تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     30-04-2020

مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وسط اپریل 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات مقرر ہوئیں تو اس کے چند دنوں کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی۔ ماحول بے تکلف تھا۔ اُن کے ساتھ برسوں سے کئی حوالوں سے احترام کا رشتہ ہے۔ میں نے اشارتاً اور کنایتاً عرض کیا کہ مناصب آتے جاتے رہتے ہیں مگر لوگ وہیں رہتے ہیں اس لیے انہیں اعتدال پسندی اور الفاظ کے چنائو میں احتیاط پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے میری بات پر کچھ زیادہ دھیان نہ دیا۔ ہماری روایات ہی کچھ ایسی بن چکی ہیں کہ جب کوئی شخص اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے تو پھر وہ انسانوں سے نہیں ہوائوں سے باتیں کرتا ہے۔ 
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان گزشتہ ایک برس تک میڈیا پر چھائی رہیں۔ میڈیا پر ہی نہیں وہ اعصاب پر بھی چھائی ہوئی تھیں۔ وہ ہر وقت پی ٹی آئی کے مخالفین پر گرجتی، برستی بلکہ چیختی، چنگھاڑتی سنائی دیتی تھیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اپنی تمام تر نے نوازی اور عمران خان کے وژن کے ساتھ جذباتی وابستگی کے باوجود پی ٹی آئی کے حلقوں میں ایک ''موسمی پرندہ‘‘ ہی سمجھی جاتی تھیں۔ چند روز قبل ٹیلی تھون کے دوران ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے جناب وزیراعظم کا اغماض خاصا نمایاں تھا۔ مشیر اطلاعات کو میڈیا سٹارز کے حلقے میں ماہتاب کی طرح نمایاں ہونا چاہیے تھا مگر انہیں انڈر ٹریننگ بیک بنچرز کے ساتھ بٹھا دیا گیا تھا۔ اہلِ نظر کو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کے ستارے گردش میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ تو پی ٹی آئی میں نو وارد ہیں مگر خان صاحب کے پرانے احباب کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ خان صاحب کی نگاہ ہمیشہ اپنے مقصد پر ہوتی ہے اور اگر اس راہ میں اُن کا کوئی محسن، کوئی مقرب، کوئی ہمدمِ دیرینہ حائل ہو رہا ہو تو وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے میں ذرا تاخیر سے کام نہیں لیتے؛ البتہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جیسی نووارد کے لیے اس طرح یک یکا یک کارروائی اور وہ بھی اس عنوان کے ساتھ کہ ''ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا‘‘ صدمے سے کم نہیں۔ ٹیلی تھون والی شام ہی ڈاکٹر صاحبہ کے ماتھے پر یہ شعر لکھا ہوا تھا؎
آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
اگرچہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر کسی نے ڈاکٹر فردوس عاشق کے کوچۂ اقتدار سے یوں باہر دھکیل دیئے جانے پر کوئی آنسو بہایا ہے اور نہ ہی کوئی اظہارِ ہمدردی کیا ہے‘ مجھے بہر حال ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ہمدردی ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مستقبل سے بے نیاز ہو کر وفاداری بشرطِ استواری نبھائی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ جناب عمران خان جب کسی فسانے کو آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر اسے کوئی خوب صورت موڑ دے کر چھوڑنے کا تکلف نہیں کرتے۔
گزشتہ 20 ماہ کے دوران جناب عمران خان نے اپنی میڈیا ٹیم میں تیسری مرتبہ تبدیلی کی ہے۔ آغازِ حکومت سے لے کر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تعیناتی تک فواد چودھری وزیر اطلاعات تھے۔ وہ بھی گھن گرج میں کچھ کم نہ تھے اور ہر وقت حزبِ اختلاف کے خلاف میڈیا کے محاذ پر ڈٹے رہتے تھے مگر شاید خان صاحب کی میڈیا کے سلسلے میں توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور بدل دیئے گئے۔ اس دوران سابق ایم ڈی پاکستان ٹیلی ویژن یوسف بیگ مرزا اور پی ٹی آئی کے ایک انتہائی پر خلوص رہنما افتخار درانی بھی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا رہے‘ مگر یہ دونوں حضرات بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے یا پس پردہ ہٹا دیئے گئے۔
جناب وزیر اعظم معیشت، سیاست اور تعلیم و صحت وغیرہ میں تو وہ تبدیلیاں ابھی نہیں لا سکے بلکہ اکثر معاملات میں یوٹرن لے چکے ہیں مگر بیورو کریسی ہو یا وفاقی کابینہ جن جن صوبوں میں ان کی حکومتیں ہیں وہاں آئے روز فراخدلی کے ساتھ تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم اطلاعات کے میدان میں جو نئی تبدیلیاں لائے ہیں انہیں بالعموم سراہا جا رہا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا ہے جبکہ چیئر مین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔ شبلی فراز اس وقت سینیٹ میں قائد ایوان بھی ہیں۔ ان کے بارے میں بالعموم یہ تاثر ہے کہ وہ دھیمے مزاج اور مہذب لب و لہجہ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ وہ الفاظ کا چنائو بھی خوب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور مخالفین پر بھی جارحانہ کلمات سے تیر اندازی نہیں کرتے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے ان کی بطور وزیر اطلاعات آمد کو سراہا ہے اور ان کے ساتھ اچھی توقعات کا اظہار کیا ہے۔ شبلی فراز کے بارے میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ وہ میڈیا فرینڈلی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر فواد چودھری اور شیریں مزاری نے اُن کی بطور وزیر اطلاعات آمد کو بہت خوش آئند قرار دیا ہے۔ نیز پی ٹی آئی کے وہ پرانے کارکن بھی ان کی تعیناتی پر خوش ہیں۔ اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا تعلق فوج سے ہے؛ تاہم میڈیا کے ساتھ ان کے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں۔ 2012ء سے لے کر 2016ء تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر رہے ہیں۔ اتنی بالغ نظر میڈیا جوڑی کو لانے کا بظاہر مقصد تو یہ لگتا ہے کہ اب حکومت میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا گزشتہ کچھ عرصے میں حکومت اور میڈیا کے درمیان جو عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے اس کی اصلاح کرنا چاہتی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
وزیرِ اطلاعات یا مشیر اطلاعات کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے۔ جہاں خبروں میں کوئی ابہام نظر آ رہا ہو وہاں وہ اس کی وضاحت کرے اور حکومتی مؤقف کی حقیقی تصویر میڈیا پر پیش کرے۔ وزیرِ اطلاعات حکومت اور میڈیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔ میڈیا کی جائز شکایات نہ صرف وزیراعظم تک پہنچاتا ہے‘ بلکہ گاہے بگاہے وزیراعظم اور میڈیا کی براہ راست ہارٹ ٹو ہارٹ ملاقاتوں کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ دس پندرہ برسوں سے میڈیا کی مقبول ترین اور محبوب ترین شخصیت رہے ہیں۔ اگرچہ اقتدار میں آ کر سیاسی قائدین کی میڈیا کے ساتھ تعلقات کی وہ صورت حال نہیں رہتی جو اقتدار سے پہلے ہوا کرتی ہے، مگر عمران خان کے میڈیا مالکان، اینکرز اور سینئر صحافیوں سے جو قلبی تعلقات تھے‘ ان کو جاری رہنا چاہئے تھا؛ تاہم برسر اقتدار آتے ہی انہوں نے میڈیا کو حلیف کے بجائے اپنا حریف سمجھنا شروع کر دیا اور میڈیا کی تنقید کو سراہنے کی بجائے عمومی طور پر اس کا برا منانا شروع کر دیا۔ اگر عمران خان صاحب کے ہاں یا کہیں اور میڈیا کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت کا احساس ہے تو یہ مناسب بات ہے۔ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ دیر آید درست آید۔
شبلی فراز کو ہم صحافتی اور ذاتی حیثیت سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ ذاتی حیثیت سے اس لئے کہ جناب احمد فراز کے عزیز ترین دوست سید رضی حیدر میرے بھی نہایت محترم دوست ہیں اور اُن کے اسلام آباد دفتر میں احمد فراز صاحب سے کئی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ جناب شبلی فراز کو تعلقات عامہ کے شعبے میں قدرے محتاط بھی رہنا ہوگا اور اپنے والد گرامی کا یہ شعر یاد رکھنا ہوگا؎
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ڈاکٹر فردوش عاشق اعوان مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہوئی مرشد اقبالؔ کے اس شعر کو پیش نظر رکھیں؎
وہی تیری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved