تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     29-04-2020

کورونا کے دنوں میں رمضان

حالیہ کچھ عرصے کے دوران کورونا وائرس نے ساری دنیا میں تباہی مچا دی ہے۔ معیشت کا پہیہ رک چکا ہے اور انسانی مصائب کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو تھمنے میں نہیں آ رہا۔ اپنے تمام تر اجتماعی وسائل‘ سائنس اور دانش کے باوجودہم اس بات کا سراغ پانے میں ناکام ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے نکلا‘ کب تک یہ موجود رہے گا اور کتنی جانوں کا خراج وصول کرے گا؟ ہمیں بالکل پتہ نہیں کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے گا یا کب اور کیسے اس کا علاج ہوگا۔ اس عالمی وبا کے ارد گرد موجود تمام تر غیر یقینی کے ماحول میں صرف ایک چیز یقینی ہے کہ کورونا وائرس اور اس کے اثرات ساری دنیا میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیں گے اور غریب اور امیر کے مابین خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔ اس معاشی نا انصافی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی غربت اب ایک عالمی مسئلہ ہے‘ لیکن اس کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں اپنا رنگ سب سے زیادہ دکھائیں گے اور رمضان المبارک کے بعد تک ساری مسلم دنیا اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔
پاکستان میں سماجی فاصلوں والے ماہِ صیام کا تصور بھی محال ہے‘ کیونکہ ہمارے ہاں رمضان میں عبادتیں اجتماعی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ایک اور چیز بھی اس ماہ قابل ِغور ہوگی کہ کتنے لوگ کسی بھی مشہوری کے بغیر ضرورت مندوں تک پہنچ کر ان کی مدد کریں گے؟ یقینا ہم سب لوگ ممکنہ حد تک فلاحی تنظیموں اور حکومتی امدادی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں‘ لیکن امداد کی اصل روح کسی فلاحی تنظیم کے ذریعے سے نہیں پائی جا سکتی ‘یہ تو اپنے گھر کے بالکل قریب سے شروع ہوتی ہے ‘بلکہ اپنے گھر ہی سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔مگر وہ لوگ جنہیں گھروں میں حقارت کے ساتھ ''ملازم‘‘ (اگر نرم لفظ برتے جائیں تو ''گھریلو مددگار‘‘ ) پکارا جاتا ہے کیا ان کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ہے؟ کیا انہیں اور ان کے پیاروں کو وہ سب نصیب ہوگا جو اس کورونا سے متاثر رمضان میں گزارے کے لیے انہیں درکار ہے؟کیا ہم انہیں اتنی تنخواہ دیتے ہیں جتنا ان کا حق بنتا ہے؟کیا ہمدردی اور امداد دینے کا ہمارا احساس اس مشکل وقت میں ان کے مصائب میں کمی لانے کے لیے جاگے گا؟ 
جب ہم اپنے سماج میں کم از کم بنیادی شے کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے اسے قانونی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس میدان میں پاکستان کے پاس دو بنیادی قوانین ہیں‘کم از کم تنخواہ کا آرڈیننس 1961ء تمام صنعتی اداروں کے ملازمین پر جس کا اطلاق ہوتا ہے‘ لیکن اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت کان کنی یا زراعت پیشہ اشخاص شامل نہیں۔ دوسری جانب 1969ء کے آرڈیننس کے (سیکشن 3 کے تحت) یہ کسی بھی کمرشل یا صنعتی ادارے کے مالکان کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ملازم کو کم از کم تنخواہ کی ادائیگی کریں (جو اس آرڈیننس کے شیڈول میں مذکور ہے) ۔ اس میں وہ اشخاص شامل نہیں جو سروس آف پاکستان‘ دفاعی خدمات‘ بندرگاہوں‘ ریلوے‘ ٹیلی گراف و ٹیلی فون‘ پوسٹل سروسز‘ فائر فائٹنگ‘ بجلی‘ گیس‘ پانی سپلائی اور ہسپتال سے متعلق ہوں۔مزید برآں اس آرڈیننس کے تحت آجر کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر اس کا ادارہ اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے اجیروں کو رہائشی سہولت یا ٹرانسپورٹ مہیا کرتا ہے تو وہ اس کم از کم تنخواہ میں سے کٹوتی کر سکتا ہے۔ان قوانین کے تحت حکومت (وفاقی اور صوبائی) کم از کم تنخواہوں کا تعین کرتی ہے۔ 2019-20ء کے بجٹ میں‘ وفاقی حکومت نے کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے سے بڑھا کر سترہ ہزار پانچ سو روپے مقرر کی تھی۔
اب ہم اس مسئلے کی جانب آتے ہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے: یہ بات نظر انداز کر دیں کہ ان سترہ ہزار پانچ سو روپوں میں کوئی شخص کیسے پانچ افراد کا کنبہ پالتا اور بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہوگا‘اصل بات یہ ہے کہ اَن گنت دیہاڑی دار مزدوروں‘ نجی ملازمین یا گھریلو ملازمین کے لیے تویہ اعداد کوئی معنی ہی نہیں رکھتے کہ یہ لوگ انفرادی سطح پر سیٹھ کے ضمیر سے اس کی گاڑی چلانے کی تنخواہ یا اُجرت طے کرتے ہیں ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان نجی ملازمین پر بھی کم از کم تنخواہ کے قوانین لاگو ہوں۔ حکومتی دائرہ اثر بڑا بھی پھیلا ہو تو یہ صرف ان اداروں تک محدود رہ جاتا ہے ‘جو ریاست خود چلاتی ہے یا جنہیں چلانے کے لیے وسائل مہیا کرتی ہے۔ریاست کی عدم سنجیدگی کا ثبوت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعدادو شمار کے مطابق لاہور میں صرف پندرہ لیبر انسپکٹر کام کر رہے ہیں ‘ جبکہ پورے صوبہ پنجاب میں ان کی کُل تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔کیا ممکن ہے کہ وہ صوبہ جس کی آبادی تقریباً گیارہ کروڑ کے قریب ہواور جہاں ہزار ہا چھوٹی صنعتیں‘ دکانیں اور تجارتی ادارے ہوں‘وہاں ایک سو لیبر انسپکٹر (کم ترین وسائل کے ساتھ) اس قابل ہوں گے کہ وہ کم از کم تنخواہ کے قوانین پر عملدرآمد کرا سکیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ بطور ِقوم ہم کم از کم تنخواہ کے ان قوانین کو فکس کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اور یوں دیکھا جائے تو ہم سماج میں کم از کم معیار زندگی میں کمی کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں؛اگرچہ حکومتیں احساس پروگرا م جیسے منصوبوں کے ذریعے مستقل بنیادوں پر اس کاوش میں جُتی رہتی ہیں کہ غربت کم کی جائے‘ تاہم کیا کسی حکومت کا مطمع نظر یہ بھی ہے کہ نجی شعبے کے اداروں کو ان ذمہ داریاں کو پورا کرنے پر مجبور کیا جائے ‘جو ان کے ملازمین کی جانب سے ان پر عائد ہوتی ہیں؟
اگلا سوال: کیا صرف حکومت کو اس کے لیے الزام دہ ٹھہرایا جائے یا اس گناہ میں ہم سب بدرجہ اتم شامل ہیں؟آئیے ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ ہماری حکومتیں (وفاقی اور صوبائی) نااہل اور ناکام ہیں‘چلیں یہ بھی تسلیم کرلیں کہ یہ سب کچھ ایسے ہی رہے گا‘ چاہے کوئی بھی جماعت برسر اقتدار آ جائے ‘ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کاکوئی شخص جو دولت اور تعلیم کے لحاظ سے خوش نصیب ہے‘ اس کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں‘ صرف اس لیے کہ حکومت کے پاس اہلیت نہیں کہ وہ کم از کم تنخواہ کو لاگو کرا سکے؟ تو کیا اس سے ہمیں یہ حق مل جاتا ہے کہ ہم اپنے خانساماں‘ یا ڈرائیور‘ یا صفائی کرنے والے‘ یا گارڈ کو ممکنہ حد تک کم تنخواہیں دیں؟ کیا لازمی ہے کہ ہم اپنی پر شکوہ کوٹھیاں اور فارم ہائوس بنائیں تو ان میں بنائے جانے والے سرونٹ کوارٹرکمتر درجے کے باتھ روموں کے ساتھ بنائے جائیں؟ کیا ہمیں بہر صورت اس حقیقت کی جانب سے اپنی آنکھیں بند رکھنی چاہئیں کہ جو لوگ ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں یا ہمارے لیے خدمات سر انجام دیتے ہیں ‘ ان کے بھی بچے ہیں‘ جنہیں پیسے کی کمی بنیادی تعلیم سے بھی محروم رکھتی ہے‘ وہ بنیادی تعلیم جس کا کل خرچ شاید کسی ریستوران میں ہمارے ایک وقت کے کھانے کے مساوی بھی نہ ہوتا ہو۔اور سب سے اہم بات کیا کورونا جیسے توجہ طلب وقتوں میں بھی ہمیں اپنی سنگدلی برقرار رکھنی چاہیے؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے قومی ضمیر کو بنیادی حقوق کی عمودی تشریح (جہاں ہر شہری آئین کے تحت اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ صرف ریاست سے کرتا ہے)کی بجائے افقی طرز پر لائیں(جہاں ریاست سے قطع نظر ہر شہری دوسرے شہری سے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر سکتا ہے)۔ اور سب سے بڑھ کر یہ چیز متقاضی ہے کہ ہمارے اندر روحانی تبدیلی جنم لے۔لامحالہ طور پر تاریخ اور الوہیت کسی بھی سماج کے کردار کا تعین اس چیز سے ہی کرتی ہے کہ اس سماج میں غربا‘ پچھڑے ہووئوں اور بے یار و مددگار لوگوں سے کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے‘خصوصاً مشکل اوقات میں۔ اس وقت ہم بطور سماج ان لوگوں کے گناہگار ہیں‘جو گھریلو سطح پر ہمارے مددگار ہیں اور ہم پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔جب تک ہم پر یہ داغ موجود ہے اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے کتنے روزے رکھے یا تراویح ادا کیں۔ صرف ان پسے ہوئے طبقات کی جانب اپنے رویے میں تبدیلی لاکر‘ خصوصاً کورونا سے متاثر رمضان کے دوران‘ ہم یہ گتھی سلجھا سکتے ہیں کہ ہم ہیں کون اور کیا بننے کی چاہ رکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved