تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-05-2020

سرخیاں، متن اور ابرار احمد کی نظم

معاشی بربادی کا بوجھ مزدور برداشت کر رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''معاشی بربادی کا سب سے زیادہ بوجھ مزدور برداشت کر رہے ہیں‘‘ بلکہ ہم مزدوروں سے بھی زیادہ برداشت کر رہے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ معاشی بربادی ہماری ہو رہی ہے، کم از کم مزدوروں کی جائیدادیں تو ضبط نہیں کی جا رہیں جبکہ میں نے واپس آ کر سخت غلطی کی ہے اور اب پھر روانگی کی تیاریاں کر رہا ہوں اور کسی ایسی بیماری کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہوں جس کی بنا پر مجھے فوراً روانگی کا پروانہ مل جائے اور میری جان خلاصی ہو‘ جبکہ واپس آنا میری سب سے بڑی حماقت تھی۔ آپ اگلے روز پٹرولیم مصنوعات میں کمی پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔
مشکل ترین قومی بحران، وزیراعظم کام کریں یا گھر جائیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مشکل ترین قومی بحران، وزیراعظم کام کریں یا گھر جائیں‘‘ اور اصل کام یہی ہے کہ ہمیں پیسے دیں کیونکہ یہاں تو نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے اوپر سے اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی تیاری ہو رہی ہے جس کا مقصد ہی ہمارے ٹھُوٹھے پر ڈانگ مارنا ہے‘ حالانکہ ڈانگ سے دشمن کا سر پھاڑا جاتا ہے یا اپنی چارپائی تلے پھیری جاتی ہے جبکہ ہماری چارپائی تلے ڈانگ پھیرنے کی تو جگہ ہی نہیں ہے کیونکہ وہ ساری کی ساری جگہ رزقِ حلال سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے حکومت اور خاص کر طور پر احتساب ادارے کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر صوبائی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کا علاج جاری، کورونا کے باعث سرجری ملتوی : مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا علاج جاری، کورونا کے باعث سرجری ملتوی ہوئی ہے‘‘ اور کورونا کے آنے سے ہی بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ہے ورنہ سرجری ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ دستیاب ہی نہیں ہو رہا تھا اور اب حسبِ سابق گھر پر ہی ان کا علاج ہو رہا ہے کیونکہ ہسپتال میں بھی کورونا کے باعث داخل ہونا ممکن نہ تھا اور گھر پر بھی ان کا علاج بالغذا ہی ہو رہا ہے کیونکہ غذا کے ذریعے علاج انہیں راس بھی آ رہا ہے کہ جتنی انہیں بیماریاں ہیں اتنی ہی قسم کی انہیں ڈشیں بھی تیار کر کے دی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
میرے پاس کیا کچھ نہیں
میرے پاس
راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی...
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد...
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ...
میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدّیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے، بادل برستے، مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا،
اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آنکھوں میں 
ایک گرتے ہوئے شہر کا ملبہ ہے...
ایک مستقل انتظار
اور آنسو...
اور ان آنسوئوں سے پھول کھلتے
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میری آواز میں بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس، بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر
تیار کیا گیا ہے
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں...
میں رد کیے جانے کی خفت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی
درگزر
اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت
اور تم پر اختیار کے سوا...
آج کا مقطع:
ظفرؔ ، غلط ہے کہ میں اُس کو پا نہیں سکتا
یہ میرے ہاتھ پہ اُس کی لکیر تو دیکھو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved