تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     24-04-2020

تھینک یُو جنابِ صدر

وہ ایک بڑا سا کنٹینر تھا، جس میں تھوڑی بہت سہولیات کے ساتھ ایک سِنگل صوفہ سیٹ بھی موجود تھا۔ میں ڈی چوک پہنچا تو مجھے عمران خان صاحب کا گارڈ ایوب گُجر خانی کپتان صاحب کے پاس لے گیا۔ کنٹینر کے اندر عمران خان صاحب پی ٹی آئی کے اپنے چند قریبی ساتھیوں سے دھرنے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے ''عبداللہ تم آ گئے! میرے ساتھ ہی بیٹھ جائو‘‘ مجھے صوفہ سیٹ کے آرم ریسٹ کے کشن پر بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ وہیں پہلی بار میں نے موجودہ صدر عارف علوی صاحب کی گفتگو سنی تھی۔ آپ اس کو ان سے میری پہلی ملاقات بھی کہہ سکتے ہیں۔
پھر وقت کا تیز پہیہ دوڑتا چلا گیا اور 2018 کے قومی الیکشن آ گئے۔ عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے ملک بھر میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ کراچی، اسلام آباد، لاہور، میانوالی اور بنوں کے قومی اسمبلی کے حلقوں پر عمران خان صاحب کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے گئے۔ نیشنل اسمبلی کی ان ساری سیٹوں پر ایک عدالتی شخصیت کی سیاسی پارٹی کی جانب سے ایک ہی جیسے اعتراضات والی پٹیشنیں دائر ہو گئیں‘ جن کی سماعت میں عمران خان صاحب کے ڈیفنس کونسِل کی حیثیت سے میں نے والد صاحب کی قانونی معاونت کی۔ بنی گالہ اکثر آنا جانا ہوتا تو جنابِ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان‘ دونوں ہی کہتے: تمہیں وکالت کی ٹریننگ حاصل کرنے کا زبر دست مگر سخت موقع ملا ہے۔ پھر 25 جولائی 2018 کی رات آ گئی۔ اس وقت انتخابی نتائج کا اعلان ہو رہا تھا۔ ہم سب بنی گالہ میں عمران خان صاحب کے گھر کے مین گیٹ کے ساتھ بنے پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں تھے۔ مجھے عین عمران خان صاحب کے پیچھے بیٹھنے کے لیے نشست مل گئی۔ اس رات شاید ہی کوئی سویا ہو گا۔ تب بھی محترم ڈاکٹر عارف علوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ویسے یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس وقت ڈاکٹر عارف علوی صاحب کا نام قومی اسمبلی کی سپیکر شپ کے لیے سب سے ٹاپ پر لیا جا رہا تھا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد میں بیرسٹر شپ کے لیے یو کے چلا گیا۔ سال 2019 کے دسمبر میں کرِسمس کی چھٹیاں آ گئیں۔ انگلینڈ میں یہ چھٹیاں عام لوگوں کے لیے لمبی ہوتی ہیں لیکن پروفیشنل سٹوڈنٹس کے لیے سات آٹھ دن سے زیادہ تعلیمی سلسلہ معطل نہیں ہوتا۔ اس دوران میں اسلام آباد واپس آیا تو موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔ مجھے بھی بابا کے ساتھ صدر پاکستان کی جانب سے تقریب حلف برداری میں شرکت کا کارڈ ملا۔ اس طرح 21 دسمبر 2019 کے روز صدر صاحب سے ایک بار پھر ملاقات ہوئی۔ جب میں یو کے میں تھا تو پتا چلا کہ صدر عارف علوی صاحب نے صدر ہائوس کو، جسے عام سا قومی ادارہ سمجھا جاتا ہے‘ بڑے بڑے قومی کاموں کے لیے تِھنک ٹینک میں تبدیل کر دیا ہے۔ 
صدر عارف علوی بہت ایکٹو آدمی ہیں۔ والد صاحب نے بتایا تھا: COVID-19 کی پابندیوں سے کچھ دن پہلے وہ پاکستان نیوی کے گولف کورس مارگلہ گرین میں گئے۔ چھٹی والے دن یہ صبح سویرے کا ٹائم تھا اور مارگلہ کے دامن میں صدر عارف علوی صاحب بھی پہنچے ہوئے تھے۔ مارگلہ گرینز گولف کلب ہمارے گھر F-8/2 سے تین چار منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ مارگلہ روڈ کے نارتھ میں گولف کلب جبکہ سائوتھ میں سیکٹر F-8 ہے۔ صدر عارف علوی صاحب نے کمال کا کام یہ کیا کہ انہوں نے صدر ہائوس کو نیشنل ڈائیلاگ سینٹر بنا ڈالا۔ ابھی تک پبلک ہیلتھ، ماحولیات، شجر کاری، مذہبی طبقات میں ہم آہنگی پر بات چیت ہوئی ہے۔ سینی ٹیشن اور COVID-19 جیسے موضوعات پر صدر عارف علوی صاحب نے کمال کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ فیڈرل کیبنٹ کے تازہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کے سینئر ارکان نے صدر عارف علوی صاحب کے ایک ایسے ہی اہم ترین Initiative کی زبردست تعریف کی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کی تعریف کیوں نہ ہو۔ ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ہائوسز نے کورونا پر کمیٹیاں بنا رکھی ہیں۔ قومی اسمبلی اور ہائوس آف فیڈریشن کی ان آل پارٹیز کمیٹیوں کے کئی کئی اجلاس ہو چکے ہیں‘ جن میں صرف ایک ہی نکتہ زیرِ بحث لایا گیا ہے اور وہ یہ کہ اس بہت مشکل والے وقت میں عوام پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے فوراً ہی پارلیمنٹ کے اجلاس بلا لیے جائیں۔
بہرحال اب آئیے صدر عارف علوی صاحب کی طرف سے قومی اتفاقِ رائے کے تازہ مظاہرے کی طرف چلتے ہیں‘ جس کے مطابق رمضان شریف کے مہینے میں عبادت گاہوں کو کھولنے کے لیے کوڈ بنایا گیا ہے۔ آئیے اس کے اہم نکات پبلک کی توجہ کے لیے یہاں پر دُہراتے ہیں: 
1) مساجد میں قالین اور دریاں نہ بچھائی جائیں کیوں کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے ان میں منتقل ہو سکتا ہے۔ نماز کے لیے صاف فرش یقینی بنایا جائے۔ اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔
2) اگر لوگ گھر سے جائے نماز لانا چاہتے ہیں تو وہ لا سکتے ہیں۔
3) نماز یا تراویح کے بعد کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں ہو گی۔
4) اگر مسجد میں کوئی کھلی جگہ یا باغ ہے تو بہتر ہے کہ نماز وہیں پڑھی جائے۔
5) 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور بچوں کو مسجد جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
6) WHO اور دوسرے طبی ماہرین کی جانب سے دی گئی سماجی فاصلے کی ہدایات پہ سب کو عمل کرنا ہو گا۔
7) تراویح کی نماز مساجد کے علاوہ کسی بھی سڑک یا فٹ پاتھ پر نہیں ہو گی۔
8) لوگ باقاعدہ نمازیں اپنے گھر پہ پڑھنا جاری رکھیں۔
9) مساجد اور امام بارگاہوں کے فرش باقاعدگی کے ساتھ کلورین کے پانی سے صاف کیے جائیں۔
10) اجتماعی نماز کے دوران نمازیوں میں 6 فٹ کا فاصلہ ہو گا۔
11) قواعد اور ایس او پیز کی پاس داری یقینی بنانے کے لیے مساجد کو کمیٹیاں بنانی چا ہئیں۔
12) مساجد اور امام بارگاہوں کے فرش پر نشان لگنے چاہئیں جو نمازیوں کی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے میں رہنمائی کر سکیں۔
13) لوگ اپنے گھر پہ وضو کا اہتمام کریں۔
14) لوگوں کو مسجد میں فیس ماسک پہننے ہوں گے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ہو گا۔
15) لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔
16) لوگ اعتکاف کے لیے اپنے گھر میں رہیں۔
17) سحری اور افطاری نہ تو مساجد میں بنائی جائے، نہ اجتماعی سحر و افطار کا اہتمام مسجد میں کیا جائے۔
18) مسجد کی کمیٹیاں صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔
19) مسجد کی کمیٹیاں ان ہدایات کی روشنی میں تراویح کی نماز کا اہتمام کر سکتی ہیں۔
20) اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پہ عمل نہیں ہو رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں بھی پالیسی پر نظر ثانی کرے گی۔
تھینک یُو صدر عارف علوی صاحب! آ پ نے قوم کا شعور جگانے کے لیے بڑے ہی مشکل وقت میں اپنا فرض ادا کر دیا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی سربراہ کے طور پر ایک واضح روڈ میپ دے کر۔ اب مذہبی طبقات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں جذباتی پن ختم کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved