پاکستان نے ماضی میں فطرت کی کئی تباہ کاریوں کا سامنا کیا ہے‘ کئی اقسام کی بیماریوں سے پاکستانی سماج نبرد آزما ہو چکا ہے؛ تاہم کسی بھی وبا کا پھیلائو اتنے وسیع اثرات کا حامل نہیں تھا جتنے اثرات حالیہ کورونا وائرس کی لہر رکھتی ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کو اس عالمی وبا کے خطرات کو بھانپنے میں کچھ وقت لگا۔ کورونا وائرس مارچ میں پاکستان میں داخل ہوا اور اس کا ماخذ وہ پاکستانی بنے جو بیرونی ممالک سے واپس لوٹے تھے۔ تب پاکستان کے پاس وائرس ٹیسٹنگ کٹس، طبی ماسک اور وینٹی لیٹرز جیسی سہولیات بہت قلیل مقدار میں دستیاب تھیں ۔ قرنطینہ مراکز بھی بہت کم تھے۔ پاکستان نے مندرجہ بالا اشیا مارچ اور اپریل میں چین سے قسطوں میں حاصل کیں۔ کورونا مریضوں کیلئے مختص ہسپتالوں میں آئسولیشن سہولیات میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کورونا وائرس نے پاکستان میں حکومت کے زیر انتظا م چلنے والے نظام صحت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس حوالے سے لوگوں میں یہ احساس بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کہ پاکستان صحت کے نظام میں مزید لاپروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ اب یہ صرف صحت کا ہی نہیں‘ قومی سلامتی کا معاملہ بھی بن چکا ہے۔ اگر قوم صرف اس لیے صحت کے سنگین مسائل کا شکار بنتی رہی کہ علاج معالجہ کی مناسب سہولیات دستیاب نہ تھیں تو یقینا عوام کے لیے اندرونی سماجی ترقی اور سیاسی اتصال میں کردار ادا کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اندرون ملک میڈیکل سہولیات کی عدم دستیابی سماج کو گھن کی مانند چاٹ جائے گی۔
اب تک دنیا بھر میں اس وائرس کا مقابلہ کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہی سامنے آیا ہے کہ گھر پر رہا جائے، سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے اور قصبوں و شہروں کا لاک ڈائون کیا جائے۔ حکومت نے بھی یہی پالیسیاں بنا کسی تخصیص کے لاگو کیں۔ حکومت کی جانب سے متعین کردہ حدود کے اندر یہ قدغنیں سب پر نافذالعمل ہیں؛ تاہم آپریشنل سطح پر ان قدغنوں نے سماج کے غریب اور نچلے طبقات پر امرا کے مقابلے میں زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقات کیلئے جو اپنی روزی روٹی روز کے روز کماتے ہیں، معاشی امکانات بہت کم کر دیے ہیں۔
لاک ڈائون کے انہی غیر متوازن اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پاکستان کی مرکزی حکومت نے حالیہ دِنوں میں لاک ڈائون میں کچھ نرمی کی اور مقرر کردہ شرائط پورا کرنے کے بعد محدود کمرشل سرگرمیوں کی دوبارہ سے اجازت دی۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے ایک سو چوالیس ارب روپے کا ریلیف پیکیج بھی دیا؛ تاہم اب بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو اس ریلیف پیکیج سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ مرکزی حکومت اب ایسے لوگوں کی ایک اور فہرست بنانے پر کام کر رہی ہے جنہیں معاشی مدد فراہم کی جائے گی۔ صوبائی حکومتیں بھی اپنے نظام کے تحت خشک راشن فراہم کر کے سماج کے غریب طبقے کی مدد میں جُتی ہوئی ہیں۔ متاثرین کی مدد کا ایک اور ماخذ مخیر حضرات، فلاحی تنظیمیں، انسانی فلاحی گروہ اور مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو ان امدادی سرگرمیوں سے ریلیف ملا ہے؛ تاہم کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو نہ تو حکومتی اور نہ ہی غیر حکومتی امداد کے خواہاں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو کاروبار، دکان اور مزدوری کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایسے لوگوں‘ جن کی کمرشل سرگرمیوں سے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے‘ کے لیے بھی ایک یا دو ماہ کے بعد اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہو جائے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ایسے کارباری اداروں کو سٹاف کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے چار سے پانچ فیصد شرح سود کے ساتھ قرضے دے سکتے ہیں۔
پاکستان کا بجٹ و تجارتی خسارہ گزشتہ ایک سال میں کم ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفاقی حکومت نے بیرونی ممالک سے امپورٹ پر قدغنیں لگا رکھی تھیں؛ تاہم حالیہ عرصے میں ریلیف کے کاموں پر ہونے والے بھاری اخراجات، ٹیکس آمدنی میں کمی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ کے باعث ملک کومعاشی دبائو کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی کمیونٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی واپسی کو موخر کرنے کے علاوہ اضافی معاشی مدد فراہم کریں تاکہ یہ ممالک کورونا وائرس کے معاشی اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔ کچھ اور ممالک نے بھی یہی مدعا اٹھایا ہے۔ اب آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے قرضوں اور ان پر لاگو سود کو 2020کے لیے موخر کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو اس برس بارہ بلین ڈالر نہیں لوٹانے پڑیں گے۔ ورلڈ بینک دو سو ملین ڈالرسپورٹ فنڈ کی مد میں فراہم کرے گا۔ برطانوی حکومت پہلے ہی رضاکارانہ طور پر 2.670ملین پائونڈ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے دے چکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کی وجہ سے بھی پاکستان کو نمایاں ریلیف ملا ہے۔
قرض واپسی موخر کی گئی ہے، قرض معاف نہیں کیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے بہت سے رہنمائوں نے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، مطالبہ کیا تھا کہ قرض واپسی کو دو سے تین برس کے لیے ری شیڈول کرنے کے علاوہ کچھ قرضوں کو معاف کیا جائے یا کم از کم ان پر پڑنے والا سود معاف کر دیا جائے۔عالمی امداد ملنے کے بعد پاکستان کو کچھ ریلیف تو ملا ہے‘ لیکن یہ ہمارے معاشی و صحت کے مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے ہمیں دو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، ہم مستقبل میں سامنے آنے والے معاشی و طبی مسائل کے حل کے لیے مستقل بنیادوں پر بیرونی امداد پر بھروسہ کرتے رہیں اور جب کبھی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ پیدا ہو تو کشکول اٹھا کرمانگنے پہنچ جائیں۔ دوسرا، پاکستان میں صحت کا ایسا انفراسٹرکچر تشکیل دیں کہ ہمیں کسی بھی ایمرجنسی کی صورتحال، کسی انسانی و فطری خطرے، میں دوسرے ممالک کی جانب نہ دیکھنا پڑے۔ صحت کی ایسی سہولیات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہماری معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نہ ہو۔
ہمیں دوسرے آپشن پر کام کرنا چاہیے اور اپنے وسائل میں اتنا اضافہ کرنا چاہیے کہ ہماری ریاست و سماج عوام کی صحت کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ہمیں برطانوی وزیر اعظم کی قابل تقلید مثال کو سامنے رکھنا چاہیے کہ جب وہ کورونا وائرس کا شکار ہوئے تو اپنے علاج کے لیے امریکہ نہیں گئے۔ان کا علاج اسی نیشنل ہیلتھ سروس نے کیا جو عام برطانوی شہریوں کا علاج کر رہی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے لیے یہ ہمارا آئیڈیل ہونا چاہیے:صحت کی معیاری سہولیات سب کیلئے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مقامی وسائل میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان معاشی میدان میں خود مختار ملک بن سکے، علم کی ترویج پر زور دیا جائے، پیشہ ورانہ و تکنیکی مہارتوں میں اضافہ کیا جائے، ہر سطح پر کرپشن کو روکا جائے؛ اور بہتر معاشی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ معاشی سمت کے حوالے سے بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان خام مال مثلاً کپاس، چمڑے اور دودھ سے اضافی قدر والی مصنوعات بنانے لگے تو ہمارا تجارتی خسارہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو عالمی معیار کی پیکنگ کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ہمارے پھل، سبزیاں اور گوشت کی مصنوعات دیگر ممالک کو بھجوائی جا سکیں۔ اگر ان چیزوں اور ایسی دیگر اشیا کی جانب توجہ مرکوز کی جائے تو پاکستان اس پوزیشن میں آ سکتا ہے جہاں اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت نہ رہے۔
جب تک پاکستانی معیشت قابل ذکر حد تک اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی تب تک پاکستان میں صحت کے سرکاری نظام میں بہتری لانا ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم اس سوچ کی حوصلہ شکنی کریں جو عارضی طور پر مصیبت سے نجات کے لیے قرضوں اور امداد پر انحصار کرتا ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو نئی سمت دینے اورخام مال کی بجائے ویلیوایڈڈ اشیا کی ایکسپورٹ بڑھا نے پر توجہ دینی چاہیے ،معاشی نظم میں بہتری لانی چاہیے اور نئی تکنیکس کے حصول پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یقینا پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں پر انحصار ختم کر کے معاشی آزادی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمیں علم وتکنیکی مہارتوں کے میدان میں عالمی تعاون حاصل کرنا اور انسانی ترقی کے شعبے میں ساجھے داری کرنی چاہیے۔ ایشیا کے بہت سے ممالک دوسروں پر انحصار ترک کر کے خود انحصاری کی منزل پر پہنچے اور اب وہ باہمی فوائد کے حامل تعلقات کے حامل ہیں۔ پاکستان کو بھی کایا کلپ کی ایسی ہی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔