تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     01-05-2020

ﷲ کو مانتے ہیں …ﷲ کی نہیں

تعجب ہے! اﷲ کو مانتے ہیں‘ لیکن اﷲ کی نہیں مانتے‘ اﷲ سے تو ڈرتے نہیں‘قانون شکنی سے ہاتھ نہیں کانپتے‘ پولیس کے چھتروں کے خوف سے ٹانگیں ضرور کانپتی ہیں‘ خود ساختہ مہنگائی سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک‘ ملاوٹ سے لے کرناپ تول میں ڈنڈی مارنے تک‘ سارے کرتوت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جاری ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے رات کو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں بھی دیتے ہیں اور خلقِ خدا کو چونا بھی برابر لگائے جا رہے ہیں‘ جو قوم کورونا جیسی جان لیوا صورتحال کو کمائی کا ذریعہ بنانے سے باز نہ رہے تو کیسی اذانیں‘ کہاں کی مغفرت‘ غفلتوں کے مارے جہالتوں میں گوڈے گوڈے غرق‘ یہ سبھی کسے دھوکہ دے رہے ہیں؟ خود کو یا اپنے اُس رب کو جو شہ رَگ سے زیادہ قریب ہے‘ نیتوں اور دلوں کا حال بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ 
ادھر کورونا نے زور پکڑنا شروع کیا‘ اُدھر ماسک اور سینی ٹائزر مارکیٹ سے چھومنتر ہوگئے‘ ٹکے ٹوکری رُلنے والایہ ماسک منہ مانگے داموں بھی ناپید ہی رہا‘ جعلی سینی ٹائزرز سے لے کر ماسک کی بلیک مارکیٹنگ تک لمبا مال بنانے والے کسی سیارے سے تھوڑا آئے تھے‘ اسی ملک کے باسی اور مملکتِ خدادا کے ذمہ دار شہری ہیں‘ جبکہ خود ساختہ مہنگائی اور منافع خوری کا عالم یہ ہے کہ ریڑھ والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دوکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی کورونا ٹیکس کی وصولی پر سختی سے کار بند ہیں۔رہی بات سرکار کی تو اگر حکمرانوں کے احکامات خالص ہوں تو کسی کی کیا مجال کہ وہ اشیائے خورد نوش سے لے کر پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ میں ملاوٹ کا تصور بھی کرے۔ جیسے عوام ویسے حکمران‘ تو پھر رونا کس بات کا؟
ابھی کورونائی لوٹ مار جاری تھی کہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی احساسِ عوام کے تحت قیمتوں میں مزید ہوشرُبا اضافہ ہو چکا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس ناکوں پر عوام کو ناکوں چنے چبوانے میں مصروف ہیں‘ ادھر کسی نے دُکان کا شٹر اُٹھایا اُدھر پولیس نے آن دبوچا‘ سرِبازار ذلت اور تھانے کی یاترا کے بعد وہ اَدھ کھلا شٹر پوری دیدہ دلیری اور اعتماد سے پورا اُٹھا کر تھانے میں کی گئی انویسٹمنٹ سود سمیت وصول کر کے بھی یہی کہتا ہے کہ ''رزقِ حلال عین عبادت ہے‘‘۔ جس فرض شناسی کا مظاہرہ شہریوں کو ذلیل و خوار کرنے پر کیا جارہا ہے‘ اس کا چند فیصد اگر پرائس کنٹرول پر کیا جاتا تو لوٹ مار کا یہ منظر اتنا دردناک نہ ہوتا‘ انصاف سرکار کی یہ سبھی کرامات عوام سمارٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھگت رہے ہیں۔ 
ویسے بھی بجٹ میں امیر ترین لوگوں اور بھاری تنخواہ داروں پر سپرکورونا ٹیکس لگانے کی تجویز زیر غور ہے‘ یہ امیر آدمی تو معمول کا ٹیکس نہیں دیتا اس سے سپر ٹیکس کون وصول کرے گا‘ اس ملک میں جتنی پالیسیاں اور اصلاحات جاری ہیں‘ سبھی اسی امیر آدمی کی سہولت اور آسانی کے گرد گھومتی ہیں۔ اس کے مفادات کے خلاف پالیسیاں اور ضابطے کہاں بن سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں یہ امیر طبقہ کہیں خود صاحب اقتدار ہے تو کہیں حکمرانوں کا سہولت کار‘ کہیں حکمران مرچنٹ ہیں تو کہیں مرچنٹ حکمران‘ کہیں سیاسی اشرافیہ کا انویسٹر ہے‘ تو کہیں سٹیک ہولڈر‘ مشترکہ مفادات کے اس کھیل میں سبھی ایک دوسرے سے جُڑے نظر آتے ہیں‘ کہیں بالواسطہ تو کہیںبلاواسطہ۔ 
جس ملک میں روزمرہ کی اشیائے ضروریہ سے وابستہ کاروبار پر حکمرانوں کی اجارہ داری ہو‘ وہاں خود ساختہ مہنگائی اور چور بازاری کون رُوک سکتا ہے۔ آٹے چینی سے شروع ہونے والی یہ واردات اب انرجی سیکٹر تک جاپہنچی ہے‘ چینی کی بے چینی اور آٹے کا گھاٹا تو کہیں نہ کہیں اور جیسے تیسے عوام بھگت ہی رہے ہیں‘ لیکن انہیں کیا معلوم کہ انرجی کے جھٹکے ان کن حالات سے دوچار کرنے والے ہیں‘ اس کا تصور ہی حواس گم کرنے کے لیے کافی ہے‘ ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ میز پر پڑے اخبارات کے ڈھیر میں ایک سپر لیڈ پر نظر اٹک کر رہ گئی‘ جس میں دنیا کے منصفوں نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا ہے‘ جبکہ عبادتگاہوں کی کھلی بے حرمتی اور بیہمانہ تشدد کی مانیٹرنگ کے لیے فنڈ کے قیام کا مطالبہ بھی کیا ہے‘ امریکی کمیشن کی اس رپورٹ پر عالمی ضمیر کب جاگتا ہے‘ کب اس میں کوئی عملی کارروائی دیکھنے کو ملتی ہے‘ یہ قبل از وقت اور مشکل سوال ہے‘ کیونکہ ایسے کمیشن صرف ''رپورٹا رپاٹی‘‘ ہی کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کون سے کمیشن کی کس رپورٹ پر کارروائی کی گئی ہے۔ 
کشمیر میں گزشتہ نو ماہ سے جاری بھارتی بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی کے بدترین مناظر پر نہ کسی کے کان پر جوں رینگی اور نہ ہی کسی کو یہ احساس ہوا کہ کشمیر میں خون کی ہولی کے ساتھ ساتھ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں‘ کشمیر کے عوام تو نو ماہ سے لاک ڈاؤن کی صعوبتوں کا شکار ہیں۔ کورونا پر مہینے دو مہینے کے لاک ڈاون سے چیخ اُٹھنے والوں نے کبھی مظلوم اور نہتے کشمیروں پر نو ماہ سے جاری دنیا کے بدترین لاک ڈاؤن پر کونسی آواز اُٹھائی تھی۔ دنیا کے یہ منصف کمیشن اور بیانات تک ہی محدود رہتے ہیں۔ یہ کاغذی یکجہتی اور انسانی حقوق کی نمائشی تنظیمیں ڈھول پیٹ کر اپنا پیٹ بھرتی رہتی ہیں۔ 
اسی طرح ایک اور خبر تبصرے کے لیے مسلسل اُکسائے چلی جارہی ہے‘ وزیراعظم عمران خان کا ایک انقلابی بیان پیش خدمت ہے‘ جس میں انہوں نے اشرافیہ کے قبضے سے وسائل چھڑانے کی بات کی ہے۔ ان کا یہ بیانیہ بلا شبہ 24سال پرانا اور ان کے سیاسی ایجنڈے کا اہم نعرہ بھی ہے۔اشرافیہ سے وسائل کب چھڑوائے جا سکیں گے اور چھڑوائے بھی جاسکیں گے یا نہیں ‘لیکن وزیراعظم صاحب اس ملک و قوم پر یہ احسان ضرور کریں کہ انصاف سرکار میں موجود غیر منتخب اشرافیہ سے وہ سرکاری ادارے ضرور آزاد کروا دیں‘ جو ان کے تجربات اور من مانیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ ادارے اب ان اجارہ داریوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انفراسٹرکچر کی تباہی اور بھاری مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ سٹاف بھی دربدر اور پریشان حال ہے۔ ان اداروں پر پلنے والے مصاحبین اور رفقا نا صرف اپنے ذاتی کاروبار انہیں اداروں سے وابستہ کیے ہوئے ہیں ‘بلکہ انہیں صبح و شام ضربیں بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ اس 24سالہ سیاسی جدوجہد کا کھلا تضاد نہیں؟
چلتے چلتے وفاقی کابینہ میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ فردوس عاشق اعوان کو سرکار نکالا دے کر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو معاونِ خصوصی برائے اطلاعات مقرر کر دیا گیا ہے‘ جبکہ وزیر صحت کی تقرری بھی حالات اور وقت کا اہم تقاضا بن چکی ہے۔ نجانے کیا راکٹ سائنس ہے کہ انصاف سرکار کورونا جیسے قیامت خیز حالات میں بھی وزیر صحت دریافت کرنے میں تاحال ناکام نظرآتی ہے۔ فردوس عاشق اعوان کی سبکدوشی کوئی اَنہونی نہیں‘ سیاست میں یہ آنا جانالگا رہتا ہے؛البتہ یہ فیصلے انصاف سرکار میں جس برق رفتاری سے ہوتے ہیں‘ اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی‘اسی طرح دوسری وزارتوں کا حال بھی قطعی مختلف نہیں‘ عامر کیانی سے لے کر اعظم سواتی تک سُبکی اور جگ ہنسائی سے لے کر بدنامیوں تک سبھی داغ دامن پہ سجائے پھرنے والے بڑے فخر سے آج بھی اِترائے پھرتے ہیں۔ جہانگیر ترین جو کبھی ناگزیر اور بہترین تھے ‘وہ اَب صرف ترین ہو کر رہ گئے ہیں۔ خسرو بختیار سے لے کر رزاق داؤد اور ندیم بابر تک‘ ارشد خان سے لے کر راشد خان اور نجانے کتنے جوابدہی کا بوجھ بنتے چلے جارہے ہیں۔ کون کیا ہے‘؟ کہاں سے آیا ہے؟ کیسے آیا ہے‘ اور کس مار پر آیا ہے؟ یہ سب حقیقتیںاب ننگی ہو چکی ہیں۔ سبھی کو سب کا پتہ ہے‘ تو پھر کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس‘ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ دلداریاں بانٹی جارہی ہیں‘ جھاکے اُتر چکے ہیں‘ عوام دربدر اور کہیں کہیں زندہ درگور نظر آتے ہیں‘ اس منظر کا پسِ منظر کون نہیں جانتا؟ کسے نہیں معلوم کہ یہ سیاہ بختی کوئی ایک دن کی بات نہیں‘ یہ تاریکیاں اور اندھیرے کئی دہائیوں سے عوام کا مقدر بنے چلے آرہے ہیں‘ جو نجانے کب تک چلتے رہیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved