تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     29-04-2020

دانش وری کا عذاب

حضور دانش مند صاحب! پھر آپ ہی بتا دیں کہ عذاب کیا ہوتا ہے؟ہوتا بھی ہے کہ نہیں ؟ اس نام کی کوئی چڑیا ‘کبھی تاریخ میں پائی جاتی بھی ہے یا بس کہانیاں ہیں؟یہ جو صحائف میں فرمایا گیا ہے کہ فلاں شخص پر اللہ کا عذاب آیا ‘ فلاں قوم کی اللہ نے پکڑ کی ‘فلاں بستی پر عذاب نازل ہوا ‘ تو یہ عذاب کیا ہوتا ہے ؟کوئی عذاب کبھی تھا بھی کہ نہیں تھا؟اگر تھا تو اس کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں ؟یہ اسباب کے ساتھ ہوتا ہے یا بلا سبب؟اس کی کوئی زمینی واقعاتی توجیہہ ہوتی ہے یا بلا توجیہہ کے نازل ہوا کرتا ہے؟ہم تو سمجھ نہیں پائے ۔ ہم کیا پوری قوم کیا ‘ پوری ملت سمجھ نہیں پائی آج تک ۔ اب‘ آپ کی افسرانہ گریڈ کی دانش وری سے درخواست ہے کہ کچھ تفصیل بتائیں‘اگر آپ حاضر سروس افسر دانشور ہیں تو سبحان اللہ ! ہم آپ کی ہر بات درست مانتے ہیں‘ اگر ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں تو اس سے زیادہ عقلمندی کا تصور بھی محال ہے ‘اگر معروف ٹی وی اینکر ہیں تو آپ کے عقل کل ہونے میں کیا شبہ ہے اور اگر وزیر ہیں تو مستند ہے آپ کافرمایا ہوا۔کچھ بتائیں کہ ساری ملت اسلامیہ آپ کے اظہارِ حق کی منتظر ہے ۔
سوال کورونا سے شروع ہوا تھا۔ کچھ عالموں نے کہہ دیا تھا کہ یہ وبا گناہوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے انسانوں پر ایک عذاب ہوسکتی ہے ۔ اس لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ‘چونکہ آپ عقل و دانش کے پیکر ہیں‘ اس لیے آپ کا فرض تھا کہ اس بے سروپا بات کی تردید کریں۔ صرف تردید ہی نہیں کریں ‘بلکہ کہنے والوں کی وضع قطع اور حلیے پر بھی پرحقارت لہجے میں تبصرہ کریں‘ جیسا کہ بڑے آدمی کا حق ہے ۔ آپ کا جواب بہت حقیقت پسندانہ اوربہت ماہرانہ تھا۔ مجھے یہ جواب بہت اچھا لگا‘ اس لیے اجازت دیں کہ اس کو اپنے الفاظ میں بیان کردوں اوروہ یہ کہ وبائیں دنیا میں آتی جاتی رہی ہیں ۔ طاعون ‘ ہیضہ ‘چیچک سب تاریخی حقیقتیں ہیں اور ان کا کسی عذاب سے کوئی تعلق نہیں ۔ سائنس سب کی وجوہات بھی بیان کرچکی ہے اوردوائیں بھی ایجاد کرچکی ہے ۔کوئی وبا سانس کے ذریعے پھیلتی ہے ‘ کوئی رطوبت کے ننھے قطروں سے‘کوئی جانوروں سے ‘کوئی چوہوں سے۔ سب معلوم ہے ‘تو ان کا اللہ کے عذاب سے کیا تعلق ؟
اور جو زلزلے ہیں ‘یہ زمینی پلیٹوں کے ہلنے سے آتے ہیں یا آتش فشاں کے پھٹنے سے ‘ یالاوے کے زمین پھاڑ کر نکلنے سے۔کچھ علاقے ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں اس لیے زیادہ زد میں آتے ہیں ؟کوئی بستی اگر اس کی زد میں آگئی تو اس کے مادی اسباب ہیں۔کوئی پلیٹ ہلی ہوگی ۔زیر زمین magma نے حرکت کی ہوگی۔زلزلہ ویسے ہی نہیں آگیا ہوگا۔کچھ اسباب ہوں گے۔
اور یہ جو طوفان ہیں۔سائیکلون‘ہریکین‘ٹورناڈو وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب کے اسباب ہیں ۔ہوا کی گردش‘کم دباؤ۔ بہت سے عوامل ہیں ‘جو ان طوفانوں کو جنم دے دیتے ہیں ۔کوئی شہر ‘کوئی بستی اس کی زد میں آجائے تو پھر تباہی تو مچتی ہے ‘لیکن یہ سب اسباب ہیں۔ان کا عذاب سے کیا تعلق ؟
اور یہ جوسیلاب ہیں ۔ زمین کاٹ کر لے جاتے‘ شہر اجاڑتے۔یہ جو بارشیں ہیں ‘حد سے زیادہ ۔ گھرگراتیں‘سڑکیں نہروں میں اور میدان دریاؤں میں تبدیل کرتیں ۔دریاؤں کو کناروں سے باہر نکالتیں ۔یہ سب اسباب کے تحت ہوتی ہیں ۔ماہرین سب کی وجوہات بتاتے رہتے ہیں ۔ کوئی ایک بھی بے سبب نہیں ۔انہیں عذاب سے تعبیر کرنا محض جہالت اورکم علمی ہے ۔یہ تو ہمیشہ سے دنیا میں ہوتی ہی آئی ہیں۔سب بیکار باتیں ہیں۔
اور یہ جو خشک سالی ہے ۔بارشیں نہ ہونا ‘یا بہت کم ہونا ۔ ندی نالے دریا خشک ہوجانا‘ پیاس کے سبب فصلیں تباہ ہوجانا ۔اناج بہت کم اگنا ‘قحط پڑجانا ‘یہ بھی فطری ہیں ‘ ان کے بھی اسباب ہیں ۔ذرا پوچھئے ماہرین ِموسمیات سے؛وہ بتادیں گے کہ اس سال فلاں ملک‘ فلاں علاقے میں جو بارشیں کم ہوئیں ۔ ان کی وجوہات کیا تھیں؟ارے وہ تو یہ بھی اندازہ بتا دیتے ہیں کہ اگلے سال فلاں علاقے میں کتنی کم یا کتنی زیادہ بارشیں ہوں گی ؟ اناج کی کمی ‘قحط کی پریشانی میں اس ماہرانہ رائے سے فر ق پڑے نہ پڑے ‘لیکن ان کا عذاب سے کیا تعلق ؟ زمینی حقائق ہیں ۔کام کریں ‘دعا کا فائدہ ؟
اور یہ پھل زیادہ یا کم لگنا ۔ فصل اچھی یا بری ہونا ۔ خوش حالی سے تو اس کا تعلق یقینا ہے ۔ عذاب سے اس کا کیا تعلق کہ لوگ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ۔پانی ٹھیک لگے۔کھاد مناسب ملے ۔ ماہرین زراعت کی ہدایا ت پر عمل رہے تو کام ٹھیک ہوگا‘اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو مزید وجہ ڈھونڈنی چاہیے ۔وہ مل جائے تو اگلی وجہ ۔ اس کے بعد اس سے اگلی ۔
اور یہ جو عام بیماریاں ہیں ‘ جن میں انسان مبتلا ہوتا ہے ۔ تکلیف اٹھا تا ہے‘ فریاد کرتا ہے‘بلبلاتا ہے۔ہر ایک کی سائنسی وجہ ہے۔ڈاکٹرز سے پوچھ لیں‘ وہ بتا دیں گے کہ ہر عضو کا کام کیا ہے اور وہ خراب کیسے ہوتا ہے ۔دوائی لینی چاہیے ‘ علاج کرنا چاہیے۔ خواہ مخواہ غیر مادی اسباب تلاش کرنے کا فائدہ ؟اور اسے عذاب سے تعبیر کرنا تو بھئی سراسر جہالت ہے ۔
حضور دانش مند صاحب!دل میں اتر گئیں آپ کی باتیں اور نصیحتیں۔سائنسی ذہن ہو ‘علت و معلول کو سمجھتا ہو۔اسباب و نتائج پر نظر ہو‘تاریخ دان ‘سائنس دان ‘جغرافیہ دان غرض ہمہ دان ہو‘ توآپ جیسا دماغ وجود میں آتا ہے ۔ یہ باتیں تو اچھی طرح سمجھ میں آگئیں ‘لیکن یہ سمجھ نہیں آیا کہ پھر عذاب کیا ہوتا ہے؟ ہوتا بھی ہے کہ نہیں ؟یابس باتیں ہی بنی ہوئی ہیں ؟
وہ جو طوفان تھا‘ جو حضرت نوح ؑکی قوم پر آیا تھا۔آسمان سے پانی اورتنورسے پانی ابلنا شروع ہوگیا تھا۔محکمہ موسمیات والے تب نہیں ہوتے تھے ‘لیکن بارشیں تو ہوتی تھیں ؟ان کی بھی تو وہی سائنسی وجوہات ہوں گی ‘جو آج ہیں۔اسے ہم عذاب سمجھیں یا نہ سمجھیں‘قرآن کریم اور حدیث کے کہنے کے باوجود!
اور وہ جو قوم ارم سائنسی اصولوں پر بند بنا تی تھی۔ہریالی‘فصلوں ‘میووں میں کھیلتی پھرتی تھی اور ایک دم بند ٹوٹ گیا تھا اور زمینیں بنجر ہوکر رہ گئی تھیں ۔جہاں بعد میں صرف کڑوے پھل اگتے تھے۔سنا ہے بڑے بڑے چوہوں نے ان کا بند کتر ڈالا تھا۔تو یہی سبب ہوگا ‘بند ٹوٹنے کا ؟ پھر اسے عذاب کہیں یا نہ کہیں ؟اللہ میاں توکہہ رہے ہیں ۔ ہم کہیں ‘یانہ کہیں ؟
اور وہ جو قوم عاد تھی ‘بڑی زور آور‘بڑی جسیم ۔وہ لوگ جو کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے ؟ جسے ہوا نے ہلاک کردیا تھا‘وہ ہوا جو ان پر سات راتیں آٹھ دن مسلسل چلتی رہی تھی ۔جب رکی تو وہ ایسے پڑے تھے ‘جیسے کھجور کے تنے گرے ہوتے ہیں ۔وہ ہوا اور ریت کا طوفان بھی تو بظاہرکم دباؤ اور دیگر تغیرات کی سائنسی وجوہات کی بنا پر بنا ہوگانا؟تو اسے نہ ٹلنے والا عذاب مانیں یا نہ مانیں ؟ 
اور وہ جو قوم ثمود تھی ۔ پہاڑ تراشنے والی ‘ جسے ایک چنگھاڑ نے آ پکڑا تھا اور جو اپنے مسکنوںہی میں ڈھے گئے تھے۔وہ چنگھاڑ کسی زلزلے کی ہوگی۔ یا بجلی کی ۔یا کسی اور چیز کی ۔کیا اس کے کچھ اسباب رہے ہوں گے؟ کیا کہتے ہیں؟ ۔کیا اسے عذاب کہہ لیں ؟وہ عذاب ‘جس سے کہیں پناہ نہیں ملتی ؟
اور وہ جو قوم فرعون تھی‘ جس پر کبھی طوفان آتا تھا‘کبھی ٹڈی دل حملہ آور ہوتا‘کبھی جووؤں کی بہتات ہوجاتی تھی ‘کبھی لا تعداد مینڈک ہر طرف پھدکنے لگتے تھے۔کبھی پانی کا رنگ خون جیسا ہوجاتا تھا۔ان سب کے مادی اسباب تو ضرور ہوں گے؟صحرا‘ہریالی ‘دریا کا قرب‘نمی تو ٹڈی دل ‘جوؤں‘ مینڈکوں وغیرہ کے ظاہری اسباب ہیں ۔تو کیا انہیں عذاب کہہ لیں ؟قرآن ‘حدیث تو کہہ رہے ہیں۔
ایک اوربہت ضروری بات بھی پوچھنی تھی ۔آپ اسباب کے آدمی ہیں ۔ کورونا وائرس کا کوئی مادی علاج ہے آپ کے پاس؟اگر نہیں تو دعا بھی چھوڑ دیں ؟علاج سے بھی جائیں ‘دعا سے بھی ؟
اوراب یہ سب کہتے کہتے مجھے ایک اور خیال پیدا ہوچلا ہے۔کہیں کسی چیز کو عذاب نہ ماننے کی دانش کے پیچھے دراصل عذاب بھیجنے والے کا انکار تو نہیں ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل انکار یہاں نہ ہو اس سے پیچھے ہو ؟
اور چونکہ آزادیٔ اظہار کی دعوت آپ ہی سے ہمیشہ ملی ہے۔ اس لیے آپ سے ڈرتے ڈرتے کہہ رہا ہوں کہ کہیں ایسی دانش بذاتِ خود عذاب تو نہیں ہے ؟نہ ٹلنے والا عذاب۔ایسا عذاب‘ جس سے کہیں پناہ نہ ملتی ہو...؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved