تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-05-2020

کیا کورونا انسانیت کے خلاف سازش ہے ؟

اپنے اپنے شعبے کے بڑے نامور لوگ بھی کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ کوروناوائرس ایک سازشہے ۔ عبد اللہ حسین ہارون صاحب کو تو کوروناوائرس کا پیٹنٹ نمبر تک معلوم ہو گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ چین کی جو قیادت ہے ‘کیا وہ اس بات کی اہلیت نہیں رکھتی کہ اقوامِ متحدہ‘ عالمی عدالتِ انصاف یا کسی اور عالمی فورم پر یہ سب معلومات پیش کر کے امریکہ کی بے عزتی کر سکے ؟ اگر یہ گھنائونا کام چین والوں نے کیا ہے تو کیا امریکہ ساری دنیا کے سامنے اس کے یہ کرتوت طشت از بام نہیں کرے گا؟ کون بخشتا ہے کسی دشمن ملک کو‘ لیکن کچھ ہو بھی تو سہی ثابت کرنے کے لیے ۔عبد اللہ حسین ہارون صاحب کا یہ شعبہ ہی نہیں ‘ یہ وائرالوجسٹ کا شعبہ ہے اور وہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ 
اگر کسی انسان نے یہ وائرس بنایا ہے تو اس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اگر کسی بھی عالمی طاقت نے اپنی لیبارٹری میں یہ وائرس بنایا ہو تو مخالف عالمی کھلاڑیوں کے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ اس کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کر کے اس کا منہ کالا کر سکیں۔ ہر جرم اپنے پیچھے شواہد چھوڑ جاتا ہے ۔ صرف چین اور امریکہ ہی نہیں ‘ پوری دنیا میں سائنسدان کوروناوائرس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ یہ جو ڈاکٹر عطا الرحمن کے ادارے نے کوروناکا جینیٹک کوڈ پڑھ لیا ہے ‘ اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوروناکے بارے میں وہ معلومات رکھتے ہیں ‘ جو دوسرے نہیں رکھتے ۔ انہیں پتہ ہے اس بات کا کہ یہ وائرس خود evoluteہوا ہے یا کسی لیبارٹری میں بنا ہے۔ اگر کوئی سائنسدان یہ مؤقف اختیار کرے اور اس کے ثبوت پیش کردے تو سائنسی دنیا میں اس کے لیے نام کمانے کا یہ ایک سنہری موقعہ ہے ۔ یہ اسی طرح ہے ‘ جیسے ایک رپورٹر بہت بڑی سٹوری بریک کر دے ۔ 
لیکن کوئی یہ سٹوری بریک نہیں کر رہا ۔ صحافیوں میں ایسے ہیں کہ جنہیں جب کوئی سٹوری نہیں ملتی تو ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔سکینڈل گھڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس طرح کے نمونے سائنسدانوں میں بھی ہیں‘ لیکن ماہرین کی مجموعی رائے دیکھنا ہوتی ہے ۔ جو لوگ اس بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں وہ ہیں سائنسدان۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سائنسدان چپ بیٹھے ہیں ‘ دوسرے شعبوں کے ماہرین فرنٹ لائن پہ بیانات دے رہے ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ ایک جنرل اس قدر خوفناک جنگی ماہر ہو کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو تہس نہس کر کے رکھ دے لیکن جب وہ آئی ٹی کی دنیا میں قدم رکھے گا تو اس کی عسکری عظمت یہاں اس کے کام نہیں آسکتی ۔ آئی ٹی والا اپنے شعبے کا چاہے جتنا بڑا ماہر ہو‘ وہ جنگ نہیں لڑ سکتا‘ لیکن یہاں آجاتا ہے صحافیوں کا شعبہ ۔ ایک پروفیشنل صحافی اس قابل ہوتاہے کہ جب کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا واقعہ ہو تو وہ اس شعبے کے ماہرین کی مجموعی رائے سمجھ کر اسے عام لوگوں کو سمجھا سکے ۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک شعبے کے تمام ماہرین آپ کو دھوکہ دینے پر تل جائیں ۔ہر شعبے میں آزاد لوگ لازماًموجود ہوتے ہیں ۔ 
کوروناوائرس پر ان تھیوریز کو تسلیم کرنے میں مجھے کوئی حرج نہ ہوتا ‘ اگر سازش کرنے والے کسی اور سیارے پہ مقیم ہوتے ۔ اگر کوئی مریخ سے آکر زمین پر کوروناپھینک کر واپس بھاگ جاتا تو بات سمجھ میں آتی۔ ایک بندہ خود بھی جس تالاب میں کھڑا ہے ‘ وہ اس میں تیزاب کیسے ڈال سکتاہے کہ دشمن کو تکلیف دے سکے ۔ کرّہ ٔارض ایک کشتی کی طرح ہے ‘ اگر ایک شخص بھی اس میں سوراخ کرے گا تو سب اکٹھے ڈوبیں گے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کورونانے عالمی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے ۔ کرّہ ٔ ارض پہ اگر کوئی وبا پھیلانے کی کوشش کرے گا تو لازماً یہ وبا پلٹ کر اس کے بیوی بچوں ‘ ماں باپ اور بہن بھائیوں تک آئے گی۔ اگر اس نے ویکسین چھپا رکھی ہے تو پھر بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ فلاں جگہ لو گ بیمار نہیں ہو رہے ۔ بالفرض کوروناوائرس انسانی ہاتھوں سے بنا تو پھر بنانے والے کا مقصد کیا تھا؟ کسی کا مشن تھا کہ بوڑھوں اور بیماروں کو ختم کرو دنیا سے؟ تو جو دنیا کے فیصلوں پہ اثر انداز ہورہے ہیں‘ ان کی ایک عظیم اکثریت تو پچاس برس سے زیادہ عمر والے لوگوں کی ہے ۔ انہی کے ہاتھ میں سب معاملات ہیں۔ 
سویت یونین والے جب چاند پہ اترنے کی دوڑ میں امریکہ سے ہار گئے تو انہوں نے کبھی کسی عالمی فورم پر یہ نہیں کہا کہ امریکہ نے فراڈ کیا ہے ۔ انہوں نے وہی کیا ‘ جو ان کے بس میں تھا اور وہ تھی ڈس انفارمیشن کی ایک جنگ ۔ اس وقت ہر جگہ پر‘ خصوصاً سوشل میڈیا آنے کے بعد دنیا بھر میں ڈس انفارمیشن کی جنگ لڑی جا رہی ہیں۔ یہ جو دن رات واٹس ایپ پر پیغامات موصو ل ہوتے ہیں ‘ انہیں بیٹھ کر کوئی ڈیزائن کر رہا ہوتا ہے ۔ ان کا contentایسا ہوتاہے کہ ہر دیکھنے والا دیکھتے ساتھ ہی قائل ہو جائے اور پھر اپنے حلقے میں اسے پھیلا دے ۔ کوروناکو اس لیے بھی سازش سمجھا جا رہا ہے کہ وہ صرف دو چار فیصدلوگوں کو ‘ بیماروں اور بوڑھوں کو مارتا ہے ۔ ایک عظیم اکثریت جب جلد ہی صحت یاب ہو جاتی ہے ‘ جیسا کہ زکام میں ہوتاہے تو لوگ اسے سازش سمجھنے لگتے ہیں ۔ اگر مرنے والوں کا تناسب سو میں سے دس ہوتا اور ان میں نوجوان بھی شامل ہوتے تو کوئی بھی سازش کا شک نہ کرتا۔وائرس کو اب کون سمجھائے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ آدمی تو دوسری بیماریوں سے مر جاتے ہیں ۔ پھر کوروناکا اتنا شور کیوں ؟ کوروناکا اتنا شور اس لیے ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتا ہے اور ایک بندے سے دوسرے کو لگتاہے ۔ کوروناپورے کرّہ ٔ ارض پہ پھیل گیا ہے۔ امریکہ اور چین دو متحارب عالمی قوتیں ہیں اور وہ پاگل نہیں کہ کسی سازش کی وجہ سے اپنی سرحدیں اور کاروبار بند کر کے بیٹھ جائیں۔
کورونامیں اصل فیکٹر خوف ہے ۔ مرنا صرف دو‘ چار فیصد نے ہے ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب سپینش فلو پھیلا تھا تو اس نے دنیا کے ہر تیسرے شخص کو بیمار کر دیا تھا ۔ ہلاکتوں کی تعداد تین چار کروڑ تک جا پہنچی تھی ۔ اکثر بیماریاں ایک سے دوسرے کو نہیں لگتیں۔ اگر دل کے سو مریض ایک صحت مند شخص کے پاس کھڑے ہوجائیں تو بھی اس کا دل کمزور نہیں ہوگا‘ جبکہ وائرس سب لوگوں کو لگ جائے گا اور سب اس کے کیرئیر بن جائیں گے اور بیچ میں جو دو چار بوڑھے اور بیمار ہو ں گے ‘ وہ مر جائیں گے ۔ کوروناانسانیت کے خلاف ایک سازش نہیں۔ یہ ایک وائرس ہے ‘ جوکہ ساری دنیا میں پھیل گیا ہے اور جس میں ہلاکت کا تناسب صرف چند فیصد ہے ۔ ماضی میں آنے والے کچھ وائرس اس کی نسبت کہیں زیادہ خوفناک تھے ۔(جاری ) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved