لیکن ہندوستان کی ایک اور ملکہ کے گھر جانے کا تومجھے موقع مل گیا۔وہ بھی پورے ہندوستان کی حکمران تھی ۔وہ بھی اپنے خانوادے کی لاڈلی تھی ۔اس کے بھی بڑے کارنامے تھے۔وہ بھی ایک بغاوت میں ماری گئی ۔ اس کا مقدر بھی غیر طبعی موت تھی۔ہندوستان کی ایسی ملکہ جس کا طوطی دنیا میں بولتا تھا۔اس دن دوپہر کے وقت میں 1۔ صفدر جنگ روڈ نئی دہلی میں داخل ہوا تو دھوپ تیز تھی اور دروازے کا سنتری بے حال کھڑا تھا۔اس نے ایک بیزاری سے مجھے دیکھا اور گردن ہلانے کی زحمت کیے بغیر منہ دوسری طرف پھیرلیا۔ یہی گھر میں داخلے کی اجازت تھی۔ یہ ہندوستان کی دو بار وزیر اعظم اندرا پریا درشنی گاندھی کا گھر تھا ۔اسی گھر میں انہوں نے بیس سال گزارے۔جواہر لال نہرو کے بعد اتنی طویل مدت ہندوستان کے کسی اور وزیر اعظم کو نہیں ملی ۔ 31اکتوبر 1984ء کو وہ اسی گھر میں قتل ہوئیں تھیں اور یہ گھر اب ان کی یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا گیا ہے۔یہ گھر بڑا ہے اگرچہ شان و شوکت والا نہیں‘لیکن مکان کی شان تو مکین سے ہوتی ہے۔اس گھر کے اہم حصے سب کھلے تھے۔ اندرا گاندھی کی سٹڈی اب تک یاد ہے ۔ مشاہیر کی کتب بے شمار تھیں جن میں چارلس ڈیگال اور ارونگ سٹون کی کتابیں یاد رہ گئیں۔
31اکتوبر 1984ء کی صبح پیلی سوتی ساڑھی میں ملبوس اندرا گاندھی دو تین لوگوں کے ساتھ رہائشی حصے سے دفتری حصے میں جانے کے لیے نکلیں تو وہاں آئرش ٹی وی کی ایک ٹیم ایک ڈاکو منٹری انٹرویو کے لیے ان کا انتظار کر رہی تھی۔ان کے سامنے سے ایک پرانا ملازم چائے کی پیالیاں لے کر گزرا جن میں آئرش مہمانوں کو چائے پلائی جانی تھی ۔ اندرا گاندھی نے اسے ٹوک کر کہا کہ یہ نہیں ‘ دوسرا وہ والا سیٹ نکالو۔ اس ہدایت کے بعد وہ پھر چل پڑیں۔لان کی روش پردروازے سے پہلے تین لوگ ان کا انتظار کررہے تھے۔ دو ذاتی سکھ محافظ‘ جن کے نام بے انت سنگھ اور ستوت سنگھ لوگوں کو بعد میں معلوم ہوئے ۔لان کی جس لمبی روش پر چل کر اندار گاندھی اس طرف آرہی تھیں ۔وہ خطرناک روش تھی ۔ ہر دو معنوں میں ۔ یہ پیچھے ماضی قریب کے خطرناک واقعات تک پھیلی ہوئی تھی۔سکھوں میں بغاوت اور خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے اندرا گاندھی نے چار ماہ قبل آپریشن بلیو سٹار کا حکم دیا تھا۔
ہندوستانی فوج نے اکال تخت یعنی گولڈن ٹیمپل امرتسر پر بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے ساتھ چڑھائی کی ۔مبینہ طور پر جوتوں سمیت مقدس عبادت گاہ میں داخل ہوئے ۔مسلح باغی جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے ساتھ کئی دن مقابلے کے بعد ہلاک کردئیے گئے لیکن اس عرصے میں گولڈن ٹیمپل کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا تھا‘لیکن یہ نقصان اس کے مقابلے میں کم تھا جو سکھوں کے دلوں کو پہنچا تھا۔اندرا گاندھی اورحکومت کے خلاف ایک فضا بن گئی ۔انٹیلی جنس ایجنسیز نے تمام سکھ محافظوں کو اندرا گاندھی کی حفاظت سے الگ کرنے کا مشورہ دیا‘لیکن اندرا گاندھی سمجھتی تھیں کہ اس سے فضا ان کے اور خلاف ہوگی‘اس لیے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔بے انت سنگھ ان کا پسندیدہ اور دس سال پرانا محافظ تھا‘جبکہ ستوت سنگھ اس عملے میں چند ماہ قبل شامل ہوا تھا۔روش کا وہ حصہ شیشے کا ہے جہاں اندرا گاندھی سٹین گن اور ریوالور کی گولیوں کا نشانہ بن کر گریں۔انہیں33 گولیاں ماری گئیں جن میں سے30انہیں لگیں۔دونوں محافظوں نے اس کے بعد اپنے ہتھیار پھینک دئیے ۔بے انت نے کہا کہ میں نے اپنا کام کردیا ‘اب تم میرے ساتھ جو چاہے کرو۔بے انت سنگھ کو دوسرے محافظوں نے موقع پر ہلاک کردیا ۔شدید زخمی اندرا گاندھی کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن ان کا وقت آچکا تھا۔بعد میں ستوت سنگھ اور ایک اور ملوث سکھ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ مجھے خیال آیا کہ حکمرانوں کی جان تو ہر وقت سولی پر ٹنگی رہتی ہی ہے ۔لیکن اکثر موت آتی اس طرف سے ہے جہاں سے سان گمان بھی نہیں ہوتا۔پھراندرا کے بڑے بیٹے سنجے گاندھی کو ان کی سیاسی وراثت کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔سنجے گاندھی اگرچہ شوقیہ پائلٹ تھا لیکن وہ بہت سی احتیاطوں کو نظر انداز کردیا کرتا تھا اور خطرناک کرتب بھی اس کا شوق تھا۔بتایا جاتا ہے کہ اس کے بڑے بھائی راجیو گاندھی نے‘جو خود بھی ایک کمرشل پائلٹ تھا ‘ اسے کئی بار متنبہ کیا کہ ہوابازی کے دوران مخصوص جوتے پہنا کرو اور کولہا پوری چپل مت پہنا کرو‘ لیکن سنجے نے ہمیشہ اس بات کو ہوا میں اڑا دیا۔
کچھ باتیں بہت پراسرار اور عجیب ہوتی ہیں ۔21مئی 1991ء کے دن میرے گھر ایک ہندوستانی عزیز رات کے کھانے پر مدعو تھے۔وقت لگ بھگ نو بج کر چالیس منٹ کا ہوگا۔میں ان سے ہندوستان کے حالا ت پوچھ رہا تھا‘ دوران گفتگو میرے منہ سے نکلا کہ اگر راجیو گاندھی کے مخالفین انہیں ختم کردیں تو نہر و خاندان ختم ہوکر رہ جائے گا۔ اس کا کوئی سان گمان بھی نہیں تھا لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ عین اس وقت ہندوستانی وقت کے مطابق رات دس بج کر دس منٹ پر مدراس کے قریبی گاؤں سری پرم بدرمیں ایک خود کش تامل عورت عین اسی وقت راجیو کو دھماکے سے اڑانے کے لیے اس کے پیروں میں جھک رہی تھی۔ یہ حادثہ جو کانگریس کے مخالفین کے بھی وہم و خیال میں نہیں تھا‘ان کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا۔راجیو کے بعد نہرو خاندان کی طلسماتی کشش ختم ہوگئی اورکانگریس ‘ سونیا ‘ راہول وغیرہ کی سرتوڑ کوشش کے باجود اس کشش کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔میں اکبر روڈ اور صفدر جنگ روڈ کے سنگم پر اس بنگلے سے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ قدرت کے عجیب فیصلے ہیں ۔ جو گولیاں ان کی حفاظت کے لیے تھیں‘ وہ ان کے جسم میں پیوست ہوئیں اور جو محافظ ان کے ایک ایک قدم کی دیکھ بھال کے لیے تھے وہ انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے منصوبہ بنا کر بیٹھے تھے۔یہ اوپر ہونے والے وہ فیصلے ہیں جن کا ہونے سے قبل سان گمان بھی نہیں ہوتا لیکن جو ہوکر رہتے ہیں۔میں بطور پاکستانی اندرا گاندھی کے لگائے زخموں ‘اور زہریلی دشمنی کے باوجوداس ذہانت کا معترف ہوں ۔اس دن بھی جب میں 1صفدر جنگ کی فضا سے نکلا تو ہندوستانی وزیر اعظم کے یہ قول میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ''مکہ بنائی مٹھی سے مصافحہ نہیں کیا جاسکتا۔
شہادت کسی چیز کا خاتمہ نہیں ‘آغاز ہوتا ہے ،میرے دادا نے ایک بار مجھ سے کہا کہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک کام کرنے والے۔دوسرے کریڈٹ سمیٹنے والے۔تم کوشش کرنا کہ پہلے گروپ میں رہو۔اور سچ یہ ہے کہ اس گروپ میں مسابقت بہت ہی کم تھی ۔جب بھی آپ کوئی قدم آگے بڑھائیں گے ‘آپ لازمی طور پر کسی چیز کو پریشان کردیں گے۔ہندوستان میں کوئی ایسا جرأت مند سیاست دان نہیں پایا جاتا جو عوام کو یہ بتانے کی کوشش کرے کہ گائے کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ان وزیروں سے باخبر رہنا چاہیے جو پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے‘اور ان سے بھی جو ہر کام پیسے سے کرتے ہیں ‘ ‘ ۔