھا۔ چودہ سوسال پہلے نازل ہونے والی یہ آیت ہم بیسویں صدی کے لوگوں کے لیے نازل کی گئی تھی ۔ 
آپ قرآن اور حدیث اٹھا کر دیکھ لیں ۔ قدرت آپ کو کہیں سائنسز سے خوفزدہ نظر نہیں آئے گی‘ کیونکہ سارے علوم کا مآخذ وہی ہے۔ خدا نے ہائیڈروجن بنائی اور اس سے 91 بھاری عناصر بنائے‘ انہی عناصر سے اس نے انسان بنایا‘ کائنات بنائی‘ پہاڑ اور درخت بنائے۔ انسان کو امانت ِ عقل کی پیشکش کی اور اسے دوسروں سے ممتاز کیا۔ آج‘ اگر میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ سائنسی ترقی خدا کا کہا ہوا کوئی لفظ غلط ثابت کر دے گی تو یہ میرے اندر کا خوف ہے۔ انسانی کاسۂ سر میں عقل رکھنے والا بخوبی جانتا تھا کہ اس کی دی ہوئی Artificial Intelligenceکو آدمی کہاں کس حد تک استعمال کرسکتاہے؟ وہ کہتا ہے کہ اس کے بندے زمین و آسمان پہ غور کرتے ہیں۔ (ویتفکرون فی خلق السمٰوٰت و الارض)۔اس کے بندے کائنات پہ انسانی غور و فکر‘ فلکیات میں کسی نئی دریافت سے خوف زدہ نہیں ہوتے کہ اُس کے خالق کا فرمان ہے: ''عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے‘ آفاق میں بھی اور خود ان کے اپنے اندر بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (خدا ہی) حق ہے‘‘ (فصلت‘53)۔
بھلا جس نے پہلا زندہ خلیہ بنایا ہو‘ اس کے اندر ذہانت کے ڈی این اے اور جینز رکھے ہوں‘ اس نے انسان کی سائنسی ترقی سے کیوں خوفزدہ ہونا ؟لہٰذا اپنے اندر سے یہ خوف نکال دیجیے کہ کسی انسانی دریافت سے خدا کا کہا غلط ہو جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved