اس وقت جب دنیاکورونا وائرس جیسی مہلک وبا سے بچائو کیلئے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے‘ ایسے میں دنیا کے ہر خطے میں اوور سیز پاکستانی اس وبائی مرض کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ خدمات فرض کے طور پر نہیں بلکہ انسانی ہمدردی‘ قربانی اور ایثار کے جذبے سے انجام دے رہے ہیں ۔ ان اوور سیز پاکستانیوں کی انسانی ہمدردی‘ ایثار اور قربانیوں نے پاکستان کے نام اور مقام کو ان ملکوں کے شہریوں کے دلوں میں دوست اور ہمدرد ملک کی حیثیت سے بہت نمایاں کر دیا ہے جو کل تک پاکستان کے متعلق بلا وجہ کے تحفظات کا شکار تھے۔ اسرائیلی‘ بھارتی اور مغربی میڈیا اور معاشرے کے بھر پور پراپیگنڈے نے جھوٹی کہانیاں پھیلا کر اسے دہشت گردی سے اس طرح جوڑ رکھا تھا کہ تصویر کا دوسرا رخ کسی کو نظر ہی نہیں آرہا تھا‘ لیکن ان دو ماہ کے دوران اوور سیز پاکستانی ڈاکٹروں ‘ تاجروں‘ سٹور مالکان‘ ٹیکسی ڈرائیورز اور دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی بے لوث خدمات کے ذریعے اس جھوٹ اور پراپیگنڈا پر مبنی تاثر کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے۔ کسی کویقین ہی نہیں تھا کہ اپنی ضروریات کو محدود اور قربان کرتے ہوئے ان کے ملک میں مصروفِ عمل پاکستانی تارکین وطن اپنی اپنی کونسل‘ کمیونٹی اور بلاکس میں بسنے والے لوگوں کی رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر اس طرح خدمات انجام دیں گے کہ ان کے دروازوں پر جا کر ان کی ضروریاتِ زندگی کے سامان کے ڈھیر لگا دئیے جائیں گے۔ دنیا کے ہر خطے میں مقیم ہمارے پاکستانیوں نے اپنے میزبان ممالک کے شہریوں کی مدد کو پہنچتے ہوئے ان کی ضررویات کو پورا کیا۔ روزگار ‘تعلیم اور کاروبار کیلئے گئے ہوئے‘ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے ان تمام ممالک میں‘ جہاں جہاں وہ مقیم ہیں‘ مصیبت کی اس گھڑی میں کورونا وائرس سے متا ثر ہونے والوں کی مدد کیلئے ایثاراور قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ ان ممالک کے شہری‘ جن میں سے اکثر کل تک پاکستان یا پاکستانیوں کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے یا گزشتہ بیس تیس برسوں عالمی حالات و واقعات کی وجہ سے پاکستانی عوام کومشکوک سمجھنے لگے تھے اور انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے ‘اب ان کو دیکھتے ہی بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہیں اور مسکرتے ہیں‘ جبکہ پاکستان کے خلاف نفرت اور کینہ پرور جذبات رکھنے والے جب یورپی اور امریکی شہریوں کواوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ دوستانہ مسکراہٹ کا تبادلہ اور ہیلو ہائے کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی شکلیں حسد اور غصے سے اس قدر سیاہ ہو جاتی ہیں‘ جیسے دنیا جہاں کی کالک ان کے چہرے پر امڈ آئی ہو ۔
پاکستانی ڈاکٹر اور ہر درجے کا میڈیکل سٹاف دن رات ایک کرتے ہوئے جس طرح تندہی اور اپنے بہترین تجربے کے ساتھ کورونا سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ ان کے آئسو لیشن وارڈ میں رہتے ہوئے ان کا علاج ا ور دیکھ بھال کر رہے ہیں وہ امریکی اور مغربی معاشرے میں انتہائی قدر و احترام سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ان ممالک کا میڈیا بھی ان پاکستانیوں کی خدمات کا اب کھلے دل سے اعتراف کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکسی ڈرائیونگ کے پیشے سے وابستہ پاکستانیوں نے بھی ایثار کی حد کر دی ہے ۔ کل تک کسی کو توقع ہی نہ تھی کہ ایسے وقت میں جب پاکستان میں ہر کوئی اپنے ہم وطنوں کی مجبوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا تہیہ کئے بیٹھا ہے‘ اوور سیز پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورز رضا کارانہ طور پر خواتین اور عمر رسیدہ افراد کو بغیر کوئی کرایہ وصول کئے انہیں ان کی منزلوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں‘ بلکہ ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے جیسے فرض کر لیا ہے کہ کسی سے اس کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھانا۔ گراسری سٹور وں کے باہر لگی ہوئی طویل قطاریں اس وقت دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں اور یہ دیکھتے ہوئے آدمی کانپ اٹھتا ہے کہ بہت سے مقامات پر یہ قطاریں کئی فرلانگ تک لمبی ہیں اور پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورز ان حالات کے با وجود کہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بہت ہی کم ہے‘ اپنے ساتھ لائے ہوئے مسافروں کو انتظار کرنے کا کرایہ لیے بغیر انہیں واپسی کیلئے بھی پوری سہولت مہیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ضرورت مندوں کا سامان اٹھانا‘ اسے ٹیکسی میں رکھنا اور پھر ان کے گھر اور فلیٹ کے دروازے پر چھوڑکر آنا اپنی عادت سی بنا لی ہے۔
آج جب دنیا بھر میں یہ بہت بڑی خبر گردش کر رہی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کورونا وائرس کے خاتمے کیلئے ویکسین تیار چکا ہے تو ایسے میں پاکستان کے فرزند عظیم ڈاکٹر عثمان‘ جوکورونا سے سب سے زیا دہ متاثرہ چین کے شہر ووہان کیChangsha Medical University میں استاد ہیں‘ نے ووہان میں اس وبا کے پھوٹتے ہی سب سے پہلے آگے بڑھ کر رضا کارانہ طور پر خود کو ان مریضوں کے درمیان رہنے کی پیشکش کر دی‘ جسے چین کے طبی پیشے سے منسلک لوگوں نے جی کھول کر داد دی۔ بد قسمتی کہہ لیجئے یا عالمی معیشت کے گورکھ دھندا کہ بھارت ‘ امریکہ اوران کے حواری ممالک دنیا میں اپنے با اثر میڈیا کے ذریعے تاثر پھیلارہے ہیں کہ کورونا وائرس کی بنیادی وجہ چین ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بھارت یہ کہے جا رہا ہے کہ وہاں کورونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جاپان ‘کوریا‘ یورپ اور امریکہ سمیت تمام دنیا بھرمیں کورونا کن کی وجہ سے پھیل چکا ہے؟ بھارت میں تو ابھی تک کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعدادبھی کم ہے‘ جبکہ یورپ اور امریکہ میں یہ تعداد اس سے کئی سو گنا زیا دہ ہو چکی ہے۔ کیادنیا نہیں جانتی کہ ووہان میں جیسے ہی یہ مہلک وبا پھیلی تو چین نے دو کروڑ آبادی والے اس شہر کو ایسے لاک ڈائون کیا کہ دو ماہ تک لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ چین پر الزامات لگانے والے کسی دوسرے ملک نے اس قسم کا مؤثر لاک ڈائون کیا ؟ چین نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کیلئے اپنے تجربات کافی حد تک کامیابی سے مکمل تو کر لیے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس جدو جہد میں میڈیکل کے شعبے سے منسلک پاکستانی اساتذہ کا بھی بہت عمل دخل ہے اور جب کورونا وائرس کی اس وبا کی تاریخ لکھی جائے گی تو میڈیکل کی دنیا میں پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہو گا جن کا نام اس ویکسین کی تیاری میں مدد کرنے والوں میں لیا جائے گا ۔ کیا یہ پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کی ہمالیہ سے بلند دوستی کا اعتراف نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں بھی چین نے پاکستان کے اشتراک کو سب پر فوقیت دی ہے اور اس کا اعلان ایسے ہی کسی خبر میں نہیں کیا بلکہ سرکاری طور پر پاکستان کو اس پراجیکٹ میں شامل کرکے دیا گیا ہے۔ انشا ء اﷲ اگلے دس ہفتوں کے اندر پاکستان کا شمار بھی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والے ممالک میں کیا جانے لگے گا۔ چین نے بنی نوع انسان کی بہتری کیلئے دن رات ایک کرتے ہوئے اس موذی وبا کے خاتمے کیلئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ چین پرکورونا وائرس پھیلانے کے بے بنیاد الزامات لگانے والے ممالک کو چاہیے کہ اس کی بجائے وہ ان طریقوں اور اقدامات کو اپنائیں جن سے چین نے اس مہلک طوفان کا ایک مکمل ڈسپلن اور تنظیم کے ساتھ مقابلہ کیا۔