کہا جاتا ہے جن کا برج سرطان ہوتا ہے ان کو چاند‘ زمین اور پانی بہت پسند ہوتا ہے۔مجھے بھی ان تینوں چیزوں سے عشق ہے اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جن کو یہ پسند نہ ہوں۔ادیب‘ شعرا ‘ محقق‘ کوہ پیما‘ سیاح اور سائنسدان سبھی کو چاند‘ زمین اور پانی سے عشق ہوتا ہے۔اپنے بچپن میں جب میں نے امی ابو سے دوربین کی فرمائش کی تو وہ حیران رہ گئے کہ مجھے اس کی کیوں ضرورت پیش آئی‘ میں نے ان کوکہا کہ میں نے چاند کے خدوخال قریب سے دیکھنے ہیں‘ وہ دونوں مسکرائے‘ کچھ دن بعد مجھے ایک دوربین مل گئی۔میں اکثر آسمان پر چاند ستارے دیکھتی اور اپنی بہن کو کہتی کہ اگر خلائی مخلوق یا اڑن طشتری نظر آگئی تو کیا ہو گا؟اس کے بعد میں نے محدب شیشہ بھی خرید لیا اور اکثر سکول کی لیب میں خوردبین کی مدد سے مختلف اجزا کا معائنہ بھی کرتی۔میرے سکول کے ساتھی اس بات سے واقف ہیں کہ مجھے دنیا کا نقشہ بنانے کا کتنا شوق تھا‘ مطالعہ پاکستان اورجغرافیہ میں میرے نمبر سب سے زیادہ ہوتے اور ریاضی میں بمشکل پاس ہوتی۔میرے اساتذہ اور والدین مجھ سے خفا ہوتے کہ ریاضی کی وجہ سے میری سالانہ امتحانات میں ڈویژن متاثر ہوگی‘ تو میں نے دل پر پتھر رکھ کر ریاضی پر توجہ دی‘ اس کے بعد میری زندگی میں شاید ہی وہ ریاضی کبھی کام آئی ہو۔کالج میں اکنامکس اور جغرافیہ رکھا ‘میرا شوق بھی یہی تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم اسی میں حاصل کروں گی۔کالج میں ہمیں زمین‘موسم ‘اوزن کی تہہ‘گرین ہاؤس ایفیکٹ‘سمندروں ‘دریاوں ‘پہاڑوں کی اقسام‘حجریہ ایندھن‘متبادل توانائی‘ زمینی حیات‘مٹی کی اقسام ‘ہوائیں الغرض بہت سی چیزوں کے بارے میں پڑھایا گیا ‘جن کا تعلق قدرت سے ہے۔ اُس وقت ڈائل اَپ کنکشن کے ساتھ گوگل تک رسائی آسان نہ تھی ‘لیکن میں پھر بھی کوشش کرتی کہ زمین کے خدوخال اور قدم تہذیوں کے بارے میں جان سکوں۔تقاریر‘ مضمون نویسی اور اخبارات میں لکھنا ہی مجھے صحافت کی طرف لے گیا اور میں نے ایم ایس سی بھی ابلاغیات میں کی ‘مگر زمینی حقائق سے دلچسپی آج بھی برقرار ہے۔
پاکستان جس محل وقوع پر قائم ہے یہ خطہ قدیم تہذیبوں کا مسکن رہا ہے‘ گندھارا‘ بدھ مت ‘ہڑپہ ‘موہنجو داڑو‘ مغلیہ تہذیب کے آثار یہاں پر موجود ہیں۔ یونیسکو ورلڈ ہیرٹیج نے مکلی ٹھٹھہ ‘ موہنجو داڑو‘ شالامار باغ اور شاہی قلعہ لاہور ‘روہتاس قلعہ ‘ ٹیکسلا کے کھنڈرات اور تخت بھائی میں بدھ مت کے آثار کو ورلڈ ہیریٹج لسٹ میں شامل کیا ہے۔اس کے ساتھ 26 مقامات اور بھی ہیں جو عارضی فہرست کاحصہ ہیں جن میں لاہور میں مسجد وزیر خان ‘بادشاہی مسجد اورجہانگیر کا مقبرہ ‘ شیخوپورہ میں ہرن مینا ر ‘،ملتان میں شاہ رکن عالم کا مزار‘شاہ جہاں مسجد ٹھٹھہ ‘ قلعہ رانی کوٹ دادو‘مہر گڑھ اور رحمان ڈھیری کے آثار قدیمہ ‘ہڑپہ‘بلتت فورٹ‘بی بی جیوند ی کا مقبرہ‘چولستان کا قلعہ‘قراقرام نیشنل پارک‘سالٹ رینج کھیوڑہ‘جونیپر زیارت اور دیوسائی نیشنل پارک شامل ہیں۔
اس قدر ثقافتی ورثہ ہونے کو باوجود ہماری حکومتیں اس کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔بھارت صرف تاج محل سے اربوں کا منافع کمارہا ہے اور ہم اتنی قدیم تہذیبوں اور آثارِ قدیمہ کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہمیں تاریخ کے ساتھ جوڑ کررکھتا ہے۔ زمین کی تاریخ ہماری ثقافت‘ فکر ونظر‘ علم ادب کی میراث ہے‘اس لئے اس ثقافتی ورثے کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔پاکستان میں پائی جانی والی قدیم تہذیبوں کے لوگ بہت ترقی یافتہ تھے‘ زراعت ‘گلہ بانی ‘ کاریگری اور نقاشی ان کاذریعۂ معاش تھا۔وہ لوگ تعلیم یافتہ اور مذہبی تھے۔محکمہ آثار قدیمہ ان کے زندگی کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا چکا ہے اور بہت سے راز کھوج رہا ہے۔علمِ آثار ِ قدیمہ اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے‘ تاکہ قدیم تہذیبوں کو جاننے کا موقع ملے‘تاہم پاکستان میں نوجوان نسل اس شعبے کی دلدادہ نہیں ہے۔
میں بطور سیاح قلعہ روہتاس ‘ شاہی قلعہ لاہور ‘ ٹیکسلا‘موہنجو داڑو‘سالٹ رینج کھیوڑہ اور مکلی کا قبرستان دیکھ چکی ہوں اور میری خواہش ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد دیگر مقامات بھی دیکھوں تاکہ ان کے حوالے سے مزید کچھ لکھا جائے‘تاہم ایک بات جو میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سیاحتی مقامات کے آس پاس اچھی قیام و طعام کی سہولیات نہیں ہوتیں۔دوسرا سیاح بھی اس چیز کا خیال نہیں کرتے کہ ہزاروں سال پرانی جگہوں پر سیاحت کے کیا اصول ہیں۔جس وقت میں قلعہ روہتاس گئی تو قلعے کی حالت خستہ تھی اور بکریاں وہاں آزادانہ گھومپھر رہی تھیں۔شدید گرمی تھی اور قریب کوئی اچھی جگہ بھی نہیں تھی جہاں سیاح کچھ کھاپی سکیں۔گھاس اور پودے کٹائی نہ ہونے کی وجہ سے اتنے بڑھ چکے تھے کہ حشرات الارض کے مساکن تھے‘راستہ ناہموار تھا اور گائیڈ کا دور دور تک نشان نہ تھا۔حویلی مان سنگھ بہت خوبصورت ہے‘ لیکن بدترین تباہی کا شکار ہے‘ وہاں پر سیر کرتے وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ خستہ حالی کے باعث عمارت کا کوئی حصہ آپ پر نہ گر جائے۔قلعے میں سب سے خوبصورت چیز اس کی باؤلی (پانی کا کنواں) تھی جو سیڑ ھیاں اتر کر اندر جاکر دیکھا جاسکتا ہے۔اسلام آباد سے جب میں لاہور شاہی قلعہ دیکھنے گئی تو وہاں لوکل افراد کا ہی اتنا رش تھا کہ دوسرے شہر سے آنے والے سیاح کو کیا جگہ ملنی تھی‘ خیر میں نے اتوار کو قلعہ دیکھنا مؤخر کیا پھر پیر والے دن مجھے قدرے کم رش میں قلعہ دیکھنے کا موقع ملا۔اسلام آباد کے اردگرد کاحصہ بھی قدیم تہذیب کا مرکز رہا ہے ‘یہاں شاہ اللہ دتہ کے غار موجود ہیں جوکہ 2400 سال پرانے ہیں۔سات سو سال قبل شاہ اللہ دتہ نام کے بزرگ نے اس گاؤں کو آباد کیا تھا‘ اس لئے یہ غار ان کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ غار بدھ مت دور کے ہیں۔ یہاں سے سکندر اعظم اور مغل حکمرانوں کے قافلے گزرتے رہے۔کہا جاتا ہے کہ ٹیکسلا کے راجہ امبھی نے سکندر اعظم کا یہاں استقبال کیا تھا‘تاہم یہاں جاکر بھی شدید رنج ہوا ‘پہاڑ تباہی کے دہانے پر ہیں ‘یہاں پر گھر بن رہے ہیں اور لوگ غاروں کے سامنے چارپایاں ڈال کر بیٹھے تھے۔مجھے اس بات پر شدید حیرت ہوئی کہ دارالحکومت میں اگر قدیمی ثقافتی ورثے کے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے تو باقی ملک میں آثارِ قدیمہ کا کیا حال ہو گا۔یہاں کے جنگلات میں متعدد بار آگ بھی لگ چکی ہے۔یہاں پر شیرشاہ سوری نے کنواں بھی تعمیر کیا تھا جو آج تک موجود ہے‘تاہم کسی کی توجہ نہیں ورنہ‘ حکومت یہاں سے بہت منافع کماسکتی ہے۔
اسلام آباد کے قریب کاروان سرائے اور پھر والا قلعہ بھی حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔2016 ء میں بھی محکمہ آثار قدیمہ نے سروے کیا تھا ‘اس کے تحت اسلام آباد کے زون فور میں آٹھ قدیمی مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔حال ہی میں اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں چار ہزار سال قدیم برتن اور پتھر ملے ہیں جن کا تعلق ہڑپہ تہذیب سے بتایا جارہا ہے۔حکومت بدھ مت کے پیروکاروں کی بڑی تعداد کو پاکستان کی سیاحت کی طرف ترغیب دے سکتی ہے۔ٹیکسلا کا بھمالہ سٹوپا خاص طور پر ان کے لیے اہمیت کا حامل ہے ‘وہ اپنی مذہبی رسومات کیلئے یہاں آسکتے ہیں۔وزیر اعلی بلوچستان جام کمال نے بھی ٹویٹر پر ایک لسٹ شیئر کی جس میں بلوچستان کے سو سے زائد قدیمی مقامات کے حوالے سے تفصیل درج تھی۔اس کے حوالے سے انہوں نے ٹویٹر صارفین سے تجاویز بھی مانگیں۔میں اس پر یہ کہوں گی کہ جب تک سکیورٹی اچھی نہیں ہوگی‘ سڑک اچھی نہیں ہو گی‘ قیام و طعام کی سہولیات اچھی نہیں ہوں گی‘گائیڈ موجود نہیں ہوں گے‘ معلوماتی سائن بورڈ اور سائٹ کے حوالے سے معلوماتی کتابچے موجود نہیں ہوں گے لوگ وہاں نہیں آئیں گے۔
ہمیں اپنے تقافتی ورثے کو تباہی سے بچانا ہوگا‘ مختلف تہذیبوں کے آثارِ قدیمہ کو محفوظ بنانا ہوگا۔حکومت ان کی حفاظت کیلئے فوری اقدامات کرے ‘ ان مقامات سے کچھ فاصلے پر قیام طعام کی اچھی سہولیات دی جائیں تاکہ سیاح یہاں جائیں۔ اس کے ساتھ نوادارت کی چوری اورسمگلنگ پر کڑی سزا دی جائے اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کو پابند سلاسل کیا جائے۔پاکستان میں موجود تہذیبی آثار کے حوالے سے دستاویزی فلمیں ٹی وی پر چلائی جائیں تاکہ سب لوگ ملک میں موجود قدیمی تہذیبی ثقافتی ورثے سے واقف ہوسکیں۔کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اس کی پہچان ہوتی ہے‘ ہمیں ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا ہوگی۔