ہمارے ملک میں نجی الیکٹرانک میڈیا کی پُرجوش آمد اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں تقریباً ہر قسم کے میٹریل تک رسائی نے‘ والدین کے لیے بچوں کی تربیت کرنا بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔ جب یہ چیزیں نہیں تھیں تو والدین کو بچوں کی تربیت پر کافی کنٹرول ہوتا تھا۔ بچوں کے دوستوں پر ان کی نظر ہوتی تھی۔ ان کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ان کے بچے کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ چھپ چھپا کر کیا کچھ پڑھتے ہیں اس کا بھی والدین کو اندازہ ہوتا تھا۔ بچوں کی دلچسپیاں کیا ہیں وہ بھی والدین کے علم میں ہوتی تھیں۔ اب گزشتہ برسوں میں جو نئی صورتحال سامنے آئی ہے اس میں وہ بچے جن کو جدید دنیا کے قائم کردہ معلومات اور دیگر میٹریل کے بحر بیکراں تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے ،وہ تربیت کے حوالے سے آہستہ آہستہ اسی پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں والدین اور بزرگوں کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات بچے والدین کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس پر والدین کو بہت الجھن ہوتی ہے۔ اس الجھن کی وجہ یہ ہے کہ والدین کے پاس تجربہ اور دانش ہوتی ہے جبکہ بچے اپنے والدین کے تجربے اور دانش کی باتوں کو کم علمی سمجھتے ہیں۔ آئندہ برسوں میں اس صورتحال کے کیا نتائج نکلیں گے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سوشل سائنٹسٹ اس ضمن میں رہنمائی فراہم کردے لیکن اس وقت جو نتائج سامنے آ رہے ہیں ان کو مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس ماحول میں پرورش پانے والے ہمارے بچے جو مذہب کی طرف مائل ہوتے ہیں تو پھر انٹرنیٹ پر موجود مذہبی مواد ان کا استاد بن جاتا ہے جس کے بعد ایسے بچے کسی کی نہیں سنتے اور انٹرنیٹ پر موجود جو مذہبی مواد ان کے من کو بھاتا ہے اسی کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود مذہبی مواد میں تنوع تو بہت ہوتا ہے مگر اس میں مادر پدر آزادی موجود ہے اس کی وجہ سے ہر مذہبی نکتہ نظر کی حمایت اور مخالفت میں غلو کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے۔ یعنی اگر حمایت ہے تو حد سے بڑھ کر اور مخالفت ہے تو وہ بھی بے حد و حساب۔ بعض مواد اخلاقیات سے گرا ہوتا ہے اور ان میں گالیاں تک موجود ہوتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر یہ مادر پدر آزادی نوجوان ذہنوں کو بہت بھاتی ہے لہٰذا جس مذہبی فکر نے کسی نوجوان کو متاثر کیا ہوتا ہے وہ اسی فکر پر پکا ہوتا رہتا ہے کیونکہ اس کو انٹرنیٹ ہی کے ذریعے اسی فکر کا ترجمان مٹیریل مسلسل فراہم بھی رہتا ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان‘ انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے والے مواد کو نجات کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔ گھر میں تو ان کا معمول وہی ہوتا ہے۔ ماں باپ بہن بھائیوں سے تعلقات اسی طرح ہوتے ہیں مگر ان کے ذہن میں جو کچھ پل رہا ہوتا ہے اس کی گھر میں کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد کب وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے ہتھے چڑھ جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہمارے جو بچے مغربی تہذیب کی طرف جھکائو رکھتے ہیں ان کی تربیت کا بھی انٹرنیٹ پر بڑا موثر انتظام ہے۔ فرد کی آزادی کے درس موجود ہیں۔ انسانی نفسیات کی آڑ لے کر اس بات پر قائل کرنے والا وافر مواد موجود ہے کہ آپ کا ذہن آپ کا اپنا ہے‘ آپ کی سوچ آپ کی اپنی ہے اور آپ کا ہدف آپ کا اپنا ہے۔ روایتی اخلاقی اقدار کی نفی کر کے جدید مغربی تہذیب کی مادر پدر آزادی کا درس دیا جاتا ہے اور یہ تدریس محض لفظوں کی مدد سے نہیں ہوتی بلکہ ایسے ویڈیوز موجود ہیں کہ گمراہی کی منزل تک پہنچنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے مواد کے اسیر ہمارے نوجوان مذہب سے بالکل ہی باغی ہو جاتے ہیں۔ ان کے والدین اور بزرگوں میں سے کوئی ان کو نصیحت کرے تو مسکرا کر ٹال جاتے ہیں اور دل ہی دل میں اسی طرف مائل رہتے ہیں جس طرف انٹرنیٹ کی دنیا ان کو لے جانا چاہتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مغربی تہذیب کے اسیر ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت تو مذہب سے بیگانہ ہو کر زندگی گزارنے کی عادی ہو جاتی ہے مگر ان میں ایک عنصر اتنہا پسندوں کا ہوتا ہے۔ جس طرح مذہب سے رغبت رکھنے والے نوجوانوں میں سے کچھ مذہبی انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اسی طرح آزاد خیال بن جانے والے نوجوانوں میں سے کچھ زیادہ ہی آزاد خیال ہو جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں بھی ویسی ہی مادر پدر آزادیوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں جیسی کہ مغربی دنیا میں پائی جاتی ہیں اور اگر ایسے نوجوانوں کو کسی مغربی ملک میں جانے کا موقع مل جائے تو وہ اس کا عملی ثبوت فراہم کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ تازہ مثال یہ ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں 34 سالہ ریحانہ کوثر اور 29 سالہ ثوبیہ قمر نے برطانیہ کی LEEDS کائونٹی میں اس مہینے کے آغاز میں وہاں کے قانون کے مطابق آپس میں شادی کر لی۔ اخبار \"The Independent\" کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کے فوراً بعد برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے دی ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں برمنگھم میں پڑھتی تھیں اور رجسٹرار کے سامنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ سائوتھ یارک شائر میں وہ ایک برس سے ایک ساتھ رہ رہی تھیں۔ جن نوجوانوں کی تربیت کا سہرہ انٹرنیٹ کے سر ہوتا ہے وہ ایسے ایسے گل کھلاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں جس زور و شور سے ہم جنس پرستی بڑھ رہی ہے اس کی وجہ ابھی تک میری سمجھ میں تو نہیں آ سکی۔ اسّی کے عشرے میں پانچ برس تک میں امریکہ میں رہا ہوں۔ اس وقت تو ایسا ماحول نہیں تھا بلکہ شروع میں سمجھا جاتا تھا کہ ایڈز (Aids) کی بیماری ہم جنس پرستی سے پھیل رہی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں اتنی بڑی معاشرتی تبدیلی آئی ہے کہ بڑے بڑے سیاسی رہنما‘ ہم جنس پرستوں کی باہمی شادیوں کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ ان شادیوں کے حق میں قوانین بن رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال فرانس کی ہے جہاں ایسی شادیوں کے قانون کے خلاف مظاہرے بھی جاری ہیں لیکن اکثریتی ووٹ سے قانون تو منظور ہو چکا ہے۔ اب Cannes کے فلمی میلے میں گزشتہ اتوار کے روز جس فلم کو پہلا انعام ملا ہے وہ بھی ہم جنس پرستوں کی ترجمان فلم سمجھی جاتی ہے۔ La vie d\'Adele نامی اس فلم میں دو ایکٹرسوں کے درمیان ہم جنس پرستی کے دس منٹ طویل منظر کو معروف امریکی فلمساز Steven Spielberg نے انعام دینے والی جیوری کے سربراہ کی حیثیت سے سراہا اور کہا کہ ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ایکٹریسیں بھی Palme d\'Or نامی اس ایوارڈ کی حقدار ہوں گی جو دنیا بھر میں آسکر کے بعد سب سے بڑا فلمی ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ قوم لوط کی ترجمان اس فلم کے ہدایتکار کا نام دیکھیے۔ عبداللطیف کجیشی‘ ہیں تو فرانس کے شہری مگر پیدا تونس میں ہوئے۔ نام سے اندازہ کر لیں کہ ماں باپ کا مذہب کیا رہا ہوگا۔ موصوف نے انعام جیتنے کے بعد فرانس میں ہم جنس پرستی کی شادیوں کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان کی فلم دیکھ کر ہم جنس پرستوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved