وزیر اعظم ہائوس میں آج صبح ہی سے بڑی چہل پہل ہے۔ فروری کی 20 یا 21 تاریخ ہے۔ صوفوں اور کرسیوں کو ترتیب سے رکھا جا رہا ہے۔ رگڑ رگڑ کر ان کی میل صاف کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کا ذاتی عملہ بھی آتا جا رہا ہے۔ ملٹری سیکرٹری، اے ڈی سی چاق و چوبند کھڑے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے تو یہاں ان کا دفتر تھا اور رہائش بھی۔ ان کے ملاقاتی یہیں آتے اور بڑے بڑے اجلاس بھی یہیں منعقد ہوتے۔ یہاں ایک بڑی نشست گاہ بھی تعمیر کر ڈالی گئی تھی۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ‘ جسے بڑے چائو سے تعمیر کیا گیا تھا اور جہاں وزیر اعظم کے عملے اور ان کے رفقا کے درجنوں دفاتر موجود تھے۔ بڑی تقریبات کے لئے ہال بھی آراستہ کیا گیا تھا۔ وہ طویل عرصہ تک وزیر اعظم کے زیر استعمال نہ رہ سکا۔ نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کے بعد سادگی کا بخار چڑھا تو وہ اپنے گھر تک محدود ہو گئے اور وہاں احتساب بیورو کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہیں وزیر اعظم ہائوس ایک آنکھ نہ بھایا۔ اسے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، لیکن آہستہ آہستہ خاموشی چھاتی گئی۔ اس ہائوس کو اس کی شناخت سے محروم کرنے کا جذبہ ماند پڑتا گیا۔ ایک عرصے بعد یہاں تقریب کا سماں تھا۔ کوئی دس بجے ہوں گے کہ مہمان آنا شروع ہو گئے۔ ملٹری سیکرٹری دوڑ کر بیرونی دروازے کی طرف لپکے، ایک درمیانی سی کار وہاں آ کر رک چکی تھی۔ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف برآمد ہو رہے تھے۔ ملٹری سیکرٹری ان کی طرف لپکے، جھک کر ملے۔ بڑے ادب سے اندر لے کر آئے اور انہیں بڑے ہال کی ایک بڑی کرسی پر بٹھا دیا، جو شاید وزیر اعظم کی نشست کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ شہباز شریف کے چہرے پر خیر سگالی اور اخوت کا جذبہ نمایاں تھا۔ چند ہی منٹ بعد مولانا فضل الرحمن بھی تشریف لے آئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی گاڑی بھی آ پہنچی۔ اس کے بعد تو تانتا بندھ گیا۔ سینیٹر سراج الحق، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپائو، اختر مینگل، مقبول صدیقی آتے اور نشستیں سنبھالتے گئے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سینیٹ کے قائد ایوان شبلی فراز، قائد حزب اختلاف شیری رحمن، ان کے جلو میں چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، غرض ہر اس سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ موجود تھا‘ پارلیمنٹ میں جس کی نمائندگی ہے۔ اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، شیریں مزاری اور کئی دوسرے وزرا بھی رونق افروز تھے۔ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی تشریف لے آئے۔ کسی چہرے پر افسردگی یا کدورت نہیں تھی۔
کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم عمران خان تشریف لے آئے، وہ چونکہ بنی گالہ سے آ رہے تھے، اس لئے اپنے مہمانوں کا خود استقبال نہ کر پائے تھے۔ اس پر معذرت خواہ تھے۔ ہر ایک سے بڑی محبت سے مل رہے تھے۔ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کا منظر دیدنی تھا، کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ بتا رہا تھا کہ فریقین ایک دوسرے کو معاف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے۔ چند ہی لمحوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تشریف لے آئے، ان کے ساتھ میجر جنرل آصف غفور بھی تھے۔ مہمانوں اور میزبان کو نشستیں سنبھالتے دیر نہ لگی۔ قرآن کریم کی تلاوت نے ماحول کو سنجیدہ بنا دیا اس کے بعد وزیر اعظم نے مائیک سنبھال لیا، جو ان کے سامنے رکھی میز پر پہلے ہی سے موجود تھا۔ ان کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی: معزز خواتین و حضرات، میں آپ کا از حد شکر گزار ہوں کہ آپ میری دعوت پر یہاں تشریف لائے۔ میں محترم میاں شہباز شریف کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ لندن سے بھاگم بھاگ یہاں پہنچے ہیں۔ آپ سب اس حقیقت سے با خبر ہیں، پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس وقت ایک عالمی وبا کی زد میں ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اس طرح کی وبا اس سے پہلے نہیں پھیلی۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہو کر یہ یورپ اور امریکہ کا رخ کر رہی ہے اور پاکستان میں بھی اس کے آثار ملے ہیں۔ باہر سے آنے والے چند افراد اس میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ یہ وبا جسے ہم سب کورونا وائرس کے نام سے جان رہے ہیں ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس کے کیریئر میں کوئی علامات بھی نہیں ہوتیں، لیکن وہ اسے اپنے ملنے والے کو منتقل کر دیتا ہے۔ بہت سے لوگ اس سے صحت یاب بھی ہو چکے ہیں، لیکن یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس وبا نے پوری نوع انسانی کو زد میں لے لیا ہے۔ فی الحال اس کا کوئی مؤثر علاج دریافت نہیں ہوا، اس کی ویکسین بھی موجود نہیں۔ اس کے اثرات کو محدود کرنے کے لئے چین نے لاک ڈائون کو آزمایا اور پورے شہر ووہان کے شہریوں کو اپنے گھروں میں بند کر دیا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک چند کیسز ہوئے ہیں لیکن اس کے پھیلائو کا خدشہ موجود ہے۔ ہماری آبادی اور اس میں کم وسیلہ لوگوں کی بھاری تعداد کو مدنظر رکھا جائے تو یہاں لاک ڈائون کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ بھوک سے تڑپنے لگیں گے، لیکن اس وبا کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے سماجی رابطوں کو کم سے کم کرنا ہو گا۔ اس وبا کی نوعیت اور ماہیت پر آپ کو ڈاکٹر ظفر چودھری اور ڈاکٹر فیصل سلطان بریف کریں گے۔ میں آپ سے صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ہم سب ایک ہو جائیں اور ہر سطح پر مشترکہ کمیٹیاں بنا کر دیہاڑی داروں اور بے روزگار ہو جانے والوں کی نشاندہی کریں، ان تک پہنچیں۔ گلی گلی، محلے محلے، بستی بستی ان کے گھروں تک راشن پہنچائیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، تاکہ کوئی ایک فرد بھی بھوک کا شکار نہ ہو سکے۔ ہمارے وسائل کم ہیں لیکن ہم نے ماضی میں کئی بار قومی اتحاد اور بے پایاں جذبے کی بدولت مشکلات کے پہاڑ سر کئے ہیں۔ ہم اب بھی ایسا کر کے دکھا سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک ہو کر آگے بڑھیں۔ جماعتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ جائیں۔ ایک دوسرے کی طاقت بنیں، ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو اپنے نقصانات کو کم سے کم کر سکیں گے۔ وسائل کی کمی پر قابو پا سکیں گے۔ سماجی خدمت بجا لانے والی تنظیمیں پہلے ہی کمربستہ ہیں۔ اخوت، الخدمت، ایدھی فائونڈیشن، سیلانی ٹرسٹ کئی غیر سرکاری تنظیمیں ایسی ہیں جن کا کردار مثالی ہے۔ ہمارے لوگوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ بھی بے مثال ہے۔ پوری دنیا اس کا اعتراف کرتی ہے۔ مجھے امید ہے ہم سب مل کر اس وبا کو زیر کر سکتے ہیں۔ طبی سہولتوں کو بھی بہتر بنا سکتے اور ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جہاد کے جذبے سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ مسلح افواج کی صلاحیت اور معاونت سے بھی معجزے کر کے دکھا سکتے ہیں۔ 65 کی جنگ کا جذبہ ایک بار پھر بیدار کر کے، اپنے غیر مرئی دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
وزیر اعظم یہاں تک پہنچے تھے کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ داد و تحسین کے پھول برسنے لگے، ہر شخص اسی جذبے سے سرشار معلوم ہو رہا تھا۔ میری آنکھیں اور کان اس منظر میں گم تھے کہ میرے پوتے ایان کی آواز بلند ہوئی، دادا، دادا اُٹھئے، کب تک سوتے رہیں گے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا، پھر فوراً آنکھیں دوبارہ بند کر لیں کہ اجلاس کی کارروائی کو آگے بڑھتا دیکھ سکوں لیکن منظر غائب تھا۔ اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو چکا تھا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]