تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     01-05-2020

جنرل عاصم سلیم باجوہ کی واپسی

جنرل راحیل شریف سعودی عرب کی سرپرستی والی اسلامی اتحاد فوج کے سربراہ بنے تو کسی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈال دی کہ شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے جنرل صاحب کو اسلامی اتحاد فوج کے لیے دستیاب ساز و سامان کی تفصیل بتانے کے بعد پوچھا‘ کوئی چیز رہ گئی ہو‘ کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیے! جس پر جنرل صاحب نے کہا کہ ہمارے ٹویٹ والے صاحب کی کمی ہے‘ انہیں بھی بلا لیں... ظاہر ہے‘ یہ پوسٹ از راہِ مزاح کی گئی بات تھی‘ لیکن بین السطور میں جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب کی پبلک ریلیشننگ میں غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف بھی تھا۔ جدید دور میں جنگیں محض فضائوں میں‘ پانیوں میں اور میدانوں ہی میں نہیں لڑی جاتیں‘ یہ میڈیا میں بھی لڑی جاتی ہیں‘ قلوب و اذہان یہیں فتح کیے جاتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار شاید اسی کو کہتے ہیں... اور اس میں کیا شک ہے کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے طور پر اس میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے طور پر ان کے تقرر پر‘ سنا ہے کہ بھارتی میڈیا میں کہرام کی کیفیت ہے۔
عشروں پہلے آئی ایس پی آر مسلح افواج کا ایک محدود سا شعبہ ہوتا تھا۔ تب پاکستان میں میڈیا بھی عملاً پرنٹ میڈیا تک محدود تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی تھے اور یہ دونوں سرکار کی تحویل میں تھے۔ پرنٹ میڈیا میں بھی نیشنل پریس ٹرسٹ کا غلبہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ایک عرصہ تک آئی ایس پی آر کا سربراہ ایک میجر ہوتا تھا‘ پھر یہ اَپ گریڈ ہو کر کرنل ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں بریگیڈیئر صدیق سالک اس کے سربراہ ہوئے (سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت ایک نوجوان فوجی افسر کے طور پر وہ ڈھاکہ ہی میں تھے۔ دشمن کی قید سے آزاد ہو کر آئے‘ تو ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ جیسی شاہکار کتاب لکھ دی۔ ان کی زندگی کے آخری ماہ و سال جنرل ضیا الحق کی رفاقت میں گزرے‘ اور انہی کے ساتھ 17 اگست 1988ء کی سہ پہر بہاولپور میں‘ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے۔) جنرل اسلم بیگ کے دور میں بریگیڈیئر ضیا اللہ ڈی جی آئی ایس پی آر مقرر ہوئے۔ اسی دور میں ضربِ مومن کے نام سے تاریخی جنگی مشقیں منعقد ہوئیں‘ یہ پاکستان کی عسکری تاریخ کا منفرد اور غیر معمولی تجربہ تھا جس میں ملک بھر سے اخبار نویسوں کو بھی شریک کیا گیا۔ اسے مسلح افواج میں ''گلاس ناسٹ‘‘ (Openness) کا نام دیا گیا تھا۔ جنرل بیگ کے حاسدین اور ناقدین جسے مسلح افواج سے زیادہ جنرل صاحب کی پرسنل پروموشن کا بہانہ قرار دیتے... بہر حال یہ پہلا موقع تھا‘ جب فوج اور نوجوان صحافیوں میں قربت پیدا ہوئی۔ اس سے پہلے تو مدیران کرام سے رابطے ہی پر اکتفا ہوتا تھا اور اس کی ضرورت بھی سال میں شاید ایک آدھ بار ہی پڑتی۔ جنرل بیگ کی جگہ جنرل آصف نواز آئے‘ ان کی اچانک موت پر جنرل وحید کاکڑ ان کے جانشین ہوئے۔ یہ ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا دور تھا‘ صدر غلام اسحاق خاں کے ہاتھوں وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی‘ پھر سپریم کورٹ سے بحالی‘ لیکن اس دوران ایوانِ صدر کے مکین بابا جی پنجاب اور سرحد میں ایسا بندوبست کر چکے تھے کہ نواز شریف کی بحال شدہ حکومت چل نہ سکے‘ محترمہ کی زیر قیادت‘ نواب زادہ نصر اللہ سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کا لانگ مارچ لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے کو تھا کہ جنرل وحید کاکڑ بروئے کار آئے‘ اور ایک سمجھوتے کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوں مستعفی ہو گئے۔ صدر غلام اسحاق کی وفادار صوبائی حکومتیں بھی ختم ہوئیں اور ملک نئے انتخابات کی طرف چلا گیا ‘جن میں محترمہ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کہ وزیراعظم بے نظیر اور اپوزیشن لیڈر نواز شریف کی کشمکش میں آرمی چیف فریق ہیں‘ جنرل وحید کاکڑ کی نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا گیا‘ جس کی خبر (اور دونوں کی مسکراتی ہوئی تصویر) اخبارات میں خصوصی اہتمام کے ساتھ شائع کرائی گئی۔
جنرل جہانگیر کرامت اپنی ذاتی نمود و نمائش سے بے نیاز ایک پیشہ ور سپاہی تھے۔ وہ میڈیا میں آنے ہی سے گریز کرتے۔ اواخر 1997ء کے عدلیہ بحران میں انہوں نے اپنا وزن چیف جسٹس سجاد علی شاہ (جو اپنے ہی برادر ججوں میں متنازعہ ہو گئے تھے) اور صدر فاروق لغاری کی بجائے منتخب وزیراعظم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اور عجیب المیہ یہ ہے کہ میڈیا سے گریز کرنے والا آرمی چیف‘ میڈیا کی سرخیوں کی نذر ہو گیا۔ لاہور نیول کالج میں‘ ایک سوال کے جواب میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی حمایت اخبارات کی ہیڈ لائن بن گئی۔ اپوزیشن اسے لے اڑی۔ وزیراعظم نے اس سیاسی بیان پر جنرل صاحب کو بلا کر اظہارِ نا پسندیدگی کیا۔ اور پیشہ ور سپاہی نے رضاکارانہ استعفے میں دیر نہ کی۔ اب جنرل پرویز مشرف وزیراعظم کا انتخاب ٹھہرے... پھر ایک لمبی کہانی ہے... جنرل مشرف کے بعد جنرل کیانی وزیراعظم گیلانی کی طرف سے ان کی فل ٹرم ایکسٹینشن پر نواز شریف کے مخالفانہ بیان کے باوجود‘ میاں صاحب کی (تیسری) وزارتِ عظمیٰ کے چھ ماہ میں جنرل کیانی کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار رہے۔ کراچی آپریشن اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے سیاسی حکومت کے فیصلے میں جنرل کیانی کی تائید شامل تھی۔
جنرل راحیل شریف کا دور ملک میں سیاسی گرما گرمی کا دور تھا۔اگست 2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری کی دھرنا مہم‘ پھر دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب‘ 2016ء کے مئی میں پاناما لیکس‘ نومبر میں ڈان لیکس...اس دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی حکمت عملی اور کارکردگی ایم فل یا پی ایچ ڈی کے لیے تھیسس کا موضوع ہو سکتی ہے۔ اگست 2014ء کی دھرنا مہم کے آغاز پر سب نظریں جی ایچ کیو کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جنرل باجوہ کے ٹویٹ میں طاقت کے استعمال کی بجائے مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم کی تائید کے ساتھ جنرل راحیل شریف کے دھرنا مہم کے دونوں قائدین سے مذاکرات بھی ہوئے‘ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ان کے دیگر مطالبات پر وزیراعظم سے بات کر سکتے ہیں‘ لیکن ایک منتخب وزیراعظم کے استعفے کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ایک طرف سیاسی ہنگامے‘ دوسری طرف ضرب ِعضب‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ذمہ داریاں دو چند ہو گئی تھیں۔ مسلح افواج کے ترجمان کے طور پر انہیں احتیاط کا دامن بھی تھامے رکھنا تھا ...اور جنرل باجوہ پلِ صراط کا یہ سفر کامیابی سے طے کر رہے تھے۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آئی ایس پی آر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا‘ لیکن اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے وہ شخص روابط کی اہمیت سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ یاد آیا‘ یہ 2015ء کا قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن تھا‘ افتتاحی اجلاس کی کوریج کے لیے ملک بھر سے سینئر جرنلسٹ بھی مدعو تھے‘ ہم بھی ان میں تھے۔
اگلی صبح ہم سب ڈائننگ ہال میں ناشتے کی میزوں پر تھے کہ دیکھا‘ سول لباس میں جنرل عاصم سلیم باجوہ چلے آ رہے ہیں۔ وہ ایک ایک میز پر گئے۔ زیادہ وقت انہوں نے ہماری میز پر گزارا کہ یہاں جناب الطاف حسن قریشی‘ شامی صاحب اور سجاد میر جیسے جید صحافی موجود تھے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں سے‘ ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر رابطے کا یہ اچھا موقع تھا‘ عاصم سلیم باجوہ اسے کیوں ضائع جانے دیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved