نادار اور سفید پوش افراد کی کفالت سب
سے بڑی عبادت ہے: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نادار اور سفید پوش افراد کی کفالت سب سے بڑی عبادت ہے‘‘ اگرچہ میں کفالت کا درخواست گزار نہیں ہوں‘ تاہم ہر کوئی آ کر دیکھ سکتا ہے کہ میں سفید قمیص پہنے ہوئے ہوں اور سفید پوشوں کی حکومت کو از خود ہی کفالت کرنی چاہیے‘ جبکہ میری ناداری میں بھی کوئی شبہ نہیں‘ کیونکہ میرے جملہ اثاثوں پر بالآخر حکومت نے قبضہ کر لینا ہے اور میں نے نادار کا نادار رہ جانا ہے؛ چنانچہ حکومت کو پارٹی امتیاز کے بغیر ناداروں کا خیال رکھنا چاہیے ‘جبکہ اپوزیشن تو اقتدار کے بغیر ویسے ہی پرلے درجے کی نادار ہو چکی ہے‘ جبکہ میں نے کل سے نیچے سفید شلوار بھی پہننا شروع کر دینی ہے‘ تا کہ میری کم از کم سفید پوشی میں تو کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے نواز شریف کی صحت کے لیے خصوصی دعا کے لیے ایک پیغام نشر کر رہے تھے۔
حکومت کا ناکامی پر علما پر الزام لگانا درست نہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کا ناکامی پر علما پر الزام لگانا درست نہیں‘‘ اور خاکسار پر یہ الزام تو ہرگز درست نہیں‘ کیونکہ میں علماء میں شامل نہیں ہوں اور صرف تقریریں کر کر کے دل کی بھڑاس نکالا کرتا ہوں اور جب یہ بھڑاس ختم ہو گئی تو یہ سلسلہ طوعاً و کرہاً بند کر دوں گا؛ اگرچہ میری صحت پر اس کے نہایت ناگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اول تو میرے اندر بھڑاس کی جتنی تعداد جمع ہے ‘یہ ختم ہوتے ہوتے بھی کم از کم پچاس سال تو ضرور لے لے گی‘ جبکہ ایک آدھ ناغہ ہو جاتا ہے تو یہ بھڑاس مرے اندر ایسا اُدھم مچاتی ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے؛ چنانچہ میں آج کل اس بات پر بھی غور کر رہا ہوں کہ یہ اتنی بھڑاس آخر آئی کہاں سے ہے کہ مجھے تو یہ کورونا سے بھی زیادہ نقصان رساں معلوم ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کرپشن کے کورونا نے ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کیا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''کرپشن کے کورونا نے ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کیا‘‘ جبکہ نا اہلی اور نالائقی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور یہ نا اہلی بھی سابقہ حکومت کی کرپشن ہی کی وجہ سے ہے ‘کیونکہ اس کی وجہ سے ملک سے اہلیت اور لیاقت کا ویسے ہی خاتمہ ہو گیا تھا ‘جس کا قلع قمع کم از کم دس سال میں ہی ہو سکتا ہے‘ اس لیے قوم کو یہ دس سال بھی نکال لینے چاہئیں جب تک کہ اہلیت اور لیاقت واپس نہیں آ جاتیں اور جس کیلئے ایک اضافی وزارت قائم کی جا رہی ہے کہ ملک بھر سے ان عناصر کو تلاش کر کے حکومت کے سپرد کرے‘ تا کہ حماقت اور اہلیت کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا جائے‘ جبکہ فی الحال تو ہم توکل سے کام لے رہے ہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں عطیات دینے والی شخصیات کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار ؔاحمد کی یہ نظم:
چہل قدمی کرتے ہوئے---!
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش
بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی
صرف مہکتی ہے---
مٹّی سے لِپے گھروں میں
ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
انجان پانیوں کی جانب‘ نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں‘ لا متناہی عرصے کے لیے
پتّوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ
کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور اَبد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چپ کے عقب میں
بے خال و خد‘ الوہی ‘ گمبھیر
کہیں کوئی دن ہے
بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے
اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے
اور بجھے آتش دان کے پاس
بیٹھ جانا ہے
تمہارے مرجھائے چہرے کی چاندانی میں
کسی مٹیالی دیوار سے
ٹیک لگا کر---
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا