''السلام علیکم میں ٹورنٹو سے بول رہا ہوں کیا عمران یعقوب سے بات ہو سکتی ہے ؟‘‘
میں نے اپنے موبائل فون پرکال سنی تو کال کرنے والے سے کہا:جی میں عمران یعقوب ہی بات کر رہا ہوں ،بتائیے آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ؟
''میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ایک پاکستانی بات کر رہا ہوں۔ میں گزشتہ دس سال سے اپنی فیملی کے ساتھ یہاں مقیم ہوں۔ فروری کے وسط میں میری بیوی کی والدہ‘ جو لاہور میں مقیم ہیں‘ کواچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹرز نے ان کا فوری طور پر بائی پاس تجویز کردیا، اپنی والدہ کی تیمارداری کے لیے میری بیوی 2 بچوں کے ساتھ ایمرجنسی میں پاکستان چلی گئیں جبکہ میں اور میری دو بیٹیاں‘ تینوں یہیں ٹورنٹو میں ٹھہر گئے۔ میری بیوی نے والدہ کے آپریشن کے بعد 2 اپریل کو اسلام آباد سے واپس ٹورنٹو آنا تھا۔ کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون اور فلائٹس کی بندش کی وجہ سے وہ فلائٹ کینسل کر دی گئی۔ صورتحال یہ ہے کہ میری بیوی دو معصوم بچوں کے ساتھ پاکستان میں پھنسی ہوئی ہے اورمیں اورمیری دو بیٹیاں‘ ہم تینوں پریشانی کے دن گزاررہے ہیں۔ اب جبکہ پی آئی اے کی جانب سے کچھ سپیشل فلائٹس کا بندوبست کیا گیا ہے تو اس میں بھی سفر کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ ہمارے پرانے ٹکٹ ریفنڈ نہیں کیے جا رہے بلکہ انتہائی مہنگے داموں اصل قیمت سے دوگنی تگنی قیمت پر نئی ٹکٹ خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خدا را آپ ہمارا یہ پیغام وزیر اعظم عمران خان اور ان کر دوست زلفی بخاری تک پہنچائیں کہ وہ ہمارے حال پر رحم کریں اور ہمارے مسئلے کا ہمدردانہ حل نکالیں۔
یہ کال سننے کے بعد میں نے جب اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل جاننے کے لیے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے رابطہ کیاتو دل دہلا دینے والے حقائق سامنے آئے ۔ کینیڈا سے مجھے کال کرنے والے اس پاکستانی بھائی کی فیملی اکیلی اس مشکل کا شکار نہیں‘ بلکہ اس وقت 5 ہزار سے زائد دوہری شہریت کے حامل کینیڈین پاکستانی اسی مشکل کا شکارہیں،میں ذاتی طور پر کئی ایسے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو کینیڈا، یورپی ممالک اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے اپنے پیاروں کو ملنے پاکستان آئے اور لاک ڈائون اور فلائٹ آپریشن کے معطل ہونے کی وجہ سے پھنس گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے کئی لوگ تو پوری پوری فیملیز کے ہمراہ یہاں پاکستان میں مقیم ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کی آدھی فیملی یہاں ہے اور آدھی وہاں۔ شوہر پاکستان میں ہے تو بیوی کینیڈا میں، بچے یورپ میں ہیں تو ماں پاکستان میں۔ کاروباراور نوکریاں سب کچھ دائو پرلگا ہوا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سپیشل فلائٹس کے نام پر ان محب وطن پاکستانیوں سے واپس جانے کا تاوان مانگا جا رہا ہے۔ امریکہ ، یورپ اور مڈل ایسٹ واپس جانے کے خواہش مند پاکستانیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ۔
وفاقی وزارت برائے سمندر پار پاکستانیز کے جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت 7خلیجی ممالک میں 90 ہزار سے زائد پاکستانی وطن واپسی کے منتظر ہیں۔ ان 90 ہزار پاکستانیوں میں سے 20 ہزار سے زائد ایسے پاکستانی ہیں‘ جنہیں ان کی ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متحدہ عرب امارات میں بھی 18 ہزار کے قریب ایسے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں‘ جنہیں ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ تقریباً 54 ہزار پاکستانی وہ ہیں‘ جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے یا پھرانہیں کام کرنے والے اداروں کی جانب سے تنخواہ یا بغیر تنخواہ چھٹی دے دی گئی ہے ۔ اسی طرح قطرمیں تقریباً 3700، عمان میں تقریباً 1100، عراق میں 600، کویت میں 500 اور بحرین میں تقریباً 400 پاکستانی وطن واپسی کے منتظر ہیں۔ خلیجی ممالک کے علاوہ ملائیشیا میں بھی تقریباً800 پاکستانی ایسے ہیں جو وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پھنسے ایسے پاکستانیوں کی تعداد بھی 700 سے زائد ہے جو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے یا کسی کام کے سلسلہ میں وہاں گئے تھے اور ابھی تک وہیں ہیں، یورپ سے واپس پاکستان آنے کے خواہش مند اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ترکی میں مقیم پاکستانیوں کا بھی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پھنسے ان پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد کے پاس نہ تو اب رہنے کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی کھانے پینے اور اپنا گزارہ کرنے کے لیے کوئی رقم۔
وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام حکمران اوورسیز پاکستانیوں کو ہمیشہ پاکستانیوں کا سفیر کہتے رہے ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم 1 کروڑ سے زائد پاکستانی وہاں محنت مزدوری کر کے 22/23 ارب ڈالر سالانہ زر مبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ ان 1 کروڑ پاکستانیوں میں سے 80 لاکھ پاکستانی قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں‘ جبکہ 25 لاکھ کے قریب پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ یہ افراد چھپ چھپا کر جو بھی کمائی کرتے ہیں وہ اس کا ایک بڑا حصہ زر مبادلہ کی صورت میں پاکستان بھجوا دیتے ہیں۔
گزشتہ برس جولائی میں جب حکومت کی کارکردگی اور اہلیت پر پاکستان میں کئی سوال اٹھائے جا رہے تھے اور بہت شور مچ رہا تھا تب بھی امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے کیپٹل ون ارینا میں ہمارے اوورسیز پاکستانی بھائی ہی تھے جو پاکستان اور پی ٹی آئی کے جھنڈے کو اسی جوش و جذبے سے لہرا رہے تھے‘ جیسے وہ اسلام آباد دھرنے کے موقع پر لہراتے تھے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اوورسیز پاکستانیوں سے نہ صرف خاص انس رکھتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ ہی ان کی پاکستان سے محبت اور لگائو کے معتقد رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کے دنوں سے لے کر آج تک یہی موقف رہا ہے کہ اوورسیز پاکستانی رہتے تو بیرونی ممالک میں ہیں‘ لیکن ان کے دل یہیں پاکستان میں دھڑکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس وزارت کے لیے بھی اپنے قریبی دوست اور خاص معتمد سید ذوالفقار بخاری المعروف زلفی بخاری کو چنا۔ زلفی بخاری کی تقرری کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب شاید اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت سنجیدگی سے نہ صرف اقدامات کرے گی بلکہ تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ان کو ووٹ کا حق بھی دیا جائے گا، لیکن کورونا کی آفت کیا آئی کہ اس نے زلفی بخاری اور ان کی وزارت کے تمام پول کھول کر رکھ دیے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے نہ صرف یہ شکوہ کیا جا رہا ہے کہ ان کے مسائل کے حل کے لیے وزارت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے بلکہ بہت سے لوگ پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات عملے سے بھی شاکی نظر آتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں‘ خصوصاً یورپ میں مقیم افراد کا مطالبہ ہے کہ زلفی بخاری اپنی وزارت اور اس کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کے بینک اکائونٹس میں پڑے اربوں روپے نکلوائے جائیں اور وہ اوورسیز پاکستانیوں پر خرچ کرتے ہوئے انہیں سپیشل چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچایا جائے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب پاکستان میں تحریک انصاف اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی تو اس وقت اوورسیز پاکستانی بھی اس کا مقدمہ لڑنے میں اس کا ہراول دستہ تھے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں اور ان کی سپورٹ کا کسی بھی محفل اور تقریر میں ذکر کرنا وزیر اعظم عمران خان صاحب شاید ہی کبھی بھولتے ہوں لیکن دنیا بھر میں دیگر افراد کی طرح کورونا کا وقت ان اوورسیز پاکستانیوں پر بھی بہت سخت آیا ہے اور اب ان کی نظریں اپنے وزیر اعظم اور ان کے مشیر زلفی بخاری کی جانب اٹھ رہی ہیں‘ جن کا مقدمہ وہ سالوں سے لڑتے آئے ہیں۔