تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-05-2020

قصہ مرزا کی ’’زباں بندی‘‘ کا

کیا غضب ہے کہ حالات کے ہاتھوں یہ وقت بھی آنا تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ کبھی کوئی ایسی وباء بھی پھیلے گی کہ اوروں کے ساتھ ساتھ مرزا تنقید بیگ کو بھی گھر میں بیٹھنا پڑے گا۔ اور وہ بھی گھنٹے دو گھنٹے کے لیے نہیں بلکہ نامعلوم مدت کے لیے! 
حکومت کہتی ہے کہ کورونا وائرس کی وباء کے ہاتھوں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اُس کا تقاضا ہے کہ لوگ فاصلہ رکھیں یعنی کم کم ملیں۔ اب مرزا گھر میں یوں بند ہیں کہ اہلِ خانہ نے دونوں ہاتھوں سے دل و جگر تھام رکھے ہیں۔ گھر میں مرزا کے دُبکے رہنے سے ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ مرزا دُبکے تو رہ سکتے ہیں‘ چُپکے نہیں رہ سکتے! کل تک بولنا مرزا کی عادت کا درجہ رکھتا تھا۔ خیر سے اُنہوں نے اس عادت پر اتنی محنت کی ہے کہ اب اسے کم و بیش بیماری کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے! مرزا کو بولنے کا ہَوکا ہے۔ سانس لیے بغیر تو وہ شاید زندہ رہ لیں‘ یومیہ بنیاد پر ٹھیک ٹھاک بولے یا منجن بیچے بغیر نہیں جی سکتے۔ ہم جیسے مرزا کی ''کور کمیٹی‘‘ کے لوگ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ''سوشل ڈسٹنسنگ‘‘ کے اِن دنوں میں مرزا کے اہلِ خانہ پر کیا بیت رہی ہوگی! 
ہم بھی گھر میں بیٹھے بیٹھے بیزار ہوچلے ہیں۔ ایک آدھ دن کی بات ہو تو کوئی جھیل بھی لے۔ یہاں تو زندگی ہی تھمی ہوئی ہے۔ فضاء میں آکسیجن کم اور تعطل زیادہ ہے۔ ایسے میں کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ کل شام خیال آیا کہ کہیں اور نہیں جاسکتے تو کیا ہوا‘ مرزا کے ہاں تو جا ہی سکتے ہیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ پلک جھپکتے میں ہم اُن کی گلی میں تھے۔ ہم نے مرزا کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور مرزا نمودار ہوئے۔ ہم اُنہیں دیکھ کر ایک لمحے کو سکتے میں رہ گئے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اُن کا چہرہ بُجھا ہوا تھا۔ جینے سے بیزاری چہرے سے نمایاں تھی۔ ہم فوراً سمجھ گئے کہ مرزا چونکہ گھر میں چار دیواری تک محدود ہیں اِس لیے کوئی سامع نصیب نہیں ہو رہا! ہم نے مزاج پوچھے تو مرزا نے جو جواب دیا وہ اگر شعری زبان میں کہیں تو کچھ یوں ہوگا ع
کیوں پوچھتے ہو کیا تم سے کہوں‘ میں کس لیے جیتا ہوں! 
ہمیں اُن کے لہجے کی پژمردگی محسوس کرکے بہت دکھ ہوا۔ مرزا تو اپنے ''حُسنِ خطابت‘‘ کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اگر خطابت کا شوق رکھنے والے کو بولنے ہی سے روک دیا جائے تو؟ اُس کے دل و دماغ پر قیامت کا ٹوٹنا تو فطری امر ہے۔ مرزا کا بھی یہی حال ہے۔ 
جب ہم مل بیٹھے تو رسمی دعا سلام کے بعد کہانی شروع ہوئی۔ مرزا کے لیے یہ بات سوہانِ روح تھی کہ مل بیٹھنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ایسا کرنا ناگزیر تھا کیونکہ کورونا وائرس کی وباء مل بیٹھنے ہی سے زیادہ پھیل رہی ہے۔ مرزا نے تُنک کر کہا ''ارے رہنے دو میاں۔ دنیا کا کون سا کام ہے جو مل جل کر کیے بغیر ہو رہا ہے۔ جتنی بھی پابندیاں ہیں وہ لے دے کر ہمارے ہی لیے رہ گئی ہیں۔ تان ٹوٹتی ہے تو بس غریب کی گردن تک پہنچ کر‘‘۔ 
ہم نے وضاحت کی کہ لاک ڈاؤن لازم تھا تاکہ لوگ جمع نہ ہوں اور وباء کا دائرہ وسعت اختیار نہ کرے۔ مرزا نے ہمیں ٹوکتے ہوئے کہا ''صاف کیوں نہیں کہتے کہ یہ سارا میلہ ہمیں خاموش کرانے کے لیے لگایا گیا ہے!‘‘ مرزا کی بات سُن کر ہمیں چند لمحات تک تو کچھ سُوجھا ہی نہیں کہ کیا جواب دیں۔ کہتے بھی تو کیا کہتے؟ بولنا تو مرزا کا جینا مرنا ہے۔ وہ تھوڑی دیر بھی خاموش رہیں تو لوگوں کو عجیب سے لگنے لگتے ہیں! اب مسئلہ یہ ہے کہ جب لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے تو بات کس سے کی جائے؟ دیواروں کو تو کچھ سُنایا نہیں جاسکتا۔ اور مرزا کے اہلِ خانہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب مرزا کچھ کہتے ہیں وہ اِس طور سُنتے ہیں گویا دیوار ہوں! اِس میں اہلِ خانہ کا کوئی قصور نہیں۔ مرزا کی باتوں میں اچھے خاصے انسان کو دیوار بنانے کی تاثیر پائی جاتی ہے! ہم ابھی اُدھیڑ بُن کے مرحلے میں تھے کہ مرزا ہم سے مخاطب ہوئے ''دیکھو بھائی! یہ کورونا وورونا جو کچھ بھی ہے‘ یہ کوئی عِفریت ہے کیا جو ہم پر سوار ہو جائے؟ بدحواس ہونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ قوم باؤلی ہوگئی ہے۔ اور پھر 'تمہارے والے‘ بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے‘‘۔ 
''تمہارے والے‘‘ سے مرزا کا اشارا ہماری برادری یعنی میڈیا والوں کی طرف تھا۔ مرزا میڈیا سے ہمیشہ شاکی رہے ہیں۔ ویسے اُن کی دکان چلتی ہی میڈیا والوں کی بدولت ہے۔ مرزا دن بھر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ جو کچھ سُنتے ہیں اُس کے نتیجے میں دماغ میں بننے والی لَسّی دوسروں کو پلانے کے لیے سرِشام گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وہ ہیں اور ٹی وی سکرین ہے۔ دن بھر ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم چینل اُن کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر کے ''نظریات‘‘ سُن کر جب وہ کچھ سُنانے کی سوچتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ باہر کوئی ایسی جگہ تو اب رہی نہیں جہاں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی سُنی جائے یعنی صرف مرزا کو سُنا جائے۔ مرزا روزانہ دماغ میں جو ہنڈیا پکاتے ہیں وہ یونہی کچرے میں پھینکنا پڑتی ہے۔ کسی کو دے اِس لیے نہیں سکتے کہ یہ مال بخوشی لینے والے خال خال ہیں! ہم بھی تو اب اُن سے کم کم مل رہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم مرزا کی باتیں یہ سوچ کر سُنتے ہیں کہ شاید اِس مشقّت کے صلے میں ہمارے گناہوں کا گراف کچھ گِر جائے! لاک ڈاؤن سے کیا ملا اور کیا نہ مل سکا یہ بحث قبل از وقت ہے ‘مگر ایک بات ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں ... یہ کہ لاک ڈاؤن نے مرزا کے اہلِ خانہ سے کچھ اچھا نہیں کیا۔ اُن کا ایسا کیا قصور تھا کہ وہ دم بہ دم مرزا کو جھیلنے پر مجبور ہیں! جب سے مرزا کا کہیں آنا جانا بند ہوا ہے‘ گھر کا عجیب حال ہے۔ بچے تو بچے‘ بھابھی بھی سہمی سہمی رہتی ہیں۔ کس میں اِتنی ہمت ہے کہ مرزا کے دماغ میں تیار ہونے والی لَسّی کا ایک گھونٹ بھی کانوں کے حلق سے اُتارے! مرزا نے کبھی پڑوسیوں سے بھی اِتنی بناکر نہیں رکھی کہ وہ اُن کے دماغ میں کُلبلانے والے خیالات خوشی خوشی سُنیں۔ انسان کو ایسے مواقع پر خیال آتا ہے کہ پڑوسی کتنی بڑی نعمت ثابت ہوسکتے ہیں۔ 
خیر‘ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال کا فیضان ہے کہ مرزا منہ کو لگام دیئے بیٹھے ہیں۔ اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہر حال میں مروّت کے مارے گردن جھکا دینے والے احباب مرزا کی ''شَر بیانی‘‘ سے محفوظ رہیں! ہاں‘ اہلِ خانہ کہاں جائیں اِس حوالے سے ریاستی مشینری کے پاس کوئی ایس او پی ہے نہ روڈ میپ! ریاست کو تمام شہریوں کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔ مرزا کے اہلِ خانہ بھی اِسی ریاست کے شہری ہیں۔ اُن کا بھی حق بنتا ہے کہ اُن کے مفادات کے بارے میں سوچا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved