فردوس عاشق اعوان صاحبہ سے میری پہلی ملاقات دو ہزار دو کی اسمبلی کے وقت میرے دوست ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے پارلیمنٹ لاج میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر شیر افگن اپنی فیملی ساتھ وہاں مقیم تھے۔
ہر روز رات کو ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے ڈرائنگ روم میں محفل جمتی۔ پہلے دیسی مرغی کا دور چلتا اور پھر ڈاکٹر شیر افگن مجھے کہتے: اب اپنے یار کے لیے مکھنڈی حلوہ خود بنائوں گا۔ اس وقت تک میرے علاوہ تنویر ملک ، خرم نیازی اور دو تین اور مہمان بچ گئے ہوتے تھے۔ ایسا لذیذ حلوہ شاید ہی کبھی کھایا ہو۔ ان کا بیٹا امجد خان نیازی‘ جو اس وقت ایم این اے ہے‘ ڈاکٹر شیرافگن کی طرح ہمارے جیسے دوست بنانے پر یقین نہیں رکھتا لہٰذا جہاں دس برس مسلسل ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ ہر شام گزری وہیں امجد خان‘ جسے ایم این اے بنے سات برس ہوگئے ہیں‘ سے بمشکل سات دفعہ ملاقات ہوئی ہو گی۔ خیر بات ہورہی تھی ڈاکٹر شیر افگن کی محفل کی جس میں اکثر فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہوجاتیں۔ پھر ان سے ملاقات اگست 2007 میں لندن ہوئی‘ جہاں وہ جنرل مشرف کی ق لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی جوائن کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے کسی اور ایم این اے کو پارٹی میں نہیں لیا لیکن حیران کن طور پر فردوس عاشق اعوان کو شامل کر لیا گیا۔ مجھے حیرانی تھی کیونکہ شاہ محمود قریشی کے پاس پنجاب تو ڈاکٹر صفدر عباسی کے پاس سندھ کے ایم این ایز کی فہرستیں تھیں‘ جو جنرل مشرف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ بینظیر بھٹو کسی کو بھی پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ دینے کو تیار نہ تھیں۔ ذرائع نے بتایا: بینظیر بھٹو کا خیال تھا‘ ہماری جنرل مشرف کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے‘ پیپلز پارٹی کے ایم این ایز جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ ووٹ نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے پوزیشن لے رکھی ہے۔ جنرل مشرف وردی کے ساتھ صدر بننے پر بضد تھے۔ پیپلز پارٹی نے کہا‘ ٹھیک ہے آپ اپنی پارٹی سے ووٹ لے لیں، ہم ووٹنگ کے عمل سے بائیکاٹ کریں گے تاکہ ہم پر الزام نہ لگے کہ وردی کے ساتھ ایک جنرل کو صدر کا ووٹ دے دیا۔ یوں خاموش انڈرسٹینڈنگ یہی ہورہی تھی کہ جنرل صاحب اپنی پارٹی سے ووٹ لے لیں تاکہ ان کا کام بھی ہوجائے اور پیپلز پارٹی پر بھی انگلی نہ اٹھے۔ اب بینظیر بھٹو نے اپنے سیانے سیاسی مشیروں سے پوچھا :اگر ہم جنرل مشرف کی اس ق لیگ کو اپنے اندر لے آتے ہیں تو پہلی بات یہ ہے وہ کیسے وردی کے ساتھ منتخب ہوں گے لیکن اگر ہم نے ان کے بندے توڑ لیے تو پھر ہمیں ان کو ووٹ دینا پڑے گا‘ کیونکہ امریکن یہی ڈیل کرارہے تھے۔ تو بہتر ہے ان سب کو جنرل مشرف کو ووٹ دینے دیں‘ ہم کیونکہ خواہ مخواہ اس کھیل میں خود کو خراب کرائیں۔ سیاسی طور پر بینظیر بھٹو کی بات میں وزن تھا؛ تاہم اس ساری ڈیل اور دبائو کے باوجود بینظیر بھٹو نے حیران کن طور پر فردوس عاشق اعوان کو پارٹی میں شامل کر لیا۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اس میں رحمن ملک کا بہت ہاتھ تھا کیونکہ دونوں کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ بینظیر بھٹو رحمن ملک کی سفارش نہ ٹال سکیں۔ رحمن ملک نے اپنے شہر کی خاتون سیاستدان کو بہت عزت دلوائی تھی۔ بعد میں انہیں زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے سب سے طاقتور وزارت اطلاعات سونپ دی۔ مشرف نے انہیں پارلیمانی سیکرٹری بنایا تھا تو زرداری نے سیدھا وفاقی وزیر بنا دیا اور اب عمران خان نے بھی وزارت دے دی تھی۔
بتانے کا مقصد یہ ہے فردوس عاشق اعوان ہر دور میں کوئی تعلق یا سفارش نکال لیتی ہیں چاہے جنرل مشرف ہوں، بینظیر بھٹو، آصف زرداری یا اب عمران خان۔ سب ان کو اکاموڈیٹ کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے جب فردوس عاشق اعوان کو اچانک پچھلے برس عمران خان نے اپنا مشیر بنایا تو یقین کریں سب حیران تھے لیکن میں حیران نہ ہوا۔ سب پوچھتے: خاتون نے کہاں سے سفارش تلاش کی ۔کئی طاقتور خواتین اورمردوں کے نام لیے گئے تو میں نے ہنس کر کہا تھا: جنرل مشرف، بینظیر بھٹو، زرداری دور میں تو یہ آج کے طاقتور لوگ موجود نہیں تھے لیکن وہ پھر بھی وزارتوں پر فائز رہیں۔ میں نے کہا: جو بھی ہے میڈم کے پاس گیدڑ سنگھی ہے جو وہ سب کو سنگھا کر اپنا سیاسی مقصد پورا کر لیتی ہیں یا پھر ہمارے سرائیکی میں کہتے ہیں متھے دا بخت سائیں (مطلب خوش نصیب ہیں)۔ اب یہ بات ہمیں اچھی لگے یا بری بہرحال انہوں نے پچھلے بیس سال میں خود کو اقتدار میں رکھا ہوا اور یہ معمولی بات نہیں ہے۔
یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں کوئی بھی وزیر فردوس کے وزیر بننے پر خوش نہیں تھا۔ سب وزیر ان کی برائیاں کرتے اور ایک ہی بات پر میڈیا بھی گلہ کرتا کہ وہ پی ٹی آئی کا فیس نہیں تھیں اور ان کو سخت زبان کی وجہ سے کوئی پسند نہیں کرتا تھا‘ اس کے باوجود وہ عمران خان کی پسندیدہ وزیر رہیں کیونکہ وہ فرنٹ فٹ پر کھل کر کھیلنے پر یقین رکھتی ہیں۔ عمران خان خود فطری طور پر جارحانہ مزاج کے ہیں وہ ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو کسی کے ساتھ رعایت نہ کریں۔ اسی لیے عمران خان صاحب نے جب فردوس کی جگہ شبلی فراز کو وزیر بنایا تو انہیں نصیحت کی کہ میڈیا سے ڈرنا نہیں ہے‘ اگر ڈر گئے تو تمہاری خیر نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو کیسے وزیر پسند ہیں۔ وزیر اعظم فردوس کو ہٹانے پر تیار نہیں تھے اگر فردوس کی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے براہ راست لڑائی نہ ہوتی جو ان کی وزارت میں مداخلت کررہے تھے۔ اندر کی بات یہ ہے اعظم خان نے فردوس عاشق اعوان کو کہا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں تو بات ختم ہوجائے گی ورنہ سنگین نتائج ہوں گے۔ اس پر فردوس نے جواب دیا: مطلب‘ ایک سرکاری ملازم کی دھمکی پر استعفیٰ دے دوں تو میں کرپٹ نہیں ہوں ‘ اگر نہ دوں تو میں کرپٹ ہو جائوں گی اور میرے خلاف باقاعدہ مقدمہ اور میڈیا کیمپین چلے گی؟
فردوس سے وزرا اس لیے بھی ناخوش تھے کہ وہ سمجھتے تھے وہ ان کی وزارتوں کا دفاع میڈیا میں نہیں کرپارہیں۔ اس پر فردوس کا کہنا تھا: تم لوگوں نے پرفارمنس دکھانی ہے۔ اگر آپ سے وزارتیں نہیں چل رہیں اور سکینڈلز سامنے آرہے ہیں توکیسے میڈیا کو مجبور کرسکتی ہوں کہ وہ آپ کو فرشتہ بنا کر پیش کریں؟
بلا شبہ فردوس صاحبہ ایک متنازعہ سیاسی کردار رہی ہیں۔ ان پر بڑا الزام یہی لگتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر وفادار نہیں‘ پارٹیاں بدلتی رہتی ہیں ۔ خیر یہ وہ طعنہ ہے جو کوئی سیاستدان کسی کو بھی دینے کے قابل نہیں رہا‘ سوائے چند ایک کے۔ میں خود بھی فردوس صاحبہ کے مداحین میں نہیں رہا ۔ جب وزیر بنیں تو کسی فنکشن میں ملاقات ہوئی۔ بولیں: آپ سے ملنا ہے۔ میں نے کہا: جی ضرور۔ پورا سال وہ ملاقات نہ ہوسکی ۔ اب مجھے نہیں پتہ وہ قصور وار ہیں یا بے قصور اور ان پر جو الزامات لگ رہے ہیں وہ سچے ہیں یا جھوٹے لیکن ان کو ایک بات کی میں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ہر دور میں سیاست میں survive کرتی آئی ہیں اور ہر دور میں ان کے پاس کوئی نہ کوئی اہم وزارت رہی ہے چاہے وہ الیکٹڈ تھیں یا نہیں ۔ وہ عمران خان کی حکومت میں الیکٹ ہو کر وزیر نہیں بنی تھیں۔ انہیں تو چاہیے تھا دوسرے وزیروں کی طرف ہر وقت خوشامدیں کرتیں‘ لیکن انہوں نے سیدھی پرنسپل سیکرٹری سے ہی ٹکر لے لی۔ اب جب عمران خان بھی فردوس کو میسجز کررہے ہیں کہ وہ اعظم خان کا نام ٹی وی انٹرویوز میں مت لیں، وہ پھر بھی وزیراعظم کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں فردوس عاشق اعوان غالباً پہلی سیاسی رہنما ہیں‘ جو کسی بھی وزیر اعظم کے پسندیدہ ترین اور طاقتور پرنسپل سیکرٹری کے سامنے اکڑ کر کھڑی ہو گئیں‘ انہیں ان کے دفتر میں ان کے منہ پر خوب سنائی ہیں اور یہ کہہ کر استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا کہ ایک سرکاری ملازم کی کیا جرأت کہ وہ ایک سیاسی وزیر سے استعفیٰ مانگے۔ فردوس عاشق اعوان کا وزیراعظم اور ان کے پسندیدہ افسر کے خلاف ایک خاتون ہو کر ڈٹ جانا خصوصاً جب سب مرد وزرا مسلسل خوشامد کرتے ہیں، اچھا شگون ہے یا برا ، یہ آپ خود فیصلہ کر لیں۔
بہرحال سیالکوٹ کی خاتون سیاستدان فردوس عاشق اعوان نے تمام تر الزامات اور سوشل میڈیا پر ان پر چھوڑی گئی گالی گلوچ بریگیڈ کے باوجود جھکنے سے انکار کرتے ہوئے حکمرانوں کو پہلا پتھر مار دیا ہے۔