تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     30-04-2020

کچھ جانے والوں کی‘ کچھ آنے والوں کی باتیں!!

آٹے اورچینی کے بحران کی فرانزک رپورٹ تو سامنے کیا آتی ؟ یہاں تو سیاسی اکھاڑے میں ہی اٹھک بیٹھک شروع ہوگئی ہے۔ اب کے جانے کا قرعہ آپا فردوس عاشق اعوان اورآنے کا قرعہ محترم شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ صاحب کے نام نکلا۔سینیٹ میں قائد حزب ِاقتدار شبلی فراز کا قرعہ تو اس طرح نکل آیا ہے کہ انہیں مکمل وزارت مل گئی ہے‘ جسے اب‘ وہ عاصم سلیم صاحب کی معاونت سے چلائیں گے۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے اپنے فرائض انجام دینے کی بھرپورکوشش تو کی ‘لیکن یقینا کہیں نہ کہیں حکومت اُن کی کارکردگی سے مطمئن نہ تھی ‘ تبھی تو انہیں تبدیل کیا گیا‘ ورنہ انہیں بھیجنے کی اتنی بھی کیا جلدی تھی؟ پنجاب میں صوبائی سطح پر چیف سیکرٹری کی تبدیلی کی خبربھی کافی گرما گرم رہی‘ کیونکہ گمان یہی کیا جارہا تھاکہ صوبائی حکومت کی اعظم سلیمان صاحب کے ساتھ نبھ جائے گی‘ لیکن باوجودبااختیار حلقوں کی کوششوں کے‘ نباہ نہ ہوسکا اور پنجاب میں جواد رفیق ملک صاحب نے چیف سیکرٹری کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینا شروع کردئیے ہیں؛ بلاشبہ اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرنا کپتان کا اختیار ہوتا ہے۔ سو‘ مرکز میں وزیراعظم عمران خان اور پنجاب میں عثمان بزدار نے اپنا اپنا اختیار استعمال کیا ہے۔ اختیار استعمال کرنا ‘ اُن کا حق ہے تو اس حوالے سے بات کرنا اور لکھنا لکھانا‘قلمکاروں کا حق ہے‘ لیکن آج مدعا کچھ اور ہے‘ ورنہ لکھنے لکھانے کے لیے تو بہت کچھ ہے۔ یوں بھی کبھی کبھار روایتی گفتگو سے ہٹ کر بھی کچھ باتیں ضرور کرتے رہنا چاہیے ‘ اچھا محسوس ہوتا ہے ‘ورنہ جو سیاپے ہمارے ہاں پڑے رہتے ہیں ‘ وہ تو گویا کبھی ختم ہوئے اور شایدنہ ہوں گے۔ 
اتفاق کی بات ہے کہ جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے‘ ان میں سے تین شخصیات کے ساتھ زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر کافی رابطہ رہا ہے؛ اگرچہ یہ روابط دیرپا تو نہیں رہے‘ لیکن ان سے جڑی ہوئی کچھ باتیں اور یادیں ضرور باقی رہ گئی ہیں۔ یہ یادیں اور باتیں وابستہ ہیں کچھ جانے والوں سے اور کچھ آنے والوں سے۔ اب‘پہلے کچھ جانے والوں کا تذکرہ کرلیتے ہیں ۔ یہ غالباً 1996-97ء کی بات ہوگی ‘جب ہم کچھ عرصے کے لیے ایک ہفت روزہ میگزین میں بطورِ سینئر سب ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہے۔ ایک روز میگزین کے ایڈیٹر علی سفیان آفاقی صاحب نے بلایا اور کہنے لگے کہ '' میاں وہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی کچھ بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یار وہ بہت اچھا کام کررہی ہیں ‘بس تم اُن پر ایک اچھا سا فیچر لکھ دو‘‘۔تب الیکٹرانک میڈیا تو ہوتا نہیں تھا۔ سو‘ پرنٹ میڈیا کا ہی طوطی بولتا تھا۔جب میں پہنچا تو محترمہ عاشق اعوان اپنی چند کالج فیلوز کے ساتھ وہاں براجمان تھیں۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بتایا کہ کالج کی ان سٹوڈنٹس نے مل کر ''شیڈ ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے ‘جو ضرورت مند مریضوں کے لیے خون کے عطیات کا انتظام کرے گی۔ سچی بات ہے کہ دوران ِگفتگو ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے دور تک جانے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے ‘جس کی ابتدا'' شیڈ‘‘ سے کی جارہی ہے۔ یہ سمجھنے کی وجہ بہت سیدھی اور سامنے کی تھی کہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے دوران گفتگو ''شیڈ ‘‘کے بارے میں کم اور ملکی سیاست کے بارے میں بھی زیادہ کھل کر بات کی تھی۔ ان کے ساتھ آئی ہوئی‘ ان کی کالج فیلوز میں سے تو زیادہ تر صرف ان کی ہاں میں ہاں ہی ملا رہی تھیں۔ اس ملاقات کے بعد بھی ان کی تنظیم کے حوالے سے ان سے کچھ ملاقاتیں رہیں ۔ اس تمام عرصے کے دوران واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ وہ ملکی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں ۔ اب‘ جبکہ بطورِاطلاعات کی معاون خصوصی کی حیثیت سے اُن کی اننگز مکمل ہوچکی ہے ‘لیکن جتنا ہم اُن کے بارے میں سمجھ سکے ہیں‘ تو وہ جلد ہی کسی نہ کسی دوسری پوزیشن پر ضرور اِن ایکشن دکھائی دیں گی۔ 
فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی جگہ اب‘ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم صاحب اطلاعات کے معاون خصوصی کے فرائض انجام دیں گے۔ ان سے ملاقاتیں تو صرف دو ہی رہیں‘ لیکن یہ ملاقاتیں عین میدانِ جنگ میں انجام پائیں۔ یہی کوئی آٹھ ایک سال پہلے کی بات ہے‘ جب ہم دنیا میڈیا گروپ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ یہی وہ دن تھے‘ جب پاک فوج جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف تھی۔ آئی ایس پی آر کی طر ف سے لاہور کے میڈیا پرسنز کو جنوبی وزیرستان لے جانا کا پروگرام بنایا گیا‘ تاکہ وہاں حاصل کی گئی کامیابیوں کے بارے میں بتایا جاسکے۔ اس کے لیے دنیا میڈیاگروپ کی طرف سے مجھے جانے کا موقع ملا اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک لائف ٹائم تجربہ بھی تھا تو ایسا کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا۔ کچھ روز پر مشتمل یہ پورے کا پورے وزٹ ہی ایڈونچرثابت ہوا۔ لاہور سے بذریعہ فلائنگ کوچ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے ‘جہاں سے اگلی صبح بذریعہ ہیلی کاپٹر سیدھے جنوبی وزیرستان کے علاقے درگئی میں جا لینڈ ہوئے۔ وہاں سے فوجی کانوائے کی صورت میں ہمیں ایک عمارت میں لے جایا گیااور بتایا گیا کہ یہاں ڈویژن کمانڈر آپ سے گفتگو کریں گے۔ کچھ ہی دیر میں تب میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ وہاں آگئے۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو کافی دراز ہوتا چلا گیا۔ اس دوران کچھ تلخ تو کچھ شیریں باتیں ہوئیں۔ خوشی اس بات کی ہوئی کہ عاصم صاحب نے قدرے تلخ باتوں کا جواب بھی چہرے پر ایک بھی شکن لائے بغیر دیا‘ ورنہ سچی بات ہے کم از کم میں تواپنے ساتھی کے کچھ سوالات پر کافی پریشانی محسوس کررہا تھا۔ اُن کی شخصیت کافی رعب دار نظرآرہی تھی اور دوسرے اُن کے انداز سے بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کیا کہ جلد ہی جنوبی وزیرستان سے دہشت گردوں کیخلاف پے درپے کامیابیوں کی خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگیں۔اب ‘بھی اگر انہیں کسی خاص مقصد کے لیے یہ عہدہ تفویض کیا گیا ہے‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسے حاصل نہ کرسکیں۔بطورِ ڈی جی آئی ایس پی آر ‘ اُن کی کارکردگی کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ 
اب‘ پنجاب کی طرف آتے ہیں ‘جہاں صوبے کے نئے انتظامی سربراہ جواد رفیق ملک صاحب ‘ چیف سیکرٹری کے فرائض سنبھال چکے ہیں۔ ان سے تب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ جب یہ کمشنر لاہور تعینات ہوئے تھے۔ ان کے پی آراو ڈاکٹر عابد سلیمی کے توسط سے پہلی ملاقات ہوئی تو پھر گاہے بگاہے یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ان ملاقاتوں کا سب سے بڑا مقصد کسی نہ کسی نیوز رپورٹ میں شہر کی انتظامیہ کا موقف حاصل کرنا ہوتا تھا۔تب ‘میٹروبس سروس پراجیکٹ زیرتکمیل تھا‘ جس کے ساتھ ساتھ ڈینگی نے بھی اودھم مچایا ہوا تھا۔ میٹروپراجیکٹ کی وجہ سے پورا شہر اُدھڑا پڑا تھا‘ جس سے متاثر ہونے والوں کا غصہ عروج پر تھا۔ سچی بات ہے کہ پراجیکٹ سے متاثر ہونے والوں کا غصہ تھا بھی جینوئن‘ لیکن اکثر ہم نے غصے میں کمشنر آفس آنے والوں کو مسکراتے ہوئے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا‘جس کی وجہ ملک صاحب کا اچھا رویہ ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ سائلین کے ساتھ اُن کا شائستگی پر مبنی رویہ کبھی کبھار حیران بھی کرتا تھا‘ کیونکہ یہ طرز ِعمل‘ رائج چلن کیخلاف تھا۔ ہماری طرف سے بھی کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ انہیں راستے میں ہی روک کر گفتگو کرنے کی استدعا کردی جاتی ۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ انہوں نے کبھی اس بات کو مائنڈ کیا ہو یا پھر گفتگو کرنے سے احتراز برتا ہو؛البتہ عابد سلیمی اس پر ہمیشہ چہ بچیں ہوتے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ بات آداب کیخلاف تھی۔ اب‘ جب کمشنر صاحب خود مائنڈ نہیں کرتے تھے تو ہم بھی اسے غنیمت جانتے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ اپنے عہدے کے لحاظ سے کچھ زیادہ ہی نرم مزاج ہیں۔ اس بات کا کئی بار اظہار بھی کیا ‘لیکن اُن کے نزدیک سائلین کو عزت دینا اور اُن کے مسائل حل کرنا ہی اہم ترین تھا‘ باقی سب باتیں ثانوی تھیں۔ اب‘ وہ اپنے اسی مزاج کے ساتھ ‘ پنجاب کے چیف سیکرٹری کا عہدہ سنبھال چکے ہیں ۔ اللہ کرے کہ وہ کچھ مناسب عرصہ اس عہدے پر گزارجائیں ‘ورنہ وزیراعلیٰ صاحب تو ابھی تک کسی بھی چیف سیکرٹری کی کارکردگی سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ 
بہرحال تحریر کا مقصد بس‘ ایسے ہی کچھ بھولی بسری باتوں کو یاد کرنا تھا کہ ماضی سے جڑے ہوئے تجربات کو‘ باتوں کو اور یادوں کو تازہ کرتے رہنا چاہیے کہ بھر پور زندگی کا احساس باقی رہتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved