رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا،لیکن گزشتہ سینکڑوں برسوں میں پہلی مرتبہ تراویح کی نماز مساجد میں ادا نہیں کی جا رہی۔پورے عالم ِ اسلام میں،اور جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد محدود کر دی گئی ہے۔کئی مقامات پر تو وہاں سے صرف اذان کی آواز بلند ہوتی ہے،لیکن کئی جگہ مسجدوں کے عملے کے ارکان کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ تراویح کی تو بات ہی کیا کہ یہ فرض ہے نہ واجب، اس کا باقاعدہ اہتمام امیر المومنین عمر فاروق ؓ کے دور میں کیا گیا، اور اب یہ ایک ایسا اسلامی شعائر بن چکا ہے جس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ فقہ جعفریہ کے متبعین کے علاوہ ہر مسلک کے مسلمان تراویح خضوع و خشوع سے ادا کرتے اور قرآن پاک کی اجتماعی سماعت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔تاریخ میں پہلی بار نمازِ پنج گانہ بھی باقاعدہ باجماعت ادا نہیں کی جا رہی اور جمعہ کے اجتماعات بھی ممکن نہیں ہو پا رہے... ماہِ رمضان کے دوران قریباً ہر مسجد میں افطار کا اہتمام کیا جاتا، اور سحری کے لیے دستر خوان بھی سجایا جاتا تھا۔ ہزاروں کیا لاکھوں افراد ہر ملک میں اس دعوتِ عام کے مہمان ہوتے، اور ہر محلے اور بستی کے لوگ میزبان۔ مسجد ِ نبویؐ کی افطار تو یوں نرالا مزہ دیتی ہے کہ یہاں مختلف خاندانوں کے دستر خوان نسل در نسل بچھتے چلے آ رہے ہیں۔ مدینہ کے رہنے والے اِن دستر خوانوں کو سجا کر نمازیوں کو بڑی لجاجت سے مدعو کرتے اور اپنی دعوت کی قبولیت پر ممنونیت کا بے پایاں اظہار کرتے پائے جاتے،لیکن اِس سال سب کچھ بدل چکا ہے۔ مسجد ِ نبویؐ میں افطار کے دستر خوان بچھ سکے ہیں، نہ کسی اور مسجد میں۔کسی بھی جگہ اس اہتمام کی اجازت نہیں۔پورے عالم ِ اسلام میں افطار اور سحر کے وقت بازاروں میں عید کا سماں ہوتا تھا۔ ریستورانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، لاہور کے ایم ایم عالم روڈ پر تو کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ ہر ریستوران میں پیشگی بکنگ کرانا پڑتی تھی۔ ریزرویشن کے بغیر جانے والوں کے لیے جگہ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن اب ہُو کا عالم ہے سناٹے کا راج ہے، اور قبرستان کی سی خاموشی، بار بار اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ گھروں کو مسجد بنا لیں اور گھروں ہی میں کھانا کھائیں۔ گھروں میں بھی دعوتوں کا اہتمام کرنے سے گریز کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اس میں بھی خطرات ہیں۔ کوئی بھی مہمان وائرس ہولڈر ہو سکتا ہے، اور اسے دوسروں میں منتقل کر سکتا ہے۔
وبائوں کے بارے میں بہت کچھ دیکھ اور سن رکھا تھا۔ تاریخ کی کتابیں ان کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔لاکھوں، کروڑوں افراد ان کی وجہ سے لقمہ ٔ اجل بن گئے تھے۔ جنگوں کی تباہ کاریوں کی داستان اپنی جگہ دلخراش ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم میں کروڑوں افراد ہلاک کر ڈالے گئے تھے۔تاریخ میں ان جنگجوئوں کے نام بھی محفوظ ہیں، جنہوں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرائے اور انسانی خون کے دریا بہائے تھے۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو انسان نامی درندے نے جتنا نقصان پہنچایا، اتنا کسی جنگلی مخلوق سے نہیں پہنچا۔ جنگلی مخلوق تو دو، چار، دس ہی کو جان سے مار پاتی ہے، لیکن حضرتِ انسان نے تو کشتوں کے پشتے لگائے ہیں۔دور نہ جائیے، حالیہ واقعات ہی کو دیکھ لیجیے، کس طرح عراق پر حملہ کیا گیا، شام کو تاراج کیا گیا، اور کئی ہنستے بستے مسلمان ممالک میں موت اور بھوک بانٹ دی گئی۔ افغانستان میں دیکھیے کہ وہاں کس طرح خانہ جنگی جاری ہے۔ رمضان المبارک کی آمد اور کورونا کی وبا بھی ایک دوسرے کی گردنوں کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ روک نہیں پا رہی۔
دُنیا کی تاریخ میں پہلی بار انسان کو انسان سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ وہی محفوظ ہو گا،جو محدود ہو گا۔ گھروں میں بیٹھ رہنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ہر انسان سے چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھ کر اِس سے معاملہ کرنے کو حفظانِ صحت کے لئے لازم قرار دیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔یہ ذرۂ بے جان نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، نہ اسے چھوا جا سکتا ہے، نہ اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ کسی بھی انسان کے سانس کا حصہ بن کر اُس کی داخلی دُنیا تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ ذرہ کسی جغرافیے، رنگ، نسل یا علاقے میں قید نہیں ہے۔ پوری دُنیا اس کا جولاں گاہ ہے۔ چین کے شہر ووہان سے نکل کر یہ پوری دُنیا میں پھیل چکا ہے، لاکھوں افراد اس کی زد میں آ کر بستر سے لگے بیٹھے ہیں۔کئی صحت یاب ہو گئے ہیں، کئی لقمہ ٔ اجل بن گئے ہیں۔ کسی بھی ملک کی طبی سہولتیں اس بلا سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس کا علاج یہی ڈھونڈا گیا ہے کہ نقل و حرکت کو کم سے کم کر دیا جائے، کاروبارِ حیات معطل ہو جائے، تاکہ اس کا شکار ہونے والوں کی تعداد محدود رکھی جا سکے۔ مریضوں کی تعداد ہسپتالوں کی استعداد سے بڑھنے نہ پائے کہ بصورت دیگر ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ طبی عملے کے افراد بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کا شکار ہو جاتے ہیں،ان کی کمی کا خدشہ بھی ایک ایسی تلوار ہے جو ہر بستی کے سر پر لٹک رہی ہے۔
اس وائرس کی نوعیت اور ماہیت ایسی ہے کہ بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی، پاکستان میں بھی اس کی تباہ کاری کا ادراک نہ کرنے والے موجود ہیں، اس لیے سماجی رابطوں کو محدود کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ لاک ڈائون کے معاشی اثرات کا انکار بھی ممکن نہیں،کاروبارِ زندگی ہمیشہ کے لیے معطل نہیں رکھا جا سکتا، لیکن مشکل یہ ہے کہ اسے معمول کے مطابق بھی نہیں چلایا جا سکتا کہ اس کے اثرات بھی محدود نہیں ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر بحث و تمحیص جاری ہے، اور معاشرے کے مختلف طبقات بھی اپنی اپنی مشکلات کا ذکر کرنے پر مجبور ہیں۔ اور تو اور، مساجد میں نمازیوں کی تعداد پر پابندی لگانے پر بھی یکسوئی نہیں ہو پائی۔پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈاکٹر پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ بیانات جاری کر رہے ہیں۔ہاتھ جوڑ رہے ہیں۔ ان کی آنسو بھری آنکھیں التجائیں کر رہی ہیں کہ خدا کے لیے ڈسپلن نافذ کیجیے۔ اجتماعات کو محدود کیجیے۔ اپنے گھروں کو مسجد بنا لیجیے ایک دوسرے کی قربت اور رابطے سے بچئے کہ یہ وائرس اسی طرح بے اثر ہو سکے گا۔ ابھی تک اس کی کوئی دوا دریافت نہیں ہو پائی۔ مختلف ادویات کے تجربات مختلف ممالک میں جاری ہیں۔ ویکسین بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں کامیابی کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ چین بھی آگے آگے ہے۔ کئی دوسرے ممالک کے سائنس دان بھی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ برطانیہ اور چین میں تو انسانوں پر ویکسین کا تجربہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ جلد کامیابی نصیب ہو گی،اور اس وائرس کا علاج ممکن ہو جائے گا۔ یہ بھی اسی طرح قصۂ ماضی بن جائے گا، جس طرح طاعون، چیچک، تپِ دق اور اس طرح کے دوسرے وبائی امراض بن چکے ہیں۔ لیکن یہ کام چٹکی بجانے میں نہیں ہو گا، اس کے لیے صبر آزما انتظار کرنا پڑے گا، اپنے اوپر ڈسپلن نافذ کرنا ہو گا۔ یہ وائرس انسانی دماغ، معیشت اور کاروبار پر گہرے اثرات مرتب کرے گا، بہت کچھ بدل رہا ہے، بہت کچھ بدل جائے گا۔ ٹورازم کی صنعت، جہازوں اور کاروں کی افادیت،ریستورانوں کی اہمیت پر سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔کئی منظر بدل رہے ہیں‘ لیکن حضرتِ انسان اِن شاء اللہ اس آزمائش سے بچ نکلیں گے کہ ان کے خالق کو تو موت ہے، نہ نیند نہ اُونگھ... نہ اس سے بھاگا جا سکتا ہے نہ اس کا انکار کیا جا سکتا ہے، نہ اس کی رحمت سے مایوس ہوا جا سکتا ہے۔ والدہ مرحومہ، آغا حشر کی مناجات کے جو اشعار ہر صبح پڑھا کرتی تھیں، وہی میری زبان پر ہیں ؎
آہ جاتی ہے فلک پہ رحم لانے کے لیے
بادلو، ہٹ جائو، دے دو راہ جانے کے لیے
اے دُعا! ہاں عرض کہ عرشِ الٰہی تھام کے
اے خدا، رخ پھیر دے تو گردشِ ایام کے
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو ہمیں نہ بھول جا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)