چولستان کا تاریخی جغرافیہ کسی زمانے میں محدود نہ تھا۔ نہری سسٹم ‘ جو تقریباً نوے سال پہلے نو آبادیاتی نظام کے اقتصادی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا‘ نے اس علاقے کے وسیع ریگستان کو سرسبز کھیتوں‘ باغوں ‘ شہروں اور قصبوں میں تبدیل کر دیا۔ تب دریائے سندھ کے آر پار سب زمینیں فقط غلہ بانی کے لئے ہی موزوں تھیں‘ اور چولستان سے لے کر ملتان اور ڈیرہ جات تک زبان اور ثقافت کے یکساں رنگ تھے۔ خاکسار کے بچپن کے زمانے میں بھی چولستانی طرز کی بو د و باش‘لباس‘ لوک گیت اور موسیقی بلوچستان سے ملحقہ علاقوں تک نمایاں تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ ہماری عورتیں بھی ویسا ہی لباس ویسے ہی رنگوں اور کشیدہ کاری سے بناتیں‘ جو آج کل کے زمانے میں چولستان کی خواتین زیب تن کرتی ہیں۔ ستر برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے‘ لیکن ایک تبدیلی مجھے ہر دم مضطرب رکھتی ہے۔ یہ تبدیلی ہے ہماری مقامی ثقافتوں کا مدہم پڑ جانا ہے۔ ہماری حکومتوں کی تعلیمی اور ثقافتی پالیسیوں کا کلیدی مقصد ایک زبان‘ ایک ثقافت اور ایک قوم کو مرتب کرنا تھا۔ کمزور اور اندیشوں میں گھرے ہوئے ہمارے حکمران‘ سیاسی بھی اور غیر سیاسی بھی‘ لسانی قومیت کے نعروں سے خوف کھاتے تھے۔ طاقت‘ ثقافت‘ ترقی اور سلامتی کا رخ مرکز کی طرف تھا۔ اس کا جو رد عمل ہوا‘ وہ ہمارے سامنے ہمیں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں دیکھنا پڑا۔
نئے پاکستان کی تعمیر ہونے لگی تو ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے قومی ثقافتی پالیسی تشکیل دینے کی ذمہ داری فیض احمد فیض صاحب پر ڈالی۔ فیض صاحب نے اس موضوع پر مشاورت تو ضرور کی‘ سوچ بچار مگر ان کی اپنی تھی۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان کی ثقافت کیا ہے؟ انہوں نے اس سوال کا جواب تاریخ‘ عوام کے رہن سہن اور پاکستان میں شامل تمام علاقوں کی منفرد روایات کو سامنے رکھتے ہوئے دیا۔ انہوں نے جو دستاویز تیار کی وہ آج بھی معتبر ترین ہے۔ ہر علاقے کے نکھرے ہوئے ثقافتی رنگ اپنے طور پر جاذب اور قابلِ تعریف ہیں‘ سو پاکستان کی ثقافت تو قوس قزح کے حسین رنگوں کی طرح ہے۔ سب رنگوں کی پاس داری‘ حفاظت‘ ترویج و ترقی قومی حکومت کا فرض ہے۔ ان سب رنگوں کا امتزاج اور ارتقائی عمل آگے بڑھ کر ایک غالب ثقافتی رویے کو نمایاں کر دے گا۔ پہلی بات ہر علاقائی ثقافت کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ لوگ تو مقامی طور پر اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں‘ اور کیوں نہ بولیں‘ یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ ماں بولی کو ترک کرنا کون سی ترقی‘ علم یا کسی مقام تک پہنچنے کی دلیل ہے۔ میں تو اسے سرے سے ذہنی پستی اور پس ماندگی تصور کرتا ہوں۔ اردو یقیناً ہماری قومی زبان ہے‘ اور ہونی بھی چاہئے اور جس طرح اس زبان نے پاکستان میں پناہ پائی اور ترقی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ فخر کی بات ہے کہ آخر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اسے ایک قومی رابطے کی زبان کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اردو زبان اور اس سے جڑی ہوئی ثقافت نے مقامی زبانوں کو کمزور کیا ہے یا نہیں کیا۔ میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ زبان اور ثقافت کا رشتہ لوگوں کی ان سے اپنی محبت اور اپنائیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے؛ چنانچہ ہمارے اختیار میں ہے اور اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی علاقائی ثقافتوں کا بچائو کریں بلکہ ان کے فروغ اور ترویج کے لئے کردار ادا کریں۔ گھروں اور اپنے علاقوں میں ماں بولی بولیں‘ اور سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ لوک فنکاروں کی سرپرستی کی جائے‘ جو علاقائی زبانوں کی ترویج‘ ان کے فروغ اور ان کی وسعت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ ہمارے مقامی زبانوں کے شاعر‘ فلسفی‘ دانش ور کون تھے‘ ان کا تخلیق کردہ علمی ورثہ کیا ہے‘ اور کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عالمیت کے اس آفاقی دور میں مقامی ثقافتوں کے حوالے سے سب کچھ قصۂ پارینہ ہو کر نہ رہ جائے۔ سئیں فقیرا بھگت کا نام امید ہے کہ آپ نے بھی سن رکھا ہو گا۔ اگر نہیں سنا تو آپ آج بھی اپنے موبائل فون پہ ان کا خواجہ غلام فریدؒ کا گایا ہوا کلام سن سکتے ہیں۔ ایک منفرد انداز جس میں چولستانی‘ راجستھانی دھنیں‘ ساز اور آواز غالب ہیں۔ کئی دہائیاں پہلے خاکسار کو سئیں فقیرا بھگت کو ملنے اور انہیں سننے کا اتفاق اسلام آباد میں لوک ورثہ کے سالانہ میلے میں ہوا تھا۔ عکسی مفتی اور دیگر دوستوں نے ثقافتی میلوں کا انعقاد کر کے لوک ورثہ کو جس طرح محفوظ کیا‘ اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ ان میلوں کے ذریعے ہی انہوں نے ملک کے کونے کونے سے علاقائی فنون اور فنکاروں کو پورے ملک میں متعارف کرایا تھا۔ اس زمانے میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سفارت کار‘ اہلِ علم‘ محقق اور عام گھرانوں کے لوگ ایسے میلوں میں بڑے ذوق و شوق سے شرکت کرتے تھے۔ اس دن سے سئیں فقیرا بھگت بس میرے دل میں ہی بس گیا۔ خواہش ہے کہ کبھی ان کی برسی میں ‘ جو مئی کے مہینے میں چولستان میں منعقد ہوتی ہے‘ شرکت کر سکوں۔
جس خبر نے مجھے بے چین کر دیا ہے وہ فقیرا بھگت کے فرزند موہن بھگت کے حوالے سے تھی ‘ کہ وہ آج کل فصلوں کی کٹائی کر کے گزارہ کر رہا ہے۔ فصلوں کی کٹائی کا جو معاوضہ ملتا ہے اسی میں اس کی گزر بسر ہو رہی ہے۔ موہن نے اپنے والد محترم کا فن سیکھا ہے‘ ریاضت جاری ہے اور جہاں بھی اسے مدعو کیا جائے‘ بس کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ چند سال پہلے ہمارے محترم سابق چیف جسٹس جواد خواجہ صاحب‘ جن سے فقیری کا ہمارا رشتہ پُرانا ہے‘ راجن پور غریب خانہ پر تشریف لائے تو حکم دیا کہ فنکار چولستان اور سندھ سے مدعو کئے جائیں۔ ان علاقوں میں ہم اکٹھا وقت گزارنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور موقع پاتے ہی وہاں زیارت پر چلے جاتے ہیں۔ موہن بھگت اور ان کے کچھ ساتھی سندھ سے تشریف لائے۔ جو رشتہ سئیں فقیرا بھگت سے ٹوٹا تھا‘ موہن کے ساتھ قائم ہو گیا ۔ رابطہ بھی رہتا ہے اور موقع ملے تو اسے کسی تقریب میں آنے کی زحمت بھی دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ موہن کو لمز میں مدعو کیا تھا تو لگتا تھا کہ ساری جامعہ کے طلبا و طالبات امڈ کر آ گئے ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ موہن اور اس طرح کے سینکڑوں دوسرے فنکار بس صرف اپنی روایت اور شوق کو قائم رکھے ہوئے ہیں‘ ورنہ یہ سب اب ان کے لئے گھاٹے کا سودا بن چکا ہے۔ ریاضت زیادہ کرنا پڑی ہے‘ ملتا اتنا بھی نہیں کہ آسودگی سے گزر بسر ہی کر سکیں۔ ہماری موسیقی اور ثقافت کے حوالے سے پسند اور ناپسند کے معیار خاصے تبدیل ہو چکے ہیں۔ پُرانے زمانے میں زمیندار‘ صاحبِ ثروت اور اہلِ ذوق موسیقی کی محفلیں اپنے گھروں اور ڈیروں پہ باقاعدگی سے سجاتے تھے۔ فن کی قدر اور فنکاروں کی سرپرستی نہیں ہو گی تو ہمارے علاقائی ثقافتی رنگ مٹ جائیں گے۔ آج کے دور میں تو لوگوں کے پاس پیسے کی بہت بہتات ہے‘ کروڑوں نہیں اربوں روپے ہمارے امیر لوگ باہر سیر سپاٹے میں ہر سال اڑاتے ہیں۔ اب کورونا آڑے آیا ہوا ہے۔ یہ خاکسار امریکہ اور بھارت میں موسیقی کی کئی محفلوں میں شریک ہوتا رہا ہے۔ ہر قسم کی موسیقی سے لطف اندوز ہونا ہر شخص کی فطرت میں ہے۔ اپنی زبان اور ثقافت سے متعلق موسیقی کا کچھ اتنا ہی جادوئی اثر ہے کہ شعور کی گہری تہوں تک سرایت کر جاتاہے۔
اب جبکہ ہزاروں ارب بلکہ سینکڑوں کھرب ملک میں بھاری بھرکم صنعت کاروں سے لے کر مزدوروں تک میں بانٹے جا رہے ہیں تو کچھ ان لوک فنکاروں کا بھی خیال کیا جانا چاہئے جو ملک کی ہر بستی‘ گائوں اور علاقے میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک نظر ادھر بھی سرکار جی۔ آخری بات یہ کہ اگر لوک فن اور فن کاروں کو زندہ رکھنا ہے تو ان کی سرپرستی کریں‘ انہیں خوشیوں میں شریک کریں اور اپنی تفریحی اور ثقافتی ترجیہات پر ایک بار پھر سے نظر ثانی کریں ۔