زندگی کو کسی زاویئے سے دیکھیں یا کسی سانچے میں دیکھیں‘ ہر صورت میں ایک چیز آپ کو مشترک نظر آئے گی کہ زندگی ثابت نہیں سیّار ہے اور جامد نہیں سیّال ہے۔ دیکھئے اسی حقیقت کو شاعر نے کس چابکدستی سے بیان کیا ہے۔ ع
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
انقلاب کا مطلب ہی تبدیلی ہے۔ ہر لحظہ بدلتی، حال سے مستقبل کی طرف لپکتی، اور آگے بڑھتی زندگی کے بارے میں مشہور شاعر یاس یگانہ چنگیزی کیا کہتے ہیں ؎
رفتارِ زندگی میں سکوں آئے کیا مجال
طوفاں ٹھہر بھی جائے تو دریا بہا کرے
اپنی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو بدلتے مناظر کی ایک فلم ہے، جو چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکپن، اوائل جوانی اور پھر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے شب و روز۔ نیو کیمپس پاکستان کی خوب صورت ترین دانش گاہ ہے۔ شعرا کو تو گلہ تھا کہ ان کے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں مگر نیو کیمپس کے راستے میں دو رویہ کہکشاں ہے جو اس وقت بہت حسین معلوم ہوتی تھی۔ الف لیلوی ماحول سے نکلے‘ سی ایس ایس میں پاس ہوئے مگر ملازمت حسبِ منشا نہ ملی تو سعودی وزارت تعلیم میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ وہاں روحانی فیوض و برکات کی بہت بڑی سعادت حاصل ہوئی؛ تاہم دل پاکستان میں لگا رہا۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ایک دل چسپ بات آپ کو بتا دوں‘ سمندر پارپاکستانی دور جا کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں زیادہ دل چسپی لینے لگتے ہیں۔ سعودی عرب کے قیام کے دوران یورپ و امریکہ بالخصوص وہاں کی تعلیم گاہوں میں آنے جانے اور اُن کی ہمہ جہت ترقی کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملنے لگے۔ سعودی عرب میں قانون کی پابندی اور امن و امان کو دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔ اسی طرح یورپ بالخصوص انگلستان میں قانون کی پابندی مثالی تھی۔ البتہ فرق یہ تھا کہ سعودی عرب میں قانون کی پابندی ڈنڈے کے خوف سے کی جاتی تھی مگر انگلستان میں یہ پابندی قانون پسندی اور خوشدلی سے کی جاتی تھی اور یقینا آج بھی ایسا ہی ہوگا۔
اس دوران پاکستان بھی آنا جانا رہتا۔ صرف ایک منظر کا ذکر کرتا ہوں۔ جدہ، ریاض، ہیتھرو ایئرپورٹ لندن اور نیویارک ایئر پورٹ پر امیگریشن والوں کے سامنے کھڑے ہوتے تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے اُن کے سروں پر پر ندے بیٹھے ہوں۔ مجال ہے کوئی مسافر کسی طرح کی بے صبری، بے چینی اور بد نظمی سے کام لے۔ ہر کوئی اپنی باری آنے پر کائونٹر پر آ کر کھڑا ہوتا مگر یہی منظم، انتہائی قانون پسند اور انتہائی مہذب مسافر کراچی یا لاہور ایئر پورٹ پر آ کر بدنظمی کا شاہکار بن جاتے۔ ایئر پورٹ سے باہر یہی حال پاکستانی عوام کا بھی دیکھنے میں آتا۔ جہاں تک سنگ و خشت کا تعلق ہے تو ہر بار پاکستان آنے پر بڑی بڑی تبدیلیاں دکھائی دیتیں۔ کبھی موٹروے، کبھی آسمان سے باتیں کرتی عمارات۔ غرضیکہ ہر شے میں تغیّر ہی تغیّر نظر آتا، مگر جہاں تک حکمرانوں اور لوگوں کے رویّے کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نظر نہ آتی۔ جب میں نے اس معاملے پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ لوگوں کے رویے تو حکمرانوں کے رویے کا ہو بہو عکس ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر شے کے بدلنے کے باوجود حکمرانوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ قیام پاکستان کے تقریباً فوراً بعد ہی حکمرانوں نے من مانی شروع کر دی تھی۔ حکمران چاہے سویلین تھے یا فوجی سب کا مزاج آمرانہ تھا۔ جو چیز ان کی آنکھوں میں سب سے زیادہ کھٹکتی تھی وہ میڈیا کی آزادی تھی۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں تو فقط اخبارات تھے۔ جہاں تک ریڈیو کا تعلق ہے تو وہ صرف ریڈیو پاکستان تھا۔ 1958ء کے مارشل لاء سے پہلے مسلم لیگی وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد دولتانہ نے اس زمانے کے ایک بڑے اخبار نوائے وقت کی اشاعت پر پابندی لگا دی تا کہ حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹیں ملتی رہیں اور کوئی انہیں یہ بتانے والا نہ ہو کہ بہت کچھ اچھا نہیں ہے۔ اسی زمانے میں انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی حکومتی خواہش کو جھرلو کا نام دیا گیا۔
1958ء میں جنرل ایوب خان مارشل لاء لگا کر برسر اقتدار آئے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو تا ابد دوام بخشنے کی دُھن میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس جاری کیا اور اخبارات پر شدید پابندیاں عائد کیں۔ ایوب خان نے پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے نام پر قومی تحویل میں لے لیا۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان کا مختصر دور رہا جو پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بنا۔ ان کے بعد مغربی پاکستان کہ جو اب کل پاکستان تھا کے اقتدار پر ذوالفقار علی بھٹو جلوہ افروز ہوئے۔ اگرچہ بھٹو کے اقتدار کا آغاز تو مارشل لاء سے ہوا، مگر وہ اس سے پہلے ایک انتہائی مقبول عوامی انتخابی مہم چلا کر مغربی پاکستان کی اکثر سیٹوں پر کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ نیز وہ جمہوریت کی بالادستی کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک چلا چکے تھے۔ اس لیے امید کی جا رہی تھی کہ وہ سابق فوجی حکمران ایوب خان کے آمرانہ رویے کے برعکس خالصتاً جمہوری حکمران کے روپ میں عوام کے سامنے آئیں گے مگر بھٹو صاحب خود پسندی اور آمرانہ رویے میں ایوب خان سے بھی دو قدم آگے تھے۔ انہوں نے صحافتی اور سیاسی شخصیات کو پسِ دیوار زنداں بھیجا۔ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف بھی میڈیا سے ناخوش تھے۔ دونوں نے سابق حکمرانوں کے رویے کے مطابق میڈیا کے پر کاٹنے کی کوشش کی۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا تعلق ہے تو انہوں نے ابتدائے اقتدار میں تو الیکٹرانک میڈیا کی بہت حوصلہ افزائی کی مگر آخر میں آ کر انہیں بھی میڈیا کی تنقید بہت ناگوار گزری اور انہوں نے بھی کئی چینلوں پر پابندی لگا دی۔
موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان نے بیس بائیس برس تک بھرپور رابطہ عوام مہم چلائی، وہ میڈیا کے لیے سب سے زیادہ محبوب و مرغوب شخصیت تھے۔ وہ اخبارات کے صفحات پر جگمگاتے اور گھنٹوں ٹیلی وژن چینلوں پر آزادانہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ وہ سابقہ حکمرانوں کے آمرانہ رویوں کو شدید نشانۂ تنقید بناتے اور صبح نو کی نوید سناتے۔ جس طرح امریکہ میں باراک اوباما کی پہلی انتخابی مہم کا سلوگن تبدیلی تھا اسی طرح 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کا نعرہ بھی تبدیلی تھا۔ جناب عمران خان نے گورننس، انصاف، تعلیم، صحت اور شہری آزادیوں میں انقلابی تبدیلی لانے کے سہانے سپنے دکھائے۔ جناب کپتان آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ لوگوں کو بار بار یاد دلاتے آئے ہیں کہ وہ انگلستان میں 20 برس سے زیادہ عرصہ تک مقیم رہے ہیں لہٰذا وہ وہاں کے حقیقی جمہوری کلچر، قانون کی بالادستی اور صحافتی آزادیوں کو نہ صرف اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ دل سے ان اقدار کی قدر بھی کرتے ہیں مگر برسر اقتدار آنے کے بعد جناب عمران خان نے ملکی و عالمی حالات کو دانشوروں، میڈیا کے تجزیوں، پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی بے لاگ تنقید کے بجائے بیورو کریسی اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والے معدودے چند ہاں میں ہاں ملانے والوں کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اسی لیے وہ بارہا برملا اور اپنی نجی محفلوں میں میڈیا سے اپنی برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ انگلستان کی جمہوری اقدار کے برعکس اسی آمرانہ رویے کا اظہار کر رہے ہیں جو رویہ ان کے پیشرو حکمران اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا کی وبا نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو اکٹھا کر دیا ہے۔ بدھ کے اخبارات میں وزیر ریلوے شیخ رشید کا بیان شائع ہوا ہے کہ انہوں نے جناب عمران خان سے کہا ہے کہ وہ میڈیا اور سیاسی مخالفین سے صلح کر لیں...مگر خان صاحب اس موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ مجھے اس وقت بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ جب انگلستان کی جمہوری اقدار دلدادہ کرپشن کے خاتمے کیلئے غیر جمہوری سعودی عرب اور چین کی طرف دیکھتے ہیں۔ دونوں دوست ملکوں کو ان کے نظام مبارک ہوں مگر جناب عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور اسی کے جمہوری دستور کے پابند ہیں۔ جناب عمران خان سمیت پاکستان کے سب حکمرانوں کے یکساں خود پسند رویے کو دیکھیں تو یہی نتیجہ بقول شاعر نکلتا ہے؎
بدلے ہوئے بادشاہ اور وہی تاج و تخت
نام نئے سے نئے اور نگیں ایک سا