نواز شریف صاحب نے افراد کا چنائو بطریق ِ احسن کر لیا ہے۔ پریس رپورٹس کے مطابق اُن کے ساتھ ناصر محمود کھوسہ پرنسپل سیکرٹری ہوں گے جو انتظامی معاملات چلانے کے لیے وفاقی سیکرٹریوں کے راہ ِ عمل کا تعین کریں گے۔ کھوسہ صاحب تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بطور چیف سیکرٹری فرائض انجام دینے کا تجربہ رکھتے ہیں جو ایک نادر مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرنسپل سیکرٹری کا چنائو بے حد اہمیت کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس اہم پوزیشن پر ایک اچھا افسر جہاں وزیر ِ اعظم کے لیے نعمت ثابت ہوتا ہے، وہیں ایک برا افسرا ُس کے لیے مصیبت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ یہ بات میں سرسری انداز میں نہیں کہہ رہی۔ ریاست کے امور پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ وزیر ِ اعظم کے دفتر میں سب سے طاقتور شخص ہوتا ہے۔ تمام افسر شاہی اُس کے احکامات کی بلا چون و چرا تعمیل کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ بات فراموش کر چکے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف صاحب کی حکومتوں کے گرانے میں پرنسپل سیکرٹری اور دوسرے افسروں کا بھی ہاتھ تھا۔ دونوں وزرائے اعظم نے اس اہم عہدے کے لیے وہ افسر منتخب کیے جن پر اُن کو اعتماد تھا اور یقین تھا کہ وہ اُن کی جائزو ناجائزخواہشات پوری کریںگے۔ اُنھوںنے اپنے پرنسپل سیکرٹریوں کو پیشہ ور افسروں کی بجائے ایسا وفادار معاون سمجھا جو اپنے باس کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری کو بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ان کے حکم پر ماتحت افسروں کی ترقی یا تنزلی ہو سکتی ہے، اس لیے وہ سویلین حکومت میں بہت سے اچھے یا برے کام کر سکتا ہے۔ ماضی میں جو حکومتیںبدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے ختم ہوئیں، ان میں پرنسپل سیکرٹریوں نے وزیرِ اعظم کے حکم پر خلاف ِ ضابطہ کام کیا تھا۔ جب میں ایک امریکی تجزیہ نگار کو پاکستانی سول سروس کے ڈھانچے کے بارے میں بتارہی تھی تو اُس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا: ’’پلیز، لفظ بیوروکریٹ استعمال نہ کرو‘‘۔ پھر میراحیرن کن رد ِ عمل دیکھتے ہوئے اُس نے وضاحت کی: ’’امریکہ میں یہ لفظ منفی معنی رکھتا ہے۔‘‘ایک انگریز مصنف او ر مورخ چارلس کنگزلے کے مطابق: ’’ایک بیوروکریٹ وہ افسر ہے جو سخت گیر اور محدود دفتری روٹین میں رہ کر کام کرتا ہے۔‘‘اس جملے میں ’’سخت گیراور محدود‘‘ قابل ِغور الفاظ ہیں۔ اگر زیادہ ترسرکاری افسروں کا جائزہ لیا جائے تو وہ انہی دو الفاظ کی عملی تعبیر ہوتے ہیں۔ انہی سے تقویت پا کر اُن کی رعونت اور خود پسندی میںاضافہ ہوتا ہے۔ اس بات کی مزید تفہیم کے لیے ہمیں پاکستانی سول سروس کے عروج و زوال پر ایک نظر ڈالنی پڑے گی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد ’’آئی سی ایس‘‘(انڈین سول سروس) کو سی ایس پی میں تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ سال پہلے جب جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو پاکستان میں سول سروس کا زوال بھی نوشتۂ دیوار بن گیا۔ یہ وہ ایام تھے جب عام شہری اخبارات میں سرکاری افسروں کی بدعنوانی ، رعونت اور سیاست دانوں کا آلۂ کار بن جانے کے خلاف خطوط لکھ رہے تھے؛ تاہم کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسروں نے ایک مرتبہ بھی ٹھنڈے دل سے اس معاملے پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی بجائے اُنھوں نے الزام لگا یا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سی ایس پی کو جس تباہی سے دوچار کر دیا تھا، یہ اس سے نہیں سنبھل سکی۔ 1973ء کی انتظامی اصلاحات میں تمام سروسزکو ایک سٹرکچر میں یکجا کرتے ہوئے تمام افسروں کو پیشہ ورانہ مہارت اور اہلیت کی بنیاد پر ایک جیسا موقع فراہم کیا گیا ، چاہے اُنھوں نے کسی بھی مرحلے پر سروس میں شمولیت اختیار کیوں نہ کی ہو؟اس کے بعد پاکستانی سول سروس کو تحلیل کر تے ہوئے اس کی جگہ ’’ڈسٹرک مینجمنٹ گروپ‘‘ قائم کیا گیا۔ ایک سینئرسی ایس پی افسر کا کہنا ہے کہ اس منفی اقدام نے سرکاری افسروں کا اعتمادمتزلزل کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی ناقص انتظامیہ قائم ہو گئی۔ بھٹو صاحب نے ایک اور غلط قدم اٹھایا اور ان سب کو ٹریننگ کے لیے سول سروس اکیڈمی لاہور بھیج دیا۔ اس پر سی ایس پی افسروں نے احتجاج کیا لیکن کسی نے اُن کی ایک نہ سنی۔ آج اُن میں سے اکثر افسر اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اُس وقت کچھ ڈی ایم جی کے افسروں کو ’’پپلیا‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ اُن کو پی پی پی حکومت نے اس کام کے لیے چنا تھا تا کہ وہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کرتے ہوئے پی پی پی کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ اس کا رد ِ عمل منفی ہوا اور اس دھاندلی کے نتیجے میں بھٹو صاحب کے خلاف ملک گیر تحریک چلی۔ اس کے نتیجے میں اُنہیں اقتدار اور بعد میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جب پی ٹی وی 1977ء کے انتخابی نتائج کا اعلان کر رہا تھاکہ صوبہ سرحد، پنجاب اور سندھ سے پی پی پی کے امیدواروں نے میدان مار لیا ہے تو بھٹو صاحب کے پاس ایک سرکاری افسر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ’’عظیم کامیابی‘‘ کی خبر سن کر خوش ہونے کی بجائے وزیر ِ اعظم کا چہرہ زرد ہونا شروع ہو گیا۔ اُن کو سمجھ آنا شروع ہو گئی کہ ڈی ایم جی افسروں نے ’’کام ‘‘ دکھا دیا ہے۔ اس پر بھٹو صاحب ان صوبوں جہاںسے پی پی پی نے کلین سویپ کیا تھا کے چیف سیکرٹریوں پر برس پڑے۔ اُس وقت یہ ڈی ایم جی افسر ان افراد کے لیے بہت کشش کا باعث تھے جن کی جوان بیٹیاں تھیں۔ وہ ان افسروں کو اپنا داماد بنانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ چنانچہ ان افسروں کے لیے کسی کو بھی اپنی دلہن بنا لینا ممکن تھا؛ تاہم ’’اصول‘‘ یہ تھا کہ جتنے امیر خاندان کی ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ ایک سابق سی ایس پی افسر نے اس سوال پر اپنی گہری آنکھوں میں چمک لاتے ہوئے جواب دیا: ’’جن دوستوںنے دولت مند لڑکیوںسے شادی کی تھی، وہ اُس دن پر ماتم کناں ہیں کیونکہ وہ دولت مند بیویاں نہایت تحکم مزاج واقع ہوئیں۔ لیکن جو افسر پیسے کی خاطر شادی کرنے سے نفرت کرتے تھے، انہوں نے تنہا (مجرد) زندگی گزارنا ہی بہتر سمجھا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ اُن کی کم تنخواہ ایک مہنگی بیوی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی‘‘۔ بہرحال صدر ایوب کے دور سے سرکاری افسروں میں بدعنوانی کا عنصر سرایت کرنا شروع ہو گیا تھا لیکن ابھی کھلی لوٹ سیل نہیںلگی تھی۔ جو افسر اپنی تنخواہ سے بڑھ کر زندگی گزار رہے ہوتے، فوراً ہی نظروںمیں آجاتے اور اگر اُسے سیاسی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو سزا بھی ملتی۔ کچھ لوگ جانتے ہیں کہ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کے دور میں ایک پولیس والے نے ڈی سی جھنگ کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا کیونکہ ایس پی پولیس نواب صاحب کا منظور ِ نظر تھا جبکہ ڈی سی کوایسی کسی ’’نگاہوں‘‘ کا سہارا میسر نہ تھا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب غریب ڈی سی تریموں ہیڈ ورکس پر محکمہ آب پاشی کے کسی افسر سے ملنے آیا تھا۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیںہے، مشرف کے دور میں ایک پچاس سالہ جوائنٹ سیکرٹری کی جو بجٹ کی تیاری میں مصروف تھے‘ ان سے عمر میں بیس سال چھوٹے ایم این اے نے پٹائی کر دی تھی۔ اس معاملے کو مکمل طور پر دبا دیا گیا۔ پاکستان میں سول سروس کے عروج و زوال کی داستان پر کئی جلدیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر کے بقول ’’سب سرکاری افسر ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ سی ایس پی افسر بہت عظیم انسان بھی گزرے ہیں لیکن یہ بات تو عام انسانوں پر بھی صادق آتی ہے۔ اُن میں بھی کچھ عظیم انسان پائے جاتے ہیں‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved