تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-04-2020

کچھ اسباق پرندوں کے دئیے ہوئے

اب سے یہی کچھ ڈیڑھ دوماہ پہلے اگر کوئی یہ کہتا کہ اُس نے لاہور میں رنگ برنگے پرندوں کی ڈاریں دیکھی ہیں تو شاید اُس کی دماغی کیفیت پر شک ہونے لگتا۔ارے میاں وہ زمانے تو کب کے لد چکے‘ جب قسم قسم کے رنگ برنگے پرندے‘ باغوں میں تو کیا گھروں کی منڈھیروں پر بیٹھے ہوئے بھی دیکھے جاتے تھے۔ گرمیوں کی راتوں میں چھتوں پر سونے کے زمانے والے میرے جیسے سب یہ دیکھ چکے ہیں۔ایک دوبار نہیں ‘ سینکڑوں مرتبہ صبح کے وقت انہیں پرندوں کی چہچاہٹ سے آنکھ کھلتی اور ان پرندوں کو دیکھ کر طبیعت میں عجیب سی بہار آجاتی۔ ہرے طوطے ‘ گلابی رنگ کی فاختائیں‘لال چونچ والی چڑیا‘گرین پیجن اور معلوم نہیں کیسے کیسے پرندے دکھائی دیا کرتے تھے۔یہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے۔بس ‘آج سے یہی کوئی دوسے تین دہائیاں پہلے کا عرصہ ہے‘ جب رات کو چھتوں پر سونے کا رواج ہوا کرتا تھا۔اے سی تو نام کو نہیں ہوتے تھے ۔سو‘ گرمیوں کی راتوں کے دوران قدرے سکون کی نیند لینے کے لیے چھتوں پر سونا ہی واحد راستہ ہوتا تھا۔ یہی وہ دن تھے جب صبح آنکھ کھلتے ہی رنگ برنگے پرندے کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملا کرتے تھے۔ بارہا ایسے ہوا کہ آنکھ کھلنے پر ہدہد‘ لال چونچ والی چڑیا اور ایسے ہی خوب صورت پرندوں کو چھت کی منڈھیر پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ کتنی ہی دیر تک چارپائی سے اُٹھے بغیر انہیں چوری چوری دیکھا جاتا‘ مبادا حرکت کرنے سے یہ اُڑ جائیں۔ تب موبائل فون والی وبا تو تھی نہیں اور ٹی وی بھی خال خال گھروں میں ہی ہوا کرتا تھا۔ نمازِ عشاء کے بعد کوئی دوسری ایسی سرگرمی بھی نہیں ہوا کرتی تھی کہ جس میں مشغول رہ کر وقت گذارا جاسکے۔ سو‘ اکثر گھرانوں میں نمازِ عشاء کے بعد کاروبار زندگی صبح تک لیے رک جاتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے اہل ِخانہ باہم بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ۔ایک دوسرے کو دن بھر کی کارگزاری سنائی جاتی۔ کسی بات پر بڑوں سے ڈانٹ پڑتی تو کسی بات پر تحسین بھی سمیٹنے کو ملتی۔ زیادہ تر بڑوں کی طرف سے نصیحتیں ہی سننے کو ملتی تھیں‘ جن پر سب چھوٹے منافقت سے سر دھنتے رہتے کہ گویا وہ ایک ایک نصیحت پر عمل کریں ۔ اس کے بعد سب سونے کے لیے چلے جاتے۔؎ 
او دن نئیں آونے مڑ کے‘ بیندا سی ٹبر جڑ کے
نیتاں سی سچیاں تے کچیاں اِٹاں دا گھر ہوندا سی
چٹنی والی دوری تے کھونڈے دا ڈر ہوندا سی
(وہ دن اب کبھی واپس نہیں آسکتے ‘جب تمام اہل ِخانہ اکٹھے بیٹھے کرتے تھے۔تب اگرچہ مکان کچی اینٹوں کے بنتے تھے‘ لیکن لوگوں کی نیتیں سچی ہوتی تھیں اور ہرکسی کو بڑوں کا ڈر اور خوف ہوتا تھا۔)
بے شک جو وقت گزر گیا‘سو گزر گیا‘ لیکن اپنے ساتھ بہت کچھ ایسا بھی لے گیا ‘جس کی یادیں دلوں کر تڑپاتی ہیں۔ کبھی لاہور کی فضاؤں میں نظر آنے والے رنگ برنگے پرندے بھی وقت کے ہاتھوں چھن جانے والے سامان میں شامل ہیں۔ اب یہ شاید ماضی کی طرح کبھی بھی بہت زیادہ تعداد میں تو دکھائی نہیں دیں گے‘ لیکن اِن دنوں یہ کسی حد تک پھر سے نظرآنے لگے ہیں۔ کچھ کچھ تو ہمیں بھی معلوم تھا کہ ان کی واپسی کی وجوہ کیا ہیں؟ لیکن پھر بھی اتمام حجت کے لیے باغ جناح کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اختر محمود سے گفتگو کا ڈول ڈالا تو وہ اس صورت ِحال پرہم سے بھی زیادہ خوش دکھائی دئیے۔ فوراً دعوت دے ڈالی کہ ذرا وقت نکال کر باغ جناح میں آکر اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو اُس کے بعد بات کریں گے۔ بات سمجھ میں تو آگئی تھی کہ وہ ہمیں وہاں کیا دکھانا چاہتے ہیں ‘کیونکہ اس سے پہلے ہم خود بھی کچھ شاہراہوں سے گزرتے ہوئے پرندوں کی چہچہاہٹ سن چکے تھے۔ ایک روز کمشنر لاہور سیف انجم صاحب سے ملنے کے لیے جی اوآر ون جانا ہوا تو وہاں بھی بڑی تعداد میں پرندے دکھائی دیے تھے‘ جن کی آوازیں دل کو زیروزبر کیے جاتی تھی۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جی اوآر ون میں بے شمار قدیم اور بڑے درخت موجود ہیں‘جہاں پرندوں کو خوراک اور رہائش ‘ دونوں چیزیں ملتی ہیں۔ اسی طرح آج کل لاہور کی ٹھنڈی سڑک پرسے گزرتے ہوئے مختلف پرندوں کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ یہ صورتِ حال کچھ دوسری ایسی شاہراہوں پر بھی دیکھنے میں آرہی‘ جہاں ابھی بڑے درخت موجود ہیں۔ انہیں خیالات میں غلطاں‘ باغ جناح پہنچے تو یقین جانیے اندر داخل ہوتے ہی بے شمار پرندوں کی آوازیں کانوں میں پڑنے لگیں۔ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے باغ ‘ انسانوں سے خالی ہوا ہے تو پرندوں کو اُن کا حق مل گیا ہو۔یکا یک مسڑ ہد ہد پر نظر پڑی تو اُس کے ساتھ گلابی فاختہ بھی دانہ دنکا چگتے ہوئے دکھائی دی۔ تھوڑا اور آگے بڑھے تو ایک درخت پر لال چونچ والی چڑیا کا جوڑا دیکھنے کو ملا تو گرین پیجن بھلا کیوں اپنی جھلک دکھانے میں پیچھے رہ جاتا۔ یہی سب دیکھتے ہوئے اخترصاحب کے کمرے میں پہنچ گئے۔ دوران گفتگو اُنہوں نے بتایا کہ ان دنوں باغ میں ہدہد‘ شارق‘ طوطے اور لال چونچ والی چڑیائیں بڑی تعداد میں دکھائی دے رہی ہیں۔
اختر صاحب بتانے لگے کہ ترقی کے نام پر ہم نے جب اپنے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا لیا ہے تو پھر ان پرندوں کا ہم سے روٹھنا بنتا تھا۔ جب اُنہیں کہیں سکون ہی میسر نہیں ہوگا تو پھر وہ بھلا کیوںکسی پرسکون مقام کی طرف نہیں چلے جائیں گے۔ گفتگو کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو اُنہوں نے صدقے کا گوشت فروخت کرنے والوں کے بھی خوب لتے لیے۔ بولے کہ شہر میں جگہ جگہ یہ جو صدقے کا گوشت فروخت ہوتا تھا‘ اس کی وجہ سے بھی ہمیں اپنے صدیوں پرانے ساتھیوں سے محرومی کا صدمہ اُٹھانا پڑا۔ وجہ اس کی اُن کی طرف سے یہ بیان کی گئی کہ جگہ جگہ صدقے کا گوشت پھینکے جانے کے بعد شہر میں چیل اور کوؤں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ ان بڑے پرندوں کی تعداد بڑھی تو خوراک کے لیے انہوں نے گارڈن برڈز کو اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا۔یہ بڑے پرندے چھوٹے پرندوں کے گھونسلوں میں گھستے‘ اُن کے انڈے توڑ اور بچوں کو ماردیتے تھے ۔سو‘ جان بچانے کے لیے پرندوں کی بڑی تعداد لاہور سے کوچ کرگئی۔ بات بخوبی سمجھ میں آرہی تھی۔ دراصل ہماری ایک مشکل یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے‘ اُس کی ہم قدر نہیں کرتے اور جو نہیں ہوتا اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں پرندوں کی مثال لے لی جائے تو جب یہ کثیر تعداد میں ہوتے تھے ‘ تب شاید ہی کسی کو ان کی اہمیت کا احساس ہوتا ہوگا۔ اگر احساس ہوتا تو پھر بھلا ہمیں انہیں ایسے جانے دیتے ؟ہرگز نہیں کہ ہم کچھ نہ کچھ ایسا ضرورکرتے کہ اگر سب نہیں تو کم از کم اِن کی بڑی تعداد لاہور میں ہی رکی رہتی‘ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اب ‘جب وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے تو ہمیں اپنے یہ دوست بری طرح سے یاد آتے رہتے ہیں۔
اب‘ جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کوروکنے کے لیے لاک ڈاؤن جاری ہے تو انسانی نقل و حرکت میں کمی آئی ہے۔ ذرائع آمدورفت کے استعمال میں کمی ‘ بھٹے اور فیکٹریاں وغیرہ بند ہونے سے آلودگی میں بھی قابل اطمینان حد سے بھی زیادہ کمی دیکھنے میں آرہی ہے ‘ اسی صورت ِحال نے واپسی کے لیے پرندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اب ‘یہ تو یقینا نہیں ہوسکتا کہ لاک ڈاؤن اسی طرح برقرار رہے۔ کورونا کا خاتمہ ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر زندگی معمول پر آجائے گی۔ پہلے کی طرح ہی ہم آلودگی پھیلانا شروع کردیں گے اور پھر وہی شوروغوغا برپا ہونا شروع ہوجائے گا۔ سو‘ یہ خدشہ بہرحال موجود ہے کہ تب یہ خوب صورت مہمان پھر یہاں سے کوچ کرجائیں گے۔اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو جانے والے یہ سبق ضرور دے جائیں گے کہ میاں سکون کی ضرورت صرف انسانوں کو ہی نہیں ‘بلکہ ہرجاندار کو ہی ہوتی ہے۔ان کا پہلے چلے جانا اور اب کسی حد تک واپس آجانا ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ہرکسی کے حقوق ہوتے ہیں‘ جنہیں پورا نہ کیا جائے تو پھر قدرتی حسن ماند پڑسکتا ہے۔ لاہور میں ایک مرتبہ پھر پرندوں کی واپسی یہ واضح کررہی ہے کہ خبرداربلاضرورت کسی کی دنیا میں مداخلت مت کریں۔اپنی ضرورت سے زیادہ ان کا شکار مت کریں۔انسانوں کی سہولت کے لیے اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں تو پرندوں کا بھی حق بنتا ہے کہ اُنہیں بڑے اور اس خطے کے روایتی اشجار کی صورت میں آشیانہ اور خوراک کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے ‘ورنہ پھر ان سے ہمیں چھوڑ کر چلے جانا کا شکوہ مت کیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved