ہندوستان میں جوں جوں فرنگیوں کا راج طویل ہو رہا تھا مزاحمت کے نئے دروازے کھل رہے تھے۔ مزاحمت کی ایک قسم وہ تھی کہ جس میں انفرادی طور پہ کچھ لوگ اُٹھتے اور بدیسی طاقت کے ساتھ ٹکرا جاتے۔ دوسری طرف کچھ ریاستوں کے راجہ اپنی ریاستوں کی بقاء کے لیے فرنگیوں سے لڑ رہے تھے۔ مزاحمت کی ایک اور قسم 1857ء میں جنگِ آزادی تھی جو مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف لڑی۔ ان مسلح مزاحمتوں کے ساتھ ساتھ ایک مزاحمت تعلیم کے ذریعے کی جا رہی تھی جس میں کچھ قومی رہنما تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے تھے۔ ایسے میں کچھ لوگ ادب کے ذریعے مزاحمت کر رہے تھے۔ ادب کا ایک رجعت پسندانہ تصور یہ ہے کہ ادب محض لطف لینے اور حظ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے لیکن ہم سامراجی طاقتوں کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اکثر ادب اور زبان کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اِسی طرح کمزور طبقوں کی طرف سے ادب اور زبان کو مزاحمت کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ادب اور شاعری کیسے ہتھیار بنتے ہیں اور اس سے مزاحمت کس طرح ممکن ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ کنٹرول یا بالادستی کا تصور کیا ہے؟ اطالوی مفکر گرامچی (Gramsci) نے اپنی کتاب Prison Notebooks میں اسے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ بالادستی (hegemony) کا تصور کیا ہے اور بالادستی کس طرح قائم کی جاتی ہے۔ بالادستی میں ایک حکمتِ عملی سول سوسائٹی کی ہے جس میں طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً فوج، پولیس اور نوکر شاہی کا استعمال۔ بالادستی کی دوسری حکمتِ عملی سول سوسائٹی کی ہے جس میں روایتی طاقت کے بجائے تعلیم، ادب اور ثقافت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پولیٹیکل سوسائٹی کی حکمتِ عملی میں طاقت کے استعمال سے جسموں پر تسلط حاصل کیا جا سکتا ہے اور سول سوسائٹی کی حکمتِ عملی کے ذریعے ذہنوں کو تسخیر کیا جاتا ہے۔ یوں وہ مضامین مثلاً تعلیم، ادب اور شاعری جو بظاہر بہت معصوم نظر آتے ہیں اپنی اصل میں معصوم نہیں ہوتے بلکہ وہ طاقت اور بالادستی کی تشکیل میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔اس موضوع پر تفصیلی بحث معروف دانشور ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب Orientalism میں کی ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ہمیں طاقت کے رسمی تصور سے آگے دیکھنا ہوگا جس میں روایتی ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہوتا۔ یہ طاقت کا وہ بدلتا ہوا تصور ہے جسے Joseph Nye نے اپنی کتاب Soft Power میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اقبال کی دوربیں نگاہیں اس سے آگاہ تھیں۔ ہندوستان میں فرنگیوں کے تسلط کے خلاف ایک محاذ مسلح مزاحمت کا تھا اور دوسرا محاذ ادب اور ثقافت کے ذریعے مزاحمت کا تھا۔ اقبال اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ شاعری ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے ذہنوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ اب اُس وقت کی صورتحال پر نگاہ ڈالیں تو ہندوستان میں جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ لوگ ذہنی غلامی کا بھی شکار تھے۔ اقبال جانتے تھے کہ ذہنی غلامی جسم کی غلامی سے بدتر ہے کیونکہ ذہنی غلامی میں مسخرہونے والا گروپ خود اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہماری زبان، ہمارا طرزِتعمیر، ہمارا اُٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، ہمارا لباس اور ہمارا ماضی دوسروں سے کمتر ہے لہٰذا زورآور فاتحین کوپورا حق پہنچتا ہے کہ وہ آئیں اورہمیں تسخیرکر لیں۔ مسلمانوں کی اُس وقت کی حالت پر نگاہ ڈالیں توپتہ چلتا ہے وہ پوری طرح سے ذہنی طور پر غلام ہو چکے تھے۔ وہ انگریز کی ہر چیز سے مرعوب تھے۔
ایسے میں اقبال کی شاعری نے ردِ استعمار (Process of Decolonization) میں اہم کردار ادا کیا۔ ردِ استعمارکے عمل سے پہلے ہمیں استعمارکے عمل (Colonization)کو جاننا ہوگا جس میں مفتوح قوم کے افرادکے ذہنوں کو مسخر کر لیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں انہیں یہ باورکرایا جاتا ہے ان کی تہذیب، ان کی زبان، ان کا ادب، ان کا لباس، ان کی طرزِ تعمیر، ان کی خوراک، ان کا ماضی اور ان کی شناخت کم تر اور فرومایہ ہیں۔ اس سارے عمل میں یہ بات اہم ہے کہ مفتوح قوم اس مصنوعی اور کم تر شناخت کو برضا و رغبت قبول کر لیتی ہے جو فاتح قوم نے ثقافت کے اسلحہ خانے میں تشکیل دی ہوتی ہے اور یہ بالادستی (Hegemony) یا کنٹرول کی آخری حد ہوتی ہے‘ جس میں مفتوح قوم اپنی منشا سے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے۔ اس رضاکارانہ تسخیر کو گرامچی Spontaneous Consent کا نام دیتا ہے۔ اقبال نے شاعری کا آغاز کیا تو ان کے سامنے ایک واضح مقصد تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو روایتی شاعر کے روپ میں نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے ایک جگہ لکھا ہے‘ شاعری میں ان کے سامنے ایک مقصدِ خاص تھا۔ میرے خیال میں یہ مقصد ردِ استعمار ) (Decolonization تھا اس عمل کا حاصل ذہنی طور پر مفتوح قوم کو فکری غلامی سے نجات دینا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی اقدار، اپنی زمین، اپنی روایت کو نہ صرف پہچانیں، بلکہ اس کو سراہیں اور اُس سے ایک قدم بڑھ کر اِن کو Celebrate کریں۔ اقبال کی ساری شاعری اسی ردِ استعمار کے عمل (Process of Decolonization) کے گرد گھومتی ہے۔ اقبال نے شاعری کا ذریعہ اختیار کیا تو انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ شاعری کو مزاحمت کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اقبال خود کہتے ہیں:
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر میرا کیا ہے شاعری کیا ہے
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ!
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ
اقبال کی شاعری پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ طاقت کے غیر روایتی تصور سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کے ربط فرنگی نظامِ تعلیم کے ساتھ بھی دیکھ رہے تھے۔ تعلیم اور طاقت کے مابین رشتے کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
اقبال کی ایک اور نظم 'اُمید‘ کے یہ اشعار اس کردار کی طرف اشارہ کرتے جو روایتی شاعر کے کردار سے ماورا ہے۔
مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نہ امیرِ جنود
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود
جبینِ بندہ حق میں نمود ہے جس کی
اُسی جلال سے لبریز ہے ضمیرِ وجود
اقبال نے جب شاعری اختیارکی تو اُن کے ذہن میں یہ واضح تھا کہ اُنہیں محض روایتی شاعری نہیں کرنی۔ ان کے سامنے ردِ استعمار کا ہدف تھا۔ ان کی امیدوں کا محور نوجوان تھے جنہیں وہ یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ ان کا ماضی کوئی خرابہ (Waste Land) نہیں تھا بلکہ وہ ایک روشن روایت کے وارث ہیں۔ اقبال نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اقبال نے نوجوانوں کو یاد دلایا کہ ان کا تعلق جس آسمان سے تھا وہ بہت بلند اور بڑا روشن آسمان تھا۔ اقبال کو معلوم تھا کہ استعمار کا سب سے پہلا نشانہ مفتوح قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ اقبال نے اسی گم گشتہ شناخت کی بازیافت کی تلقین کی۔ اقبال کے ہاں اُس شناخت کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت بطور مسلم ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اقبال کے ہاں شناخت کی دوسری جہت زمین کا حوالہ ہے۔ جاوید کے نام نظم میں وہ لکھتے ہیں:
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
اقبال کا خود شناسی کا یہ پیغام آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کئی برس پہلے تھا۔ آج کل جب پاکستان کے تعلیمی ادارے اور ان میں زیرِ تعلیم نوجوان وطن دشمن عناصر کیلیے سافٹ ٹارگٹس ہیں‘ جنہیں مسلسل منفی پراپیگنڈے سے Disillusionment کا شکار کیا جا رہا ہے‘ اقبال کے اس پیغام کی اہمیت اور زیادہ ہو گئی ہے کہ ہماری اقدار اور ہماری تہذیب ہی ہماری پہچان ہے۔ اقبال کی شاعری امید، رجائیت اور یقین کی شاعری ہے جو نوجوانوں کو اپنی اقدار، اپنی ثقافت اور اپنی پہچان سے جوڑتی ہے۔ اقبال کا پیغام خود کو نئے سرے سے دریافت کرنے کا پیغام ہے‘ خود پر یقین کرنے کا پیغام ہے۔ اپنی دریافت کا یہی سفر ردِ استعمار کا عمل ہے جو اقبال کی شاعری کا محور ہے۔