تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     25-04-2020

مانوس جزیرے کا سفر

بعض اوقات کوئی ایک خبر یا واقعہ تصور کے در کھول دیتا ہے اور ہم وقت کی لہروں کے ساتھ بہتے ہوئے ایک ایسے مانوس جزیرے پر جا رکتے ہیں جہاں کبھی ہماری زندگی کے شب وروز گزرے ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک خبر مجھے دور دیس کے اس مانوس جزیرے میں لے گئی جہاں میں نے زندگی کے چار سال بسر کیے تھے۔ یہ خبر دنیا کی بہترین تعلیمی درس گاہوں کی رینکنگ کی فہرست کی اشاعت ہے جس کے مطابق کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، جو عرف عام میں Ontario Institute for Studies in Education (OISE) کہلاتا ہے، کوکینیڈا کا بہترین انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن قرار دیا گیا ہے اور دنیا بھر میں رینکنگ کے اعتبار سے یہ ساتویں نمبر پر آیا ہے۔یہ خبر مجھے وقت کی لہروں کے ساتھ پینتیس برس پیچھے لے گئی جب میں نے OISE کا نام پہلی بار سنا تھا۔ یہ 1985ء کی بات ہے۔ اس وقت میں اسلام آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتا تھا۔ انہی دنوں مجھے امریکن ایمبیسی کی طرف سے انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام کے تحت امریکہ جانے کا موقع ملا۔ اس پروگرام کے تحت دنیا کے مختلف ممالک سے انگریزی زبان کے اساتذہ کو امریکہ بلایا گیا تھا۔پروگرام کا دورانیہ چالیس دن کا تھا۔ پروگرام کے شرکاکو تین گروپس میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ہر گروپ کے شرکا کو امریکہ کی مختلف جامعات میں تدریسِ انگریزی کا مشاہدہ کرنا تھا۔مجھے اپنے گروپ کے ساتھ نیویارک، پینسلوینیا،واشنگٹن ڈی سی ،پورٹ لینڈ اور سین ڈی ایگو میں واقع جامعات میں جانے کا موقع ملا۔اس پروگرام کو سکول آف انٹر نیشنل ٹریننگ نے ترتیب دیا تھا اور پروگرام کی ڈائریکٹر معروف امریکی ماہرِلسانیات Diane Larsen-Freeman تھیں۔ میں ان کی کتاب Techniques and Principles of Language Teachingسے پہلے سے متعارف تھا۔ اس پروگرام کے دوران مختلف ممالک سے آئے ہوئے انگریزی کے اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملا۔ یہیں پہلی بار OISEکا ذکر سنا۔ پروگرام کے چالیس دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ میں واپس پاکستان آ گیا۔ چھ سال گزر گئے۔ پھر ایک دن مجھے کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا کے شہر جانے کا موقع ملا ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میرا داخلہ OISEمیں ہو گیا تھا۔
یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں ایجوکیشن کی تعلیم کی ابتدا 1907ء میں ہوئی۔ OISEکا خودمختار ادارہ 1965ء میں قائم کیا گیا جس کا اپنا بورڈ آف گورنرز تھا۔ OISEمیں گزارے چار سال میرے زما نۂ طالب علمی کے بہترین سال تھے‘جہاں مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ Enabling Environmentکسے کہتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ میں میرا سب سے پہلا تعارف ڈاکٹر میرل سوین (Merril Swain) سے ہوا جو میرے اکیڈیمک پروگرام ایڈوائزر تھیں ۔میرل کی Outputتھیوری پر مبنی ریسرچ کو آج بھی تدریسِ انگریزی کی اہم ریسرچ سمجھا جاتا ہے۔ OISEمیں قیام کے دوران مجھے کئی بار میرل سے انفرادی سطح پر مکالمے کا موقع ملا اور ہر بار میں سوچ کے نئے زاویوں سے آشنا ہوا۔ میرل سوین نے ہمیں کوآپریٹو لرننگ کاکورس پڑھایا تھا‘ جو اس زمانے میں ایک نیا تصور تھا اور جس پر زیادہ مواد میسر نہیں تھا۔ میرل کی کلاس میں ہمیں Reflective Journal بھی لکھنا ہوتا‘ جو آج سے پینتیس برس پہلے میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ OISEمیں آنے کے بعد بہت جلد مجھے کچھ چیزوں کا احساس ہو گیا کہ یہاں کا طریقۂ تدریس بہت مختلف ہے ۔ اساتذہ کا کام سپون فیڈنگ نہیں۔ ہر کلاس میں ہمیں کتابوں یا ریسرچ پیپرز کی ایک فہرست دے دی جاتی اور پھر توقع کی جاتی کہ ہر طالبِ علم کم ازکم فہرست میں دی گئی کتابوں اور مضامین کو ضرور پڑھے۔ OISEکے حوالے سے ہمیں جلد ہی یہ احساس بھی ہو گیاکہ یہاں کے اساتذہ کی سوچ اور ماحول Critical Paradigm پر استوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب Curriculumکی کلاس کا آغاز ہوا اور پہلے دن جب ہمارا پروفیسر کلاس روم میں داخل ہوا ‘اس نے ہاف سلیوز شرٹ اور نیکر پہنی ہوئی تھی‘ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے ہاتھ میں کافی کا پیپر کپ تھا‘ جس کے اوپر ایک مفن (Muffin) رکھا تھا ۔یہ میرے لیے ایک استاد کا نامانوس تصور تھا۔ پروفیسر کا نام Joe تھا۔ اس نے غیر روایتی انداز میں کلاس کا آغاز کیا‘ کلاس کے آخر میں ہمیں کتابوں کی ایک فہرست دے دی اور پھر ہمیں بتایا کہ ہماری مرکزی کتاب Becoming Criticalہو گی۔ یہ میرے لیے اچنبھے کی بات تھی۔ میرا خیال تھا کہ کریکلم کی کتاب کے عنوان میں Curriculumکا نام تو ہونا چاہیے۔
لیکن اب میں سوچتا ہوں تو تعلیم کے حوالے سے میری فکری ساخت میں Carr & Kemmissکی کتاب Becoming Critical نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کتاب نے تعلیم کے بوسیدہ تصور کو واضح کر کے امکانات اور تبدیلی کے نئے دروازے کھولے۔ آج اتنے عرصے بعد میں سوچتا ہوں‘ اگر Joe ہمیں اس کتاب سے متعارف نہ کراتا تو میں تعلیم کے Criticalپہلو سے بے خبر رہتا۔ تعلیم کا یہی کریٹیکل پہلو ہے جو OISEکا امتیاز تھا۔ اساتذہ کی کہکشاں کا ایک اور روشن ستارہ James Cumminsتھا جو زبان اور کلچر کا ماہر تھا اور زبان کی تحقیق کے حوالے سے اس کا نام چند بڑے ناموں میں شامل تھا ۔اس کا آبائی وطن آئرلینڈ تھا ۔ جیمز کا مختصر نام جِم تھا جوکینیڈا کے تحقیقی حلقوں میں احترام سے لیا جاتا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی۔ جم اپنے طالبِ علموں میں اپنے علم اور خوش مزاجی کی وجہ سے مقبول تھا۔ OISEمیں مختلف ڈیپارٹمنٹس سے کورس لینے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ میرا داخلہ ماڈرن لینگویج سنٹر (MLC) میں ہو الیکن میں نے مختلف ڈیپارٹمنٹ سے کورسز لے رکھے تھے۔ خاص طور پر سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے کچھ اساتذہ کے ساتھ جن کے تحقیقی کام سے میں بہت متاثر تھا۔ انہیں میں ایک نام ڈیوڈ اولسن تھا ۔ڈیوڈ زبان، لٹریسی اور کلچر میں دنیا بھر میں ایک اتھارٹی تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے جیمز سے نہ صرف ایک کورس پڑھا بلکہ وہ میری پی ایچ ڈی تھیسز کی ایگزامینر ٹیم کا حصہ بھی تھے۔پی ایچ ڈی کورس ورک اور کمپری ہنسو امتحان کے بعد پی ایچ ڈی کے سفر کا اصل حصہ شروع ہوتا ہے۔ اور یہ ہے پی ایچ ڈی کی تحقیق، تھیسز اور تھیسز کا ڈیفنس۔ تھیسز سپروائزر کے انتخاب کا مرحلہ سب سے اہم تھا۔ میرے ذہن میں کئی نام تھے لیکن ایک نام پر دل ودماغ اکٹھے ہو گئے۔ اور وہ نام تھا Keith Stanonichکا۔ Keith امریکہ کی Ohioیونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور اس کی OISE میں بطور پروفیسر سلیکشن ہوئی تھی۔ Keithکے دلچسپی کے موضوعات میں Rationality & Reading شامل تھے۔ میں نے Keithسے دو کورسز بھی پڑھے تھے۔ذہنی طور پر فیصلہ کرنے کے بعد میں Keithکے آفس گیااور اس سے درخواست کی تھی۔ اب اس بات کو گزرے تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہترین فیصلہ تھا‘ Keithبطور استاد، بطور ریسرچر اور بطور سپروائزر ایک بہترین انسان اور پروفیشنل تھا۔ اب میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو OISEانسٹی ٹیوٹ اور پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں میں ایجوکیشن کے پروگرامز کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ ہم ابھی تک تعلیم کے اسی فرسودہ تصور میں گرفتار ہیں جس میں تعلیم کا مقصد ایک نسل سے دوسری نسل میں تصورات ،مہارتوں اور اقدار کو منتقل کرنا ہے۔ تربیتِ اساتذہ کے کتنے ہی پروگرامز ہیں لیکن ان میں بیشتر تعلیم کے روایتی تصور سے جڑے ہوئے ہیں‘جس میں امتحان صرف یادداشت کا ٹیسٹ ہے اور جس میں سوچ کے نئے زاویوں پر پہرہ بیٹھا دیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں جن مہارتوں کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ ان میں Critical Thinkingکی مرکزی اہمیت ہے‘ اور اس اہمیت کو OISEنے آج سے کئی دہائیاں پہلے جان لیا تھا۔ بعض اوقات کوئی ایک خبر یا واقعہ تصور کے در کھول دیتا ہے اور ہم وقت کی لہروں کے ساتھ بہتے ہوئے ایک ایسے مانوس جزیرے پر جا رکتے ہیں جہاں کبھی ہماری زندگی کے شب وروز گزرے ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک خبر مجھے دور دیس کے اس مانوس جزیرے میں لے گئی جہاں میں نے زندگی کے چار سال بسر کیے تھے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved