تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     28-04-2020

دیر آید درست آید!

سائنسی و مادی ترقی سے مالامال دنیا بھر کے تگڑے تگڑے ممالک یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے دنیا مسخر کرلی ہے‘ لیکن کورونا وائرس نے ان تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی اور تمام ریاستیں اس وبا کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں اور کورونا وائرس اس وقت سب پر بھاری ہے۔ تاحال اس وبائی مرض کا کوئی علاج تلاش نہیں کیاجاسکا اور نہ ہی کوئی دوا تریاق کے طور پر اثر کررہی ہے۔چین‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ جرمنی اور پاکستان کے ماہرین کورونا کو شکست دینے کے لیے ریسرچ میں مصروف ہیں اور انسدادِ کورونا ویکسین تیار کررہے ہیں‘ کچھ ممالک نے دعویٰ کیاہے کہ وہ کامیابی کے قریب ہیں ‘لیکن تاحال یہ دعویٰ کتابوں اور بیانات تک محدود ہے۔
پاکستان میں ہمارا ہیلتھ سسٹم اور عوام کو میسر طبی سہولیات کسی سے ڈھکی چھپی تو پہلے بھی نہیں تھیں‘ باقی رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی اور ہم اور ہمارا نظام خاص طور پر حکومتی اور انتظامی ڈھانچہ بْرے طریقے سے بے نقاب ہوا اور معلوم ہوا کہ اس وبا‘ بلکہ یوں کہیے کہ کسی بھی ناگہانی صورت سے نمٹنے کے لیے ہماری ریاست کے پاس کوئی لائن آف ایکشن نہیں ہے‘ کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہے‘ کوئی ایک ایسا فورم نہیں جہاں پر اس نوعیت کی خطرناک صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک چھت تلے بیٹھ کر اتفاق رائے سے فیصلے کرسکیں‘ خاص طور مرکزی سطح پر تو کسی کے پاس اتھارٹی ہی نہیں رہی کہ وہ اس صورتحال میں کْچھ کرسکیں۔مرکز کی سمت مشرق ہے تو سندھ مغرب کی طرف پیش قدمی کررہا ہے‘ پنجاب اپنے فیصلے کررہا ہے‘بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی کْچھ ایسی ہی صورتحال بنی ہوئی ہے۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مرکز اور صوبے دست وگریبان تھے اور آج تک ہیں کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہونا چاہیے تو کس قدر ہونا چاہیے؟ لوگوں کی مدد کیسے کی جائے مالی مدد مرکز کرے گا یا صوبے کریں گے اور طریقۂ کار کیا ہوگا؟اپنی کمزوریوں کوتاہیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی گئی‘ گویا ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہے ‘مرکزی اور صوبائی وزرا اور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے بیانات داغتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کورونا پاکستان کا اندرونی سیاسی مسئلہ بن چکاہے اور اس کا طب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آئینی اصلاحات کے نام پر آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور کی‘ دیگر چھوٹی اور علاقائی جماعتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور بیشمار محکمے مرکز سے لے کر صوبوں کے حوالے کردئے گئے‘ جن میں تعلیم اور صحت بھی شامل تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کو ان بڑی جماعتوں نے پاکستان کی آئینی اصلاحات کی تاریخ میں ایک بڑا انقلابی قدم قرار دیا اور عوام کو یہ بتایا گیا کہ بس اس ترمیم کے بعد اب صوبوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی ‘ عوام بااختیار ہوں گے اورعوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے‘لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت کسی بھی صوبائی حکومت نے اپنے صوبوں میں اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا‘ جس سے عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جاتے‘مگر یہ فرق ضرور پڑا کہ صوبوں کی وزارتوں میں اور وزیروں میں اضافہ ہوگیا۔
دنیا بھر کے ممالک میں کورونا سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومتیں پالیسیاں بنا رہی ہیں‘ فیصلے کررہی ہیں اور ان پر مؤثر عملدر آمد ہورہا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں اس پر بھی لڑائی‘ الزامات اور گالم گلوچ ہورہی ہے۔اس سارے معاملے میں اگر کوئی قابلِ رحم ہے تو وہ یہاں کے عوام ہیں۔صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے فوری طور پرایک نیا ادارہ'' نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر ‘‘بنانا پڑا‘ جہاں کورونا صورتحال سے نمٹنے کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتیں باہم رابطے میں ہوتی ہیں‘ ورنہ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جو بدترین ورکنگ ریلیشن شپ ہے‘ خدا کی پناہ۔ان حالات میں یہ ناچیز بھی یہی سوچتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن میں سب کْچھ دیاہے‘ اچھے موسم‘ مزیدار پھل‘ وافر اجناس‘ زراعت ‘انڈسٹری ‘جوہری طاقت ‘سب کْچھ ہے ہمارے پاس‘ بس نہیں ہے تو اتحاد نہیں ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں تحفظات تو پہلے ہی سے تھے‘ لیکن اس مقدس ترمیم کے خلاف بات کرنا تو درکنار ‘اس کی شان میں کوئی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ہفتے کے روز ایک اہم عہدے پر براجمان شخصیت سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی کْچھ اس طرح کے خدشات اورتحفظات کا اظہار کیا کہ اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان کے ریاستی اور انتظامی ڈھانچے کو بہت کمزور کردیا ہے اور کورونا کے بعد تو یوں لگ رہا کہ پاکستان اب بے ہنگم اکائیوں کا ڈھیلا ڈھالا سا اکٹھ ہے‘ جن کا اب بڑا کوئی نہیں ہے اور بے بزرگ اولاد کا کنبہ ہے۔اگر خدانخواستہ کوئی اور سنجیدہ چیلنج آگیا تو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوگا اور انار کی پیدا ہوگی۔میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا اور کہا کہ تو پھر دیر کس بات کی ہے ‘اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کیوں نہیں کی جارہی؟فاضل شخصیت نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کورونا سے ایک اچھی امید اور سوچ نے جنم لیا ہے‘ پہلے تو کوئی سننے کوتیار نہیں تھا ‘لیکن اب اس پر عملی ایکسرسائز شروع ہوچکی ہے اور اٹھارہویں ترمیم سمیت این ایف سی ایوارڈ پر بھی نظرِ ثانی کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان با معنی بات چیت شروع ہوچکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ایک مؤثر دھڑے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی مثبت اشارے ملے ہیں۔میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حوصلہ رکھیں اور بہتر نتائج کی امید کریں۔ ملاقات کے بعد میں نے کْچھ فون کیے تو معلوم ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطے ہوچکے ہیں اور آئینی اصلاحات پر خاموشی سے ابتدائی کام شروع ہوچکا ہے ‘لیکن اس کی کامیابی کا انحصار پس پردہ ہونے والے مذاکرات اور خاص طور پر اپوزیشن کی طرف سے طلب کی گئی سیاسی مراعات پر ہوگا‘ کہ حکومت کس قدر اس میں لچک کا مظاہرہ کرتی ہے‘ خاص طور پر زرداری فیملی اور شریف فیملی کی مشکلات میں کمی کرنا ہوگی۔لیکن ہماری معلومات کے مطابق اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہوئی تو اسے دور کرنے میں مقتدر حلقے اہم کردار ادا کریں گے‘ کیونکہ ریاست پاکستان کو بے بزرگ نہیں چھوڑا جاسکتا۔
چلتے چلتے‘ خبر آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹیم میں اہم ترین تبدیلی کردی ہے اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ بڑے زورو شور سے حکومت کا دفاع کرتی تھیں‘ لیکن انہیں پی ٹی آئی کے اندرونی حالات کا شکار ہونا پڑگیا۔سینیٹر شبلی فراز کو نیا وفاقی وزیراطلاعات مقرر کیاگیا ہے‘ جو سو فیصد پاکستان تحریک انصاف کا فیس ہیں اور منتخب بھی ہیں‘جبکہ پاک فوج کے سابق ترجمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) ر عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم نے اپنا معاون ِخصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا ہے‘ جن کو غالب امکان ہے کہ میڈیا سٹریٹجی بنانے اور حکومت کے بیانیے کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کا فریضہ سونپاجائے گا۔بلا شبہ دونوں تقرریوں سے وزیراعظم کی ٹیم مضبوط ہوگی ‘بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وزیراعظم دیر آید درست آید!اگر عمران خان صاحب مزید اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو ایسی چند اور تبدیلیاں لے آئیں‘ یقیناً اس سے مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved