تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-04-2020

کورونا‘میڈیکل سائنس اور عطائیت …(1)

کیا آپ کو ''انجینئر ‘‘آغا وقار یاد ہیں ؟ ایک شخص پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوام تو کجا‘ ٹی وی میزبان بھی اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں ۔ وہ ''انجینئر‘‘ صاحب کی ''پانی سے چلنے والی ‘‘گاڑی میں سفر کرتے ہیں ۔ وفاقی وزیر بھی اس میں جھولے لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسا کوئی سائنسدان کہتا بھی ہے کہ یہ ایک فراڈ ہے‘ تو دنیااُلٹا انہیں برا بھلا کہتی ہے ۔ سب اس کامیابی کے خمار میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں ‘ پھر ڈاکٹر ثمر مبارک مند نمودار ہوتے ہیں ۔ وہ انجینئر صاحب کی گاڑی کا جائزہ لیتے ہیں ‘ سوالات کرتے ہیں ؛ جلد ہی انجینئر صاحب کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونے لگتا ہے ۔ 
اب ‘ڈاکٹر ثمر مبارک مندبتاتے ہیں کہ انجینئر صاحب پانی میں سے ہائیڈروجن نکالنے کے لیے اس میں ایک کیمیکل ڈال رہے تھے ۔ اس کیمیکل کی لاگت پٹرول سے بھی مہنگی ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ انجینئر صاحب یا اس جیسے عطائیوں کا کام کتنا آسان ہے ۔ انہیں وہ بات کرنا ہے ‘ جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور جیسے ہی وہ یہ بات کرتے ہیں تو لوگ بھنگڑے ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں‘ دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کام کس قدر مشکل ہے ۔ انہیں وہ بات کرنا ہے ‘ جو ایک سنگین اور کڑوی حقیقت ہے ۔ لوگ یہ سنگین حقیقت اور کڑوا سچ نہیں سننا چاہتے ‘لوگ فوری ریلیف چاہتے ہیں ‘لوگ کورونا وائرس سمیت ہر بیماری سے فوری ریلیف چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف عطائیوں کی چاندی ہے ۔ پانی سے گاڑی چلانے کا فراڈ ماضی میں بہت سے ممالک میں ہو چکا ہے ۔ اور تو اور ''انجینئر‘‘ آغا وقار نے ایک دن ٹی وی پر بیٹھ کر ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب سے یہ سوال کیا کہ میں نے تو پانی سے چلنے والا انجن ایجاد کیا ہے ‘ آپ نے آج تک کیا ایجاد کیا ہے ؟ ایک فراڈیا ایک سائنسدان سے یہ سوا ل کر رہا تھا ۔ عوام اور میڈیا کی ہمدردیاں فراڈیے کے ساتھ تھیں ۔ 
یہ ہے وہ دنیا ‘ جس میں عطائیوں کی چاندی ہے ‘ جبکہ ماہرین اور سائنسدانوں کی بات لوگ سننا نہیں چاہتے ۔آپ ڈاکٹر عطاء الرحمن سے پوچھیں کہ کورونا ویکسین تیار کرنے میں کتنا وقت درکار ہے ؟ وہ آ پ کو بتائیں گے کہ ''کئی سال ‘‘ ۔جن سائنسدانوں کے پاس سپر کمپیوٹر موجود ہیں ‘ وہ ہزاروں کیمیکلز کو کورونا وائرس پہ ڈال کر اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں ۔وہ سب کہہ رہے ہیں کہ ایک دو سال لگیں گے کورونا کی ویکسین ایجاد کرنے میں اور اسے ساری دنیا میں پہنچانے میں ۔ 
ایک دن لاہور کی معروف لیب میں جانا ہوا‘ اگر آپ تشخیص کرنے والی مشینوں او رآلا ت کو دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ تشخیص کی ایسی ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ جو انسانی خلیات کے اندر موجود بیماری تک جا پہنچتی ہے ۔آپ اپنے جسم میں ‘ خون ‘ہڈیوں اور نروز کے اندر تک جھانک سکتے ہیں ۔آپ کو پتا ہے کہ جو سائنسدان ہیں اور جو ایلوپیتھک ڈاکٹر ہیں ‘ وہ روزانہ کی بنیاد پر قوم کو کورونا وبا کا علاج دریافت ہونے کی خوشخبری کیوں نہیں سنا رہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عمارت تعمیر کرنے کے لیے پہلے بنیاد کھودنا پڑتی ہے ۔ سریے کے کالم بنتے ہیں ۔ دیواریں اٹھائی جاتی ہیں اور پھر کہیں سال چھ مہینے بعد جا کرلنٹر ڈلتا ہے ۔ اب ‘جو لوگ پہلے دن ہی چھت ڈال دینے کا دعویٰ کر رہے ہوں‘ آپ خود بتائیں کہ وہ کتنے بڑے جھوٹے ہوں گے ؟عطائی صاحبان کو لیپ ٹاپ استعمال کرنا بھی نہیں آتا ہو گا‘لیکن وہ کورونا وائرس کی دوا بنا کر لوگوں کو کھلا رہے ہیں اور انہیں شفایاب کر 
رہے ہیں ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہو ں کہ اگر خدا کی طرف سے ہر جاندار کے جسم میں امیون سسٹم نہ لگا ہوتا اور علاج مکمل طور پر دوا پر منحصر ہوتا تو یہ سارے عطائی اس وقت جیل میں ہوتے۔ ہوتا یہ ہے کہ امیون سسٹم بیماری کے خلاف انتہائی خوفناک جنگ لڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کھربوں جانور جو جنگلات میں ہیں اور جنہیں آج تک کسی ڈاکٹر نے دیکھا بھی نہیں‘ ان کی اکثریت دس دس سال تک زندہ رہتی ہے ۔ آج بھی پاکستان میں 98فیصد سے زیادہ لوگ جو کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں ‘ وہ اسی امیون سسٹم کے بل پر لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جاتے ہیں ‘ جبکہ مسئلہ صرف 2فیصد سے کم لوگوں کا ہے ‘ جو بیمار ہیں ‘ زیادہ بوڑھے ہو چکے یا جن کا امیون سسٹم کمزور ہے۔ 98فیصد لوگ جو از خود ٹھیک ہوجاتے ہیں ‘ یہی وہ لوگ ہیں ‘ جنہیں عطائی اپنی دوا سے ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ الغرض ان دنوںکورونا وائرس نے تو عطائیوں کی چاندی کرا دی ہے ۔ گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک ہستی کی زیارت کا موقع ملا۔ انہوں نے فون پر میرے والد صاحب کو یہ خوشخبری سنائی کہ میں نے کوروناوائرس کا علاج دریافت کر لیا ہے (اور اب‘ انسانیت کی خدمت کے لیے بے تاب ہوں ۔ کئی عطائی کورونا وائرس کافائدہ اٹھاتے ہوئے ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے اور یہ صاحب بھی غالباً ان میں شامل ہونا چاہتے تھے ) ۔ایسا ہی ایک عطائی 
دو ہفتے قبل ایک مشہور ٹی وی پروگرام میں نمودار ہوا ۔ کہا کہ ''کالے گنڈے‘‘ اور دیسی غذائوں سے کورونا کا علاج ممکن ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ قرآن میں ویکسین کا ذکر کہیں نہیں اور چین نے بھی کورونا کا علاج دیسی غذا سے کیا ہے ۔ بندہ ان سے پوچھے کہ قرآن میں تو انٹر نیٹ کاذکر بھی نہیں ہے ۔ سمارٹ موبائل فون کا ذکر نہیں ہے ‘ کیمرے کا ذکر نہیں ہے ‘موٹر سائیکل کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن انسائیکلو پیڈیا تو نہیں کہ لازماًاس میں ہر ایجاد کا ذکر ہو ۔قرآن میڈیکل سائنس کی کتا ب نہیں۔ قرآن‘ مخلوق سے خالق کا خطاب ہے ۔اس میں عبادت کا مطالبہ ہے ‘ سود کو حرام قرار دیاگیا ہے ‘ تخلیق ِ کائنات پر بھی آیات موجود ہیں ‘لیکن یہ سائنس کی کتاب ہر گزنہیں ہے ۔ دوسرا جھوٹ بھی دلچسپ ہے کہ چین والوں نے دیسی غذائوں سے علاج کیا۔ چین والوں نے لوگوں کو ان کے گھروں میں بند کر کے آئسو لیشن سے ایجاد کیا۔ہر بندے کا ٹیسٹ کیا اور بیماروں کو الگ کر دیا۔ لوگوں کی ایک عظیم اکثریت اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے ٹھیک ہوئی ۔ دیسی غذائیں کھانی چاہئیں ۔ بیمار شخص جنک فوڈ تو کھا نہیں سکتا۔ اس کے بعد جب چین میں دو ویکسینز تیار کی گئیں اور انہیں آزمانا شروع کیا گیا‘ تب سے پاکستانی عطائیوں کی بولتی کچھ کچھ بند ہے ۔ بارِ دگر فلک شگاف آواز میں عرض کرتا ہوں : Cureویکسین ہے ؛ جیسے پولیو اور تپ دق کی ویکسینز نے ان بیماریو ں کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے ۔ تومجھ سے اور میرے والد ِ گرامی سے وہ صاحب فرمانے لگے ‘ جن کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ ایک کوالیفائیڈ حکیم ہیں کہ میں کینسر کی آخری سٹیج پر کھڑے ہوے مریضوں کا دنوں میں علاج کردیتا ہوں ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ڈینگی کی دوا بھی موجود تھی ۔ وہ دل کے بھی ماہر تھے اور دماغ کے بھی ۔ ان کے پاس برین ٹیومر کا علاج بھی سرجری کے بغیر موجود تھا۔ ان کے پاس مرگی کا علاج بھی موجود تھا ۔ صرف ایک چیز کی ضرورت تھی ‘ جو کہ ان کے پاس موجود نہیں تھی اور وہ تھی قومی میڈیا تک رسائی ۔ ایک بار انہیں یہ رسائی مل جاتی تو بس پھر مخلوق نے ٹوٹ پڑنا تھا۔ (جاری )

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved