تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     30-05-2013

نواز کے کھلے ‘بندھے ہاتھ

پاکستان میں میاں نواز شریف ایسے پہلے لیڈر ہیں جن کے وزیر اعظم بننے سے قبل مسلسل پانچ سال تک ایک جمہوری حکومت کا م کر تی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور وہ خود پانچ سال تک حکومت نہ کرسکے۔ ان سے پہلے لیا قت علی خان، محمد علی، فیروز خان نون وغیرہ بھی مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم رہے۔ آصف زرداری اکیلے ایسے خوش قسمت لیڈر ہیں جن کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال کی مدت پوری کی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف بھی پانچ سال تک ٹکے رہیں گے؟ فوج سے ان کا تصادم ہوگا یانہیں؟ یہی میاں نواز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو فوج اور ان کے درمیان تصادم کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پچھلی بار وہ فوجی آمر کے شکار ہوئے تھے اور جنرل مشرف نے ان کی حکومت کاتختہ الٹ دیا تھا۔ دوسری مشکل آصف زردار ی ہیں۔ زرداری کو اقتدار ورثے کے طور پر مل گیاتھا جبکہ نوازشریف اپنے دم خم سے وزیر اعظم بنے ہیں ۔وہ کسی بھی قیمت پر شکست نہیں کھائیں گے۔ تیسری یہ کہ جنرل مشرف آج کل خود پاکستان میں ٹکے ہوئے ہیں۔ ان کے حمایتی اب بھی ہوں گے، وہ ان کو اکسائے بغیر نہیں رہیں گے۔ چوتھی مشکل یہ ہے کہ میاں نواز شریف خارجہ پالیسی کے معاملے میں کئی طرح کی نئی پہل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ بھی جنرل اشفاق کیانی کو زیادہ اہمیت دیتا رہا ہے۔ اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی پوزیشن مضبوط رہے گی۔ اس کی بھی کئی و جوہات ہیں۔ پہلی، انتخاب جیتتے ہی میاں صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ انہیں فوج سے کوئی خطرہ نہیں۔ انہوں نے فوج پر کبھی تنقید نہیں کی۔ دوسری، لوگوں کو شک ہے کہ بے نظیر کے قتل میں فوجی آمر کا ہاتھ تھا۔ لال مسجد، اکبر بگتی کا قتل، کراچی کے بحری اڈے پر حملہ اور سب سے زیادہ امریکہ کی طرف سے اسامہ بن لادن کے قتل کا معاملہ بھی پراسرار ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ عمران کی پیٹھ پر فوج ہے لیکن وہ تو انتخاب ہار گئے۔ تیسری، جنرل کیانی اب کچھ ماہ میں عہدے کی مدت پور ی کر چکے ہوں گے۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ جو بھی سینئر ہو گا وہ فوج کا چیف بنے گا۔ظاہر ہے کہ نئے جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان اچھے تعلقات بن جائیں گے۔ خود میاں نواز شریف نے اتنے نشیب وفراز دیکھ لیے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر اب فوج اور عدالتوں سے جھگڑا مول نہیں لیں گے۔ وزیر اعظم کی کرسی پر وہ دو بار بیٹھ چکے ہیں۔ تیسری بار وہ پاکستان کی شکل میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اس لیے وہ اپنی طرف سے شاید ہی کوئی ایسی منصوبہ بندی کریںگے جس سے انہیں عدالت کو جھیلنا پڑے اور پھر چیف جسٹس افتخار چودھری جو کہ انتہائی سخت شخص ہیں،اسی سال ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس انتخاب نے پاکستان کو چار سیاسی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کے سلگنے کا خدشہ ہے، طالبان کا غلبہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں فوج کی ضرورت میں اضافہ ہوگا اس لیے میاں نواز شریف فوج کو مطمئن اور خوش ہی رکھنا چاہیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت، زرداری سے بھی بہتر طریقے سے اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ صدر کی کرسی پر بھی جلد ہی کوئی نواز شریف کاآدمی ہی بیٹھے گا۔ میاں نواز شریف کا دوسرا بڑا چیلنج پورے پاکستان کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ اس بار انتخابات کے نتائج ایسے آئے ہیں کہ ہر خطے میں الگ الگ پارٹی کی حکومت ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ اکیلا پنجاب باقی تمام صوبوں کو ملا کر بھی ان سے بڑا ہے؛ تاہم میاں صاحب کو سوچنا ہوگا کہ اپنی مرکزی کابینہ میں دیگر صوبوں کو نمائندگی کیسے دی جائے؟ یہ ناممکن نہیں کہ وہ تمام اہم پارٹیوں کو اپنی مرکزی حکومت میں مناسب نمائندگی دے دیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو ان صوبوں سے اپنی پارٹی کے لوگوں کو اہم جگہ دیں۔ انہیں نوکر شاہی میں بھی صوبائی نمائندگی پر توجہ دینی ہوگی۔ اگر وہ اس سیاسی توازن کو بنانے میں چُوک گئے تو انہیںمختلف خطوں میں فوج کی مدد کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اگر ان صوبوں کی مقامی حکومتیں ان کے لیے دوستانہ نہیں ہوں گی تو ان کی تجرباتی سیاست بھی ناکام ہو جائے گی ۔ نیز پاکستان کے ذریعے ہندوستان اور وسط ایشیا کو جوڑنے والی سڑکیں اور گیس کی پائپ لائنز بھی انہی صوبوں سے ہوکر گزریں گی۔ تیسرا بڑا چیلنج بھی اندرونی ہے۔ مختلف سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے لوگ ہندوستان کو نہیں خود پاکستان کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ مانتے ہیں۔ہندوستان سے کہیں زیادہ لوگ پاکستان میں دہشت گردی کے شکار ہوتے ہیں۔اس مسئلہ سے میاں نواز شریف کیسے نمٹیں گے؟ وہ توکہہ رہے ہیں کہ وہ طالبان سے بات کرنے کو تیار ہیںلیکن فوج کو منانا پڑے گا۔ فوج تیار ہے یا نہیں؟ اگر فوج میاں صاحب کو آزاد انہ طور پر کام کرنے دے تو ان میں یہ قوت ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے پر میاں نواز شریف اور عمران دونوں متفق ہوگئے ہیں۔ چوتھا چیلنج افغانستان سے امریکہ کی واپسی ہے۔ اگر میاں صاحب اس لالچ میں پھنس گئے کہ امریکہ کے لوٹتے ہی وہ افغانستان پر سیاست کریں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کابل ہاتھ میں آنے کے بجائے پشاور ہاتھ سے نکل جائے۔ پاکستان جب تک امریکہ کے رہنے اور جانے کا فائدہ اٹھانے کی فکر میں رہے گا،تب تک لڑکھڑاتارہے گا۔یہ وقت ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔ پانچواںچیلنج ہے پاکستان کی بنیادی اقتصادی ترقی کا مسئلہ‘ غربت اور بجلی کی اتنی کمی بھی پہلے کبھی نہیں تھی ۔امید ہے کہ میاں نواز شریف کا تاجرانہ تجربہ انہیںاس امتحان میں کامیاب کرے گا۔ پاکستانی عوام کو میاں نواز شریف کی صلاحیت کا علم ہے۔ وہ ہندوستان اور دیگر پڑوسی ممالک سے تجارت اور اقتصادی تعاون کے نئے طویل اوروسیع باب کھول سکتے ہیں کہ پاکستان راتوں رات مالا مال ہو سکتا ہے۔ ان تمام چیلنجوں میںسب سے بڑا چیلنج ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانا ہے ۔اگر ہندوستان سے تعلقات بہتر ہو جائیں تو دفاع پر جو اضافی اخراجات ہوتے ہیں وہ بند ہو جائیں گے‘ پورا پاکستان بے فکر ہو جائے گا اور اپنی پوری طاقت تعمیر و ترقی میں لگائے گا۔ میاں نواز شریف کا وزیر اعظم بننا اس سمت میں مضبوط قدم ہے۔ ہندوستان کے لئے بھی یہ سنہری موقع ہے۔ کارگل جنگ کی مخالفت کی وجہ سے ہی نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تھا‘ وہ ہندوستان کی وجہ سے ہی ہٹے۔ اب ہندوستان کو چاہئے کہ نوازشر یف کو کامیاب اور مضبوط بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ (آئی این ایس انڈیا) (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved